پنجاب میں سیلاب اور کسانوں کی حالت زار

پنجاب میں سیلاب اور کسانوں کی حالت زار
تحریر : امتیاز احمد شاد
پنجاب، پاکستان کا زرعی صوبہ، جہاں کی زمین نہ صرف اس کی معیشت کا مرکز ہے بلکہ یہاں کی کھیتیاں ملک کے غذائی تحفظ کا اہم حصّہ بھی ہیں، حالیہ سیلاب کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں میں دریاں میں پانی کے بہائو میں اضافے نے شدید سیلابی صورتحال پیدا کی۔ سیلاب نے لاکھوں ایکڑ زمین کو متاثر کیا، فصلوں کو تباہ کیا، اور مقامی آبادی کو بے حد نقصان پہنچایا۔ اگرچہ اب پانی کا بہائو نارمل ہو چکا ہے، لیکن متاثرہ علاقوں میں سیلابی پانی کی موجودگی نے ابھی تک زندگی کو معمول پر لانا مشکل بنا دیا ہے۔
پنجاب کے مختلف حصوں میں دریائوں میں پانی کا بہائو زیادہ ہونے کی وجہ سے سیلاب کا آغاز ہوا۔ دریائے ستلج، چناب، راوی اور بیاس نے اپنے کنارے پار کر کے قریبی آبادیاں اور کھیتوں کو زیرِ آب کر لیا۔ ان علاقوں میں تباہی کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی پر پانی کھڑا ہو گیا، جس سے نہ صرف فصلیں تباہ ہو گئیں بلکہ کئی مکانات بھی سیلابی پانی میں بہہ گئے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں قصور، بہاولنگر، پاکپتن، شیخوپورہ، ملتان، بہاولپور اور جھنگ شامل ہیں۔ ان علاقوں میں چاول، گندم، اور مکئی کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ۔ چاول کے کھیت جو پہلے سے ہی برسات کی بارشوں کی وجہ سے پانی سے تر تھے، ان پر مزید سیلابی پانی نے فصلوں کو پوری طرح سے تباہ کر دیا۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ قدرتی آفت ان کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ بن چکی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ان کی تمام محنت رائیگاں گئی۔
پنجاب کے کسان اس قدرتی آفت کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ سیلاب نے ان کی فصلوں کو تباہ کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے روزگار کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ کپاس، چاول اور دیگر زرعی فصلوں کا نقصان صرف کسان کے لیے مالی بحران نہیں لایا، بلکہ اس کے اثرات پورے صوبے کی معیشت پر پڑے ہیں۔ کسانوں کی مشکلات صرف زرعی نقصان تک محدود نہیں رہیں، بلکہ سیلاب کے باعث ان کی روزمرہ زندگی بھی متاثر ہوئی۔ بہت سے کسان اپنے گھروں تک پہنچنے کے لیے مجبور ہو گئے جب سیلاب کے پانی نے سڑکوں اور پلوں کو تباہ کر دیا۔ کئی کسانوں نے اپنی زمینوں کو بچانے کی کوشش کی، مگر قدرتی آفات کے سامنے انسان کا کچھ بھی نہیں چلتا۔ کچھ کسان اپنے مویشیوں کے ساتھ پناہ گاہوں کی تلاش میں رہے، جبکہ کچھ اپنی بچتیں ضائع ہو جانے کے بعد مالی مشکلات کا سامنا کرنے لگے۔
حکومت پنجاب نے سیلاب کے متاثرین کے لیے فوری طور پر امدادی سرگرمیاں شروع کیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں فوج اور ضلعی انتظامیہ کی مدد سے ریلیف کیمپ قائم کیے گئے، جہاں متاثرین کو کھانا، پانی اور پناہ گاہ فراہم کی گئی۔ حکومت نے کسانوں کے لیے فوری امداد کے طور پر مالی پیکیج کا اعلان کیا، جس میں قرضوں کی معافی اور فصلوں کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے مالی معاونت شامل تھی۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے امدادی کاموں کا آغاز کیا گیا تھا، مگر ان اقدامات میں تاخیر اور کم وسائل کی فراہمی نے متاثرہ افراد کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ بہت سے کسانوں نے حکومت سے فوری مالی مدد کی درخواست کی تاکہ وہ اپنی فصلوں کو دوبارہ لگا سکیں۔ تاہم، امدادی سرگرمیاں اکثر سست روی کا شکار ہوئیں، جس سے کسانوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔ پنجاب میں سیلاب کے دوران سوشل میڈیا کا کردار اہم رہا۔ مختلف سماجی تنظیموں، کسانوں اور رضا کاروں نے سوشل میڈیا پر سیلاب کی شدت اور اس کے اثرات کو اجاگر کیا۔ سوشل میڈیا پر سیلابی پانی کے نقصان کی تصاویر اور ویڈیوز نے لوگوں کو اس آفت کی سنگینی کا احساس دلایا اور عوامی سطح پر حمایت حاصل کی۔ اس کے باوجود، سوشل میڈیا پر زیادہ تر باتیں باتوں تک ہی محدود رہیں۔ مختلف اداروں، حکومتوں اور افراد نے اس پر کئی پیغامات اور ٹیگ بنائے، مگر عملی اقدامات کی کمی محسوس ہوئی۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کی ہمدردی کے اظہار کے باوجود، متاثرین تک فوری مدد پہنچانے میں مشکلات آئیں۔ سوشل میڈیا کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ اس نے عالمی سطح پر مسئلہ اجاگر کیا اور عالمی امدادی اداروں کی توجہ حاصل کی۔ اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر بھی فنڈز اور امداد کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے گئے، مگر یہ مدد بھی مکمل طور پر متاثرین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوئی۔
سیلاب کے بعد کسانوں کی مدد کے لیے صرف حکومتی امداد کافی نہیں ہے۔ ایک مکمل حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں نہ صرف فوری امداد بلکہ طویل المدتی اقدامات شامل ہوں۔ کسانوں کو فوری طور پر مالی امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنی فصلوں کو دوبارہ کاشت کر سکیں اور اپنے کاروبار کو دوبارہ سے شروع کر سکیں۔ اس کے علاوہ، کسانوں کے موجودہ قرضوں کی معافی کا بھی اعلان کیا جائے تاکہ وہ معاشی دبا سے آزاد ہو سکیں۔ پنجاب میں آبی بحران کی شدت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ کسانوں کو جدید آبی انتظام کی تکنیکوں سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ فصلوں کی حفاظت کے لیے بہتر طریقوں کا انتخاب کر سکیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے کسانوں کو اس بات کا علم ہو سکے گا کہ ان کی فصل کو کب اور کس طرح خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ سیلاب کی پیشگی اطلاع اور صحیح وقت پر اقدامات کرنے سے نقصان کم ہو سکتا ہے۔ کسانوں کو مختلف قدرتی آفات سے بچنے کے لیے آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں ان آفات کے اثرات سے بچنے کے لیے تربیت دی جائے تاکہ وہ آئندہ ایسے حالات سے بہتر طور پر نمٹ سکیں۔ حکومت کو آفات کے لیے ایک مخصوص فنڈ قائم کرنا چاہیے جس سے سیلاب یا دیگر قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کو فوری طور پر مالی مدد فراہم کی جا سکے۔
پنجاب میں سیلاب نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ قدرتی آفات کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ہمیں بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اگرچہ دریاں کا بہائو نارمل ہو چکا ہے اور سیلابی پانی آہستہ آہستہ اتر رہا ہے، مگر اس تباہی نے کسانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا کیا ہے۔ سوشل میڈیا اور حکومتی امدادی سرگرمیاں اہم ہیں، مگر یہ وقت کا تقاضا ہے کہ عملی طور پر کسانوں کی مدد کی جائے اور ایک مضبوط حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ وہ قدرتی آفات سے بچنے کے قابل ہوں اور دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔





