محکوم

محکوم
تحریر : علیشبا بگٹی
مارکس کے مطابق کسی بھی دور کے غالب نظریات، دراصل اس دور کے حکمران طبقے کے نظریات ہوتے ہیں۔ یعنی کارل مارکس کہتے ہیں کہ یہ حکمران طبقے کے اپنے ذاتی خیالات ہوتے ہیں۔ جنہیں دراصل ہر دور میں نظریات کا روپ دے کر لوگوں میں پھیلا دیا جاتا ہے۔ یعنی وہ طبقہ جو معاشرے پر حکومت کرتا ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ اس معاشرے کے ذہنوں پر بھی حکومت کرتا ہے۔ حکمران وہ طبقہ ہے جس کے کنٹرول میں مادی پیداوار کے تمام ذرائع ہوتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ ذہنی پیداوار کے تمام ذرائع تعلیم، لٹریچر، میڈیا، اخبارات، رسائل خبروں پر بھی ان حکمرانوں کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے۔ تاکہ عام طور پر وہ انپڑھ یا کم تعلیم یافتہ لوگ جن کے پاس اپنا ذہن، فکر، خیالات و نظریات نہیں ہوتے، وہ اس حکمران طبقے کے تابعدار اور فرمانبردار غلام بن کر رہیں۔ غالب حکمران طبقے کے نظریات دراصل مادی چیزوں دولت، املاک، بینک، بیلنس، کاروبار، ملازمت، رقبے، اراضی کے اظہار کے سوائے کچھ بھی نہیں ہیں۔ ان مادی چیزوں کی محبت کے ذریعے سے ہی پھر لوگوں کو اپنے قابو میں کیا جاتا ہے۔ مطلب اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقے کے پاس نہ صرف مادی ذرائع پیداوار کارخانے، زمین، سرمایہ وغیرہ کا کنٹرول ہوتا ہے۔ بلکہ ذہنی ذرائع پیداوار تعلیم، مذہب، فلسفہ، میڈیا، ادب وغیرہ بھی انہی کے قابو میں ہوتے ہیں۔ یوں عام لوگ، جو ان ذرائع پر اختیار نہیں رکھتے اور اکثر کم تعلیم یافتہ یا معاشی دبائو میں جکڑے ہوتے ہیں، وہ حکمران طبقے کے نظریات کو ’’ قدرتی‘‘ یا ’’ سچائی‘‘ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ اس طرح ذہنی غلامی پیدا ہوتی ہے۔ مارکس نے یہ بھی کہا تھا کہ نظریات کوئی معصوم چیز نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے مادی مفادات چھپے ہوتے ہیں۔ حکمران طبقہ اپنے ذاتی مفادات دولت، زمین، سرمایہ کو پورے معاشرے کے ’’ عالمی مفاد‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ عوام کو ان مفادات کی محبت اور چمک دکھا کر قابو میں رکھا جاتا ہے۔ اسی لیے مارکس نے طبقاتی جدوجہد کو لازمی قرار دیا۔ کیونکہ جب تک مادی ذرائع پیداوار پر چند افراد یا گروہ قابض رہیں گے، وہی ذہنی و فکری پیداوار پر بھی قابض رہیں گے اور سماج میں حقیقی آزادی ممکن نہیں ہو سکے گی۔ کسی نے کہا کہ لوگوں کو اتنا بیوقوف بنائو کہ محرومیوں اور غربت کو قسمت ، ظلم کو آزمائش ، حق کے لئے آواز اٹھانا جرم، خاموشی اور غلامی کو مصلحت سمجھیں اور قتل کو موت کا دن سمجھیں، جس طرح آج اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے۔
داس کیپیٹل، مارکس کی اس کتاب کو چھپے ٹھیک ڈیڑھ سو سال ہو چکے ہیں۔ یہ کتاب جو کہ سب سے زیادہ اپنے جرمن نام یعنی ’’ داس کیپیٹل‘‘ ہی سے جانی جاتی ہے، دنیا میں ایک عظیم الشان اور پُر ہیبت حوالے کے طور پر اپنی اہمیت منوا چکی ہے۔ اس ایک کتاب کی اہمیت کو کم کرنے اور اس کو غلط ثابت کرنے کیلئے جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، انسانی تاریخ میں کسی اور کتاب کے خلاف ایسا نہیں ہوا۔ انکی تعداد ہزاروں میں ہے۔ پچھلے سال بھی معیشت کے سب سے بڑے جریدے کے سرِورق پر یہی سوال تھا کہ ’’ کیا مارکس واقعی درست تو نہیں تھا ؟‘‘۔
