Column

مجھے امن اور تہذیب کی بھیک دو

مجھے امن اور تہذیب کی بھیک دو
تحریر : شکیل سلاوٹ
امریکہ کی خواہش ہے کہ افغانستان میں مستقل فوجی اڈے قائم کر کے اپنی اسٹریٹیجک موجودگی برقرار رکھے۔ یہ صرف دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا بہانہ نہیں بلکہ چین، روس اور ایران کے گرد دائرہ تنگ کرنے کی پالیسی بھی ہے۔ افغانستان میں امریکی اڈے خطے کے طاقت کے توازن کو براہِ راست متاثر کریں گے۔
امریکی اڈوں کا قیام پاکستان، سعودی تعلقات کے لیے کئی سوالات پیدا کرے گا:
اگر پاکستان امریکی اڈوں کو سہولت دیتا ہے تو یہ معاہدہ سعودی عرب کو مزید قریب کر دے گا، کیونکہ سعودی پالیسی اکثر امریکی مفادات سے جُڑی ہوتی ہے۔
اگر پاکستان محتاط رویہ اپناتا ہے تو سعودی عرب پر بھی دبائو آئے گا کہ وہ واشنگٹن کو مطمئن کرے یا اسلام آباد کے ساتھ کھڑا رہے۔
امریکہ، پاکستان، سعودی مثلث میں ایک نئے امتحان کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
ایران امریکی اڈوں کو اپنی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ سمجھے گا۔ پاکستان اور سعودی عرب کا قریب آنا ایران کے خدشات کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ اسی طرح چین کے لیے بھی یہ پیش رفت تشویشناک ہوگی کیونکہ افغانستان اور پاکستان اس کے ’’ بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر امریکی اڈے خطے میں مضبوط ہو گئے تو بیجنگ کو اپنے منصوبوں پر نظرثانی کرنی پڑ سکتی ہے۔
پاکستان، سعودی دفاعی معاہدہ اور امریکہ کا افغانستان میں فوجی اڈہ حاصل کرنے کا عزم بظاہر دو الگ موضوعات ہیں، لیکن خطے کی سیاست میں یہ ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ جاتی ہیں۔ یہ پیش رفت نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نازک مقام پر لے جائے گی بلکہ پورے خطے میں نئے اتحاد اور محاذ آرائیوں کو بھی جنم دے گی۔
جنگ کا شور ہمیشہ طاقت ور ایوانوں سے اٹھتا ہے، لیکن اس کی راکھ سب سے پہلے کمزور جھونپڑیوں پر گرتی ہے۔ جنگی جنون نے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی امیدوں کو جھنجھور دیا ہے۔ وہ لوگ جو پہلے ہی روزی روٹی کے لیے دن رات جدو جہد کرتے ہیں، اب خوف اور بے یقینی کے سائے میں جینے پر مجبور ہیں۔
بندوق اور بارود کی آوازیں ان معصوم خوابوں کو روند دیتی ہیں جو بچوں کی آنکھوں میں کل کے لیے روشن ہوتے ہیں۔ غربت کے مارے لوگ جنگ نہیں چاہتے، وہ صرف دو وقت کی روٹی، چھت کا سایہ اور سکون کی نیند کے خواہاں ہوتے ہیں۔ مگر فیصلہ سازوں کے جنون میں ان کی آواز ہمیشہ دب جاتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جنگ نے کبھی کسی قوم کو حقیقی خوش حالی نہیں دی، البتہ لاکھوں بے قصور لوگوں کو قبروں کے حوالے ضرور کیا ہے۔ اصل بہادری یہ نہیں کہ توپوں کے دہانے کھولے جائیں بلکہ یہ ہے کہ غربت، جہالت اور ناانصافی کے خلاف جہاد کیا جائے۔ کیونکہ قوموں کی اصل طاقت ہتھیاروں میں نہیں، اپنے عوام کی خوش حالی اور امیدوں میں پوشیدہ ہوتی ہے۔
’’ بارود کی بو روٹی کی خوشبو کو کچل دیتی ہے‘‘۔
جس طرح ’’ غربت کے خلاف جنگ ہی اصل جنگ ہے‘‘
’’ جب تک پیٹ خالی ہے، امن ایک خواب ہے‘‘۔
’’ جنوبی ایشیا کو توپوں نہیں، کتابوں کی ضرورت ہے‘‘۔
’’ عوام کی خوش حالی ہی اصل قومی سلامتی ہے‘‘۔
دنیا کے نقشے پر جنوبی ایشیائی ممالک آبادی اور ثقافتی ورثے کے اعتبار سے بے پناہ اہمیت رکھتے ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں کے کروڑوں لوگ آج بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ سوال برسوں سے گونج رہا ہے کہ آخر غربت کے خاتمے پر کوئی سنجیدگی سے کیوں نہیں سوچتا؟
اقتدار میں آنے والی حکومتیں زیادہ تر وقتی شہرت کے منصوبوں اور سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے پر توجہ دیتی ہیں۔ غربت جیسا دیرپا مسئلہ نہ تو فوری ووٹ دلوا سکتا ہے اور نہ ہی تالیوں کی گونج پیدا کرتا ہے، اس لیے یہ ہمیشہ پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیائی خطہ وسائل سے خالی نہیں ہے، لیکن دولت کا ارتکاز چند خاندانوں اور طبقوں تک محدود ہے۔ زمین، صنعت اور تجارت پر قابض گروہ اپنے مفاد کی پالیسی بنواتے ہیں۔ غریب کسان، مزدور اور چھوٹے تاجر ان فیصلوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔
اس خطے کے ممالک اپنی مجموعی آمدنی کا بڑا حصہ دفاعی بجٹ پر خرچ کرتے ہیں۔ جدید اسلحے کی خریداری اور جنگی تیاریوں میں اربوں ڈالر جھونک دئیے جاتے ہیں، جبکہ صحت، تعلیم اور روزگار جیسے شعبے بجٹ کی کٹوتی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر یہی سرمایہ عوامی فلاح میں لگایا جائے تو غربت کی شرح کم ہو سکتی ہے۔
بدعنوانی جنوبی ایشیا کے عوام کے لیے سب سے بڑا عذاب ہے۔ جو فنڈ غریبوں کی فلاح کے لیے مختص ہوتا ہے، وہ اکثر کرپٹ نظام کی نذر ہو جاتا ہے۔ کمزور ادارے، غیر شفاف نظام اور طاقتور مافیا غربت مٹانے کے ہر منصوبے کو ناکام بنا دیتے ہیں۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور ناقص تعلیمی نظام غربت کے چکر کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ غیر ہنر مند نوجوان روزگار کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں، اور پھر یہ بے روزگاری غربت اور جرائم کو بڑھا دیتی ہے۔
غربت کا خاتمہ محض خواب نہیں، اگر خلوص نیت کے ساتھ اقدامات کیے جائیں تو یہ ممکن ہے۔
تعلیم پر سرمایہ کاری: معیاری اور مفت تعلیم ہر بچے کو دی جائے تاکہ وہ مستقبل میں ہنر مند شہری بن سکے۔ کسان کو جدید ٹیکنالوجی، سستے بیج اور صنعت و روزگار چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو سہولتیں دے کر روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔
کرپشن کے خاتمے اور اداروں کو خود مختار بنانے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ جنگی اخراجات کم کر کے عوامی فلاح کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔
جنوبی ایشیا میں غربت کے خاتمے کی سب سے بڑی رکاوٹ طاقتور طبقے کا خوف ہے کہ اگر عوام خوشحال اور تعلیم یافتہ ہو گئے تو ان کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ حکومتیں اور عوام دونوں اس جنون کو پہچانیں۔ غربت کا خاتمہ صرف ایک معاشی ضرورت نہیں، بلکہ یہ خطے کے امن، ترقی اور استحکام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان جنوبی ایشیائی ممالک میں غربت کے خاتمے کا بھی سوچیں، نہ کے بارود کی بو پھیلانے کے فیصلے کریں۔
اپنے نغموں کی جھولی پسارے
در بدر پھر رہا ہوں
مجھ کو امن اور تہذیب کی بھیک دو

شکیل سلاوٹ

جواب دیں

Back to top button