CM RizwanColumn

سرنج کی سوئی اور سرویکل کینسر

سرنج کی سوئی اور سرویکل کینسر
تحریر : سی ایم رضوان

میڈیکل اور شعبہ طب کے حوالے سے اگر ہمارے معاشرے کے مجموعی رویے کی بات کریں تو یہاں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ یہاں ایسے نشے کے عادی لوگوں کی بھی کمی نہیں جو کوڑے کے ڈھیر سے آلودہ سرنج کی سوئی اٹھا کر خود اپنے ہاتھوں سے ہی خود کو لگا لیتے ہیں اور ایسے لوگ بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں جو کسی ماہر معالج سے کسی بیماری کے علاج کے ضمن میں انجکشن لگواتے ہوئے سرنج کی سوئی کی معمولی سی چبھن سے بھی خوفزدہ ہوتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج کے جدید میڈیکل انفرمیشن کے دور میں بھی علاج اور اس سے متعلق معلومات اور طریقوں کے حوالے سے ہمارا معاشرہ شدید تضادات اور جہل کا شکار ہے۔ مثال کے طور پر آج کل سرویکل کینسر یعنی بچہ دانی کے منہ پر بننے والے کینسر سے بچا کیلیے ملک بھر میں 15ستمبر سے ایچ پی وی ویکسین لگانے کی قومی مہم جاری ہے۔ اس سلسلے میں 8سے 14سال کی بچیوں کے والدین تذبذب کا شکار ہیں جس کی بڑی وجہ اس ویکسین کی افادیت سے آگاہی نہ ہونا اور اس کے خلاف سوشل میڈیا پر غیر سنجیدہ عناصر کی جانب سے پھیلائے جانے والا پراپیگنڈا ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر گزشتہ روز ماہر امراض اطفال ڈاکٹر محمد خالد شفیع نے سرویکل کینسر کی وجوہات اور اسباب بیان کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وائرس جسے ہیومن پیپیلوما وائرس ( ایچ پی وی) کہتے ہیں، اس وائرس کا انفیکشن کئی طرح کے کینسر کا سبب بنتا ہے۔ جس کی سب سے مہلک ترین شکل سرویکل کینسر ہے، اس کا سب سے زیادہ شکار خواتین ہوتی ہیں۔ اس کے پھیلنے کے بھی بہت سے ذرائع اور وجوہات ہیں اس کی روک تھام کے لئے یہ ویکسین سب سے اہم ذریعہ ہے اور دنیا کے 149ممالک میں یہ ویکسین باقاعدگی سے لگوائی جا رہی ہے جن میں خلیجی اور ایشیائی ممالک بھی شامل ہیں جبکہ آسٹریلیا میں سال 2006ء سے یہ ویکسین لگائی جا رہی ہے جبکہ بدقسمتی سے پاکستان میں اس ویکسین کے حوالے سے غیر متعلقہ عناصر کی جانب سے بہت سی غلط معلومات اور خدشات بیان کئے جا رہے ہیں، ڈاکٹر محمد خالد شفیع کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جب اس مہم کا آغاز ہوا تو سب سے پہلی ویکسین میں نے اپنی بیٹی کو لگوائی جو 13سال دو ماہ کی ہے۔ ڈاکٹر محمد خالد شفیع نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو لوگ اس حوالے سے وی لاگز بنا رہے ہیں ان کا میڈیکل سائنس سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں وہ محض ایک مفروضے کو بنیاد بنا کر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں پوری قوم کو اس بات کا یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس ویکسین کا کوئی نقصان یا سائیڈ افیکٹس نہیں ہے سوائے ایک بار سوئی چبھنے کی معمولی سی تکلیف کے۔
یہ بات بھی ماہرین صحت اور محکمہ صحت کے ذمہ داران پورے اعتماد سے کہہ رہے ہیں کہ سرویکل کینسر سے بچائو کے لئے ایچ پی وی ویکسین لگوانے سے نہ تو ماہواری ڈسٹرب ہو گی اور نہ ہی تولیدی صحت متاثر ہو گی بلکہ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت بہتر ہو جائے گی۔ تاہم اس مہم کے آغاز کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر بہت سے سوالات اور غیر تصدیق شدہ معلومات شیئر کی جانے لگیں۔ یوں والدین اور عام شہریوں میں ابہام بھی پیدا ہوتے گئے۔ گائناکالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر نابیہ طارق کے مطابق سرویکل کینسر کی تشخیص سکریننگ کے ذریعے ممکن ہے تاہم غفلت، تشخیص یا علاج میں تاخیر کے باعث یہ سب سے جان لیوا کینسرز میں سے ایک بن جاتا ہے۔ عام طور پر شادی شدہ یا بڑی عمر کی خواتین میں ہیومن پیپیلوما وائرس ( ایچ پی وی) پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نابیہ کے مطابق ویکسین کی قومی مہم میں اس لئے کم عمر بچیوں کو شامل کیا جا رہا ہے کہ جنسی ملاپ شروع ہونے سے پہلے بچیوں میں اس وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا کی جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ 9سے 14سال کی عمر بہت اچھی عمر ہے جس میں اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہو گی تاہم اس ایج گروپ سے بڑی بچیاں بھی شادی سے پہلے یہ ویکسین لگوا سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزیرِ صحت سید مصطفیٰ کمال نے میڈیا کے روبرو اپنی بیٹی کو ایچ پی وی ویکسین لگوا کر مہم میں حصہ لیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سرویکل کینسر سے 90فیصد اموات یا تو ایشیا میں ہو رہی ہیں یا افریقہ میں جس پر عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اگر یہی رفتار رہی تو 2030ء تک سات لاکھ خواتین کو یہ کینسر ہونے کا خدشہ ہے جس کی روک تھام ضروری ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل آبادی میں سے چھ لاکھ خواتین سرویکل کینسر سے متاثر ہو رہی ہیں اور اس سے متاثرہ تین لاکھ کی اموات سالانہ ہو رہی ہیں جبکہ 2030ء تک یہ تعداد بڑھ کر سات لاکھ سالانہ ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس وائرس کے پھیلنے کی بڑی وجہ جنسی تعلقات ہیں جس سے یہ وائرس منتقل ہوتا ہے تاہم یہ کسی بھی مواد، کپڑے یا ٹوائیلٹ ہائیجین کے ساتھ متاثر نہیں کرتا لیکن مذکورہ ویکسین تو اس سے بچاتی ہے جبکہ پروپیگنڈہ مہم چلانے والوں کا یہ گمراہ کن خیال ہے کہ معاذاللہ یہ قوم کی بیٹیوں کو جنسی رغبت دلوانے کی ایک مغربی سازش کا حصہ ہے حالانکہ ویکسین میں اس لئے کم عمر بچیوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے کہ جنسی ملاپ شروع ہونے سے پہلے بچیوں میں اس وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا کی جا سکے کیونکہ یہ عمر اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کی بہت اچھی عمر ہے تاہم اگر اس ایج گروپ سے بڑی بچیاں شادی سے پہلے یہ ویکسین لگوا سکتی ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی لکھا گیا ہے کہ مغربی ممالک میں یہ ویکسین سال 2006ء سے لگائی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں یہ کینسر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی بناء پر حکومت پاکستان کی بڑی کوشش کے بعد حفاظتی ٹیکہ جات کے پروگرام میں اس ایچ پی وی ویکسین کو شامل کروایا گیا ہے تاکہ ہماری بچیاں مستقبل میں اس بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ امر بھی بیان طلب ہے کہ ہیومن پیپی لوما وائرس یعنی ایچ پی وی انسانی جسم میں جلد کی تہوں میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایچ پی وی انفیکشن ہی ستّر فیصد سی زائد مریضوں میں سرویکل کینسر کا سبب بنتا ہے جو کہ چھاتی کے سرطان کے بعد دنیا میں خواتین میں پایا جانے والا سب سے عام سرطان ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایچ پی وی ویکسین اس وقت بہترین کام کرتی ہے جب بچیاں ابتدائی عمر میں ایچ پی وی وائرس کا شکار ہونے سے پہلے یہ لگوا لیں، کیونکہ یہ صرف انفیکشن سے تحفظ فراہم کرتا ہے اور اگر یہ وائرس لگ جائے تو پھر یہ جسم کو اس سے نجات نہیں دلا سکتا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ وائرس اتنے بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے کہ بچیوں کو اُن کے بالغ ہونے سے پہلے ہی اس سے بچا کی ویکسین لگوا لینا زیادہ فائدہ مند ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ویکسین کی ایک یا دو ڈوزز کافی ہوتی ہیں جن افراد میں قوت مدافعت کی کمی ہے، انہیں اس کی تین ڈوزز بھی دی جا سکتی ہیں۔ یاد رہے کہ ایچ پی وی وائرس کی تقریباً 100سے زائد اقسام ہیں اور اس انفیکشن کی زیادہ تر علامات ظاہر نہیں ہوتیں، البتہ اس کی کچھ اقسام میں ہاتھ، پاں اور منہ کے اندر چھالے بن جاتے ہیں۔ بہت سے متاثرہ مریضوں کو کافی عرصے تک یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ وہ انفیکشن کا شکار ہو چکے ہیں اور بہت سے کیسز میں بہتر قوت مدافعت کی وجہ سے بغیر کسی علاج کے اس وائرس سے نجات حاصل کر لیتے ہیں لیکن ایچ پی وی کے زیادہ ہائی رسک کیسز میں ٹشوز کی غیر معمولی نشوونما کینسر کا باعث بن سکتی ہے۔ وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ پاکستان بھی عالمی ادارہ صحت کی اس مہم کا حصہ ہے جس کے تحت 2030ء تک دنیا کی کم از کم 90فیصد بچیوں کو ویکسین کے ذریعے سرویکل کینسر سے محفوظ بنانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں سندھ، پنجاب اسلام آباد اور ( پاکستان کے زیر انتظام) کشمیر میں اس مہم کو شروع کیا گیا ہے۔ پہلے فیز میں ہمارا ہدف نو سے 14سال کی عمر کی 1کروڑ 30لاکھ بچیوں کو ویکسین کے ذریعے سرویکل کینسر سے بچانا ہے جبکہ پورے پاکستان کے لئے ہمارا ٹارگٹ ایک کروڑ 80 لاکھ کم عمر بچیاں ہیں۔ اسلام آباد کی ضلعی ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر راشدہ بتول نے اس حوالے سے بتایا کہ بدقسمتی سے زیادہ تر کیسز جب سامنے آتے ہیں تب بیماری آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہوتی ہے۔ اس مرض کو خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی علامات تاخیر سے سامنے آتی ہیں یا عموما خواتین نظر انداز کر جاتی ہیں جس کے باعث بروقت روک تھام اور تشخیص محدود ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر راشدہ نے دعویٰ کیا کہ سرویکل کینسر سے بچا کے لئے یہ ویکسین وقت کی ضرورت ہے۔ اس بار وفاقی اور صوبائی سطح پر ایک جامع اور بڑے پیمانے کی مہم کا مقصد بھی یہی ہے کہ آنے والی نسل کو ایسے مرض سے بچایا جائے جس سے نا صرف خواتین کی اپنی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ ایک پورے خاندان اور معاشرے پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ ڈاکٹر راشدہ کا کہنا تھا کہ جہاں تک بڑی عمر کی خواتین کا تعلق ہے تو ویکسین ان کے لئے بھی کارگر ہے۔ مختلف تجزیات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر میں یہ ویکسین سرویکل کینسر کے کیسز میں 90فیصد کمی کا باعث بن رہی ہے۔ یاد رہے کہ ویکسین لگانے کے بعد ہلکا بخار، انجیکشن لگنے کے مقام پر ہلکی سی سرخی ہو سکتی ہے جس کے لئی پیراسیٹامول لی جا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں جب سے پولیو مہم کا آغاز ہوا ہے تب سے ہی ویکسینیشن کے خلاف مخصوص پروپیگنڈا سامنے آتا دیکھا گیا۔ یہی معاملہ کوویڈ 19کی عالمی وبا کی ویکسین کے وقت بھی دیکھا گیا۔ کینسر کے خلاف حالیہ قومی مہم کی تشہیر میں بھی سوشل میڈیا پر اس ویکسین کے حوالے سے وقتاً فوقتاً تحفظات پر مبنی آرا سامنے آ رہی ہیں۔ القصہ اس قومی مہم کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ہم سب کو فوائد حاصل کرنے چاہئیں اور وہ بچیاں جو سرنج کی سوئی کی درد سے بھی خوفزدہ ہوتی ہیں ان کو بھی یہ سوچ کر یہ ویکسین ضرور لگوانی چاہئے کہ یہ معمولی سی چبھن انہیں آنے والے دنوں میں ایک موذی کینسر سے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
سی ایم رضوان

جواب دیں

Back to top button