داس کیپیٹل (Das Kapital)جرمن فلسفی اور ماہر معیشت کارل مارکس (Karl Marx)کی سب سے اہم اور مشہور تصنیف ہے، جسے جدید سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظریات کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ کتاب کا اصل جرمن نام،’’ سرمایہ۔ سیاسی معیشت پر تنقید‘‘ ہے۔ پہلا حصہ ( Volume I) 1867ء میں شائع ہوا۔ باقی حصے مارکس کی وفات کے بعد فریڈرک اینگلز نے شائع کئے۔ یہ کتاب سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism)کے معاشی ڈھانچے اور اس کے تضادات کی گہری تنقید ہے۔ مارکس نے اس میں بتایا کہ کس طرح سرمایہ دار محنت کش طبقے (Working Class)کا استحصال کرتے ہیں۔ قدرِ زائد(Surplus Value)کا تصور، یعنی مزدور اپنی اجرت سے کہیں زیادہ مال پیدا کرتے ہیں، اور وہ ’’ زائد قدر‘‘ سرمایہ دار کے پاس جاتی ہے۔ سرمایہ داری کے اندرونی تضادات، جو بالآخر اس کے زوال اور سوشلسٹ نظام کے قیام کی طرف لے جاتے ہیں۔
اس کتاب کے اہم نکات۔
1۔ کسی شے کی اصل قدر اس میں لگنے والی محنت ہے۔
2۔ سرمایہ دار مزدور کو اس کی محنت کے پورے معاوضے کے بجائے کم اجرت دیتا ہے، اور باقی حصہ منافع کی شکل میں رکھ لیتا ہے۔
3۔ سرمایہ داری دولت چند ہاتھوں میں جمع کرتی ہے جبکہ مزدور غربت اور استحصال کا شکار ہوتا ہے۔
4۔ تاریخ کی حرکت معاشی رشتوں اور طبقاتی جدوجہد کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔
یہ کتاب دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں، ٹریڈ یونینز، اور کمیونسٹ پارٹیوں کے لیے نظریاتی بنیاد بنی۔ روسی انقلاب (1917ئ) اور دیگر سوشلسٹ تحریکوں پر اس کا گہرا اثر ہوا۔ آج بھی معاشیات، سیاست اور فلسفے میں اسے کلاسیکی حیثیت حاصل ہے۔
حدیث ہے کہ ’’ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو‘‘۔ مطلب اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ مزدور کی محنت کا احترام کیا جائے اور اسے بروقت اور پورا حق دیا جائے۔ مزدوری میں تاخیر کرنا یا کٹوتی کرنا ظلم ہے۔ محنت کش کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کا حق ادا کرنے کا مطلب ہے کہ اجرت فوراً اور دیانت داری سے دی جائے۔
حال ہی میں چند دِن پہلے البانیہ میں مصنوعی ذہانت سے تیار کی گئی دنیا کی پہلی وزیر نے پارلیمنٹ میں اپنا پہلا خطاب کیا۔ اور اے آئی جنریٹرڈ وزیر نے بھی مارکس کے خیالات سے ملی جھلی بات کی۔ خطاب میں کہا کہ میں یہاں انسانوں کی جگہ لینے کیلئے نہیں آئی ہوں بلکہ ان کی مدد کرنے کیلئے ہوں، کچھ لوگوں نے مجھے غیر آئینی کہا کیونکہ میں انسان نہیں ہوں۔ مصنوعی ذہانت سے تیار کی گئی وزیر نے مزید کہا میں آپ کو یاد دلاتی چلوں آئین کو اصل خطرہ مشینوں سے نہیں بلکہ اقتدار میں رہنے والوں کے غیر انسانی فیصلوں سے ہے۔ البانیہ کے وزیر اعظم ایڈی راما نے گزشتہ ہفتے دنیا کے پہلے اے آئی سے تیار کردہ Al-generatedحکومتی وزیر کا تقرر کیا تھا۔
.







