وزیراعظم کا دورہ امریکا

وزیراعظم کا دورہ امریکا
وزیراعظم شہباز شریف کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا کا دورہ پاکستان کی خارجہ پالیسی، بین الاقوامی تعاون اور معاشی ترقی کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے اس دورے کو صرف ایک بین الاقوامی اجلاس میں شرکت تک محدود نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ عالمی سطح پر پاکستان کی ترجیحات، خدشات اور تعاون کی پالیسیوں کو اجاگر کرنے کا ایک نادر موقع ہے۔ موجودہ عالمی حالات، علاقائی تنائو، موسمیاتی تبدیلی اور اقتصادی مشکلات کے پیش نظر یہ دورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ وزیراعظم کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات بین الاقوامی سفارت کاری میں پاکستان کے فعال کردار کی عکاسی کرتی ہے۔ ایسے اجلاس، جہاں کئی مسلم ممالک کے رہنما ایک ہی میز پر اکٹھے ہوں اور عالمی امن و سلامتی جیسے اہم امور زیرِ بحث آئیں، نہ صرف مسلم دنیا کے اتحاد کی علامت ہیں بلکہ عالمی پالیسی سازی میں ان ممالک کی آواز کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر، افغانستان کے حالات، اسلاموفوبیا اور دیگر مسلم دنیا کے مسائل پر کھل کر بات کرتا آیا ہے۔ امریکا جیسے طاقتور ملک کے ساتھ براہ راست گفتگو عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو مستحکم کرنے کا موقع ہے۔ پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز، جن میں زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی، مہنگائی، قرضوں کا بوجھ اور برآمدات میں کمی شامل ہیں، اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھولیں۔ شہباز شریف نے اپنی تقاریر اور اجلاسوں میں جس انداز سے زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، معدنیات، سیاحت اور قابل تجدید توانائی جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کی نشان دہی کی ہے، وہ قابلِ تحسین ہے۔ یہ شعبے نہ صرف روزگار کے نئے مواقع پیدا کرسکتے بلکہ پاکستان کی برآمدات میں بھی خاطرخواہ اضافہ کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر آئی ٹی اور رینیوایبل انرجی کے شعبے میں پاکستان کا نوجوان طبقہ دنیا سے مسابقت کی صلاحیت رکھتا ہے، بشرطیکہ اسے مناسب پلیٹ فارم اور حکومتی سرپرستی فراہم کی جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا سعودی عرب کے قومی دن کے موقع پر دیا گیا بیان جذباتی طور پر دل کو چھو لینے والا ہے اور پاک-سعودی تعلقات کی گہرائی کو بیان کرتا ہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے شکرگزاری کے جذبات کا اظہار اس امر کا مظہر ہے کہ دونوں ممالک نہ صرف مذہبی، تاریخی اور ثقافتی رشتوں میں بندھے ہیں بلکہ اقتصادی تعاون اور علاقائی استحکام کے شراکت دار بھی ہیں۔ ریاض کے حالیہ دورے کا ذکر اور سعودی حکومت کی جانب سے معاشی تعاون کا تذکرہ، پاکستان کے لیے سعودی عرب کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں کام کررہے ہیں اور دونوں ممالک کی معیشتوں میں ان کا نمایاں کردار ہے۔ ان کی خدمات دونوں برادر ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط بناتی ہیں۔ وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے زوم اجلاس میں جس انداز سے مختلف وزرا کو اہداف دیے گئے اور قابلِ عمل منصوبوں کی نشان دہی کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کی گئی، وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حکومت ملک میں پائیدار ترقی کے لیے واضح روڈمیپ پر عمل پیرا ہے۔ اقتصادی ترقی صرف سرکاری پالیسیوں سے نہیں آتی، بلکہ اس میں نجی شعبے کی شمولیت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ نجی شعبی کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا، ایک مثبت اشارہ ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ ہی وہ راستہ ہے جو انفرا اسٹرکچر، تعلیم، صحت اور انڈسٹریل ترقی جیسے شعبوں میں انقلاب لاسکتا ہے۔ وزیر اعظم کے دورہ نیویارک کے دوران کلائمیٹ چینج پر ہونے والے اجلاسوں میں شرکت، پاکستان کی انٹرنیشنل کمیونٹی کے ساتھ وابستگی کا ثبوت ہے۔ پاکستان خود بھی حالیہ برسوں میں شدید ماحولیاتی تباہی سے دوچار رہا ہے، خصوصاً 2022کے تباہ کن سیلاب نے عالمی توجہ حاصل کی تھی۔ امسال بھی سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ شہباز شریف اس عالمی فورم پر پاکستان کی آواز بلند کر کے نہ صرف ماحولیاتی انصاف کا مطالبہ کرسکتے بلکہ ترقی یافتہ ممالک پر یہ ذمے داری بھی ڈال سکتے ہیں کہ وہ ماحولیات کے تحفظ میں اپنی اخلاقی اور قانونی ذمے داریاں پوری کریں۔وزیراعظم کی جانب سے ایک منظم روڈ میپ اور تبدیلی کے ایجنڈے پر زور دینا اس بات کی علامت ہے کہ حکومت وقتی اقدامات کے بجائے دیرپا ترقی کے منصوبوں پر یقین رکھتی ہے۔ معاشی اور اقتصادی اصلاحات کے ذریعے ملک کو نئی سمت دینا ایک چیلنج بھی ہے اور ایک موقع بھی۔ یہ وہ وقت ہے جب حکومت، نجی شعبہ اور عام عوام ایک ہی پیج پر آ کر ترقی کے سفر کو یقینی بناسکتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ امریکا، جہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب ایک اہم موقع ہوگا، پاکستان کے لیے سفارتی، اقتصادی اور ماحولیاتی میدان میں اپنے موقف کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا سنہری موقع ہے۔ اس دورے سے جڑی تمام ملاقاتیں، تقاریر اور معاہدے ایک طویل المدت اثرات کے حامل ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان کو عالمی سطح پر ایک ذمے دار اور متحرک ریاست کے طور پر اپنی شناخت بنانی ہے اور یہ دورہ اسی منزل کی طرف بڑھنے کی ایک مثبت کاوش ہے۔
گھی، تیل کی قیمتوں میں اضافہ
پاکستان میں حالیہ دنوں میں گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ عوام کے لیے کسی نئی مصیبت سے کم کی حیثیت نہیں رکھتا۔ عوام کی حالت دن بہ دن بدتر ہوتی جارہی ہے۔ گھریلو بجٹ پہلے ہی بجلی، گیس، پٹرول، تعلیم اور ادویہ کی بلند قیمتوں کے باعث شدید دبائو میں ہے۔ گھی اور کوکنگ آئل جیسی بنیادی ضروریات کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب ہے کہ متوسط اور نچلے طبقے کے گھروں میں چولہا جلنا بھی ایک چیلنج بنتا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اب پانچ کلو کا آئل پیک 2850روپے اور گھی کا پیک 2800روپے تک پہنچ چکا جبکہ ہول سیل مارکیٹ میں فی کلو گھی 535روپے اور آئل 572روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ یہ صورت حال اس وقت اور بھی تشویشناک ہو جاتی ہے جب دیکھا جائے کہ گزشتہ صرف 10دنوں میں خوردنی تیل کی قیمت میں 400روپے تک اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ اس طرح کے اچانک اور بڑے اضافے صارفین کے لیے شدید مالی دبائو کا باعث بنتے ہیں۔ حیران کن بات کہ حکومت یا متعلقہ ادارے اس تمام صورتحال پر محض خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اگر موجودہ حالات پر قابو نہ پایا گیا تو عام شہری کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی۔ صارفین کا کہنا بالکل بجا ہے کہ مہنگائی اب عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہوچکی ہے۔ جہاں روزگار کے مواقع کم ہورہے، وہیں بنیادی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ناقابل برداشت ہوچکا۔ گھی اور تیل جیسی بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب ہے کہ عوام کی خوراک پر براہ راست اثر پڑے گا۔ ضروری ہے کہ حکومت خوردنی اشیاء کی قیمتوں پر نظر رکھنے کے لیے ایک موثر نظام متعارف کروائے۔ غیر ضروری برآمدات، ذخیرہ اندوزی اور مڈل مین کا کردار محدود کرنا ہوگا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ قیمتوں میں اضافہ صرف عالمی منڈی یا ڈالر ریٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ مقامی ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے گٹھ جوڑ سے ہوتا ہے۔ اگر حکومت چاہے تو ان عناصر کے خلاف فوری کارروائی کر کے قیمتوں کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری صارفین کے تحفظ کے اداروں کو فعال بنائے اور گھی و کوکنگ آئل سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔ گھی اور تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر حکومت نے بروقت قدم نہ اٹھایا تو یہ مسئلہ صرف اشیاء کی قیمتوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے سماجی اور سیاسی اثرات بھی بہت دوررس ہوں گے۔ عوام کو ریلیف دیا جائے، مہنگائی پر قابو پایا جائے، یہی وقت کی ضرورت ہے۔





