اگلے تین سال کا سفر

اگلے تین سال کا سفر
تجمل حسین ہاشمی
قوم نے جمہوریت کے ساتھ آمریت کو بھی خوش آمدید کہا لیکن قوم کی توقعات پر کوئی پورا نہیں اترا۔ عوامی سہولتوں کا کسی بھی دور میں خیال نہیں رکھا گیا، ایک خاص طبقہ جنرل مشرف کے دور کو کامیاب اور جمہوری حکومت میں میاں نواز شریف کے دور کو کامیاب قرار دیتا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان، جنرل ایوب خان کے دور کی تعریف کرتے ہیں، لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ قیام کے بعد سے کسی بھی جمہوری وزیر اعظم کو اپوزیشن جماعتوں نے پانچ سال پورے نہیں کرنے دئیے۔ سازشوں نے ایوان کو گھیرے رکھا، سیاسی بیانات اور جوڑ توڑ سے واضح ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی چاہت میں عوامی خدمت شامل نہیں تھی بلکہ ذاتی مفاد تھا۔ اپنی اپنی باریوں میں الجھی سیاست اس بار کچھ تھم سی گئی ہے، بیانات اور نعروں کے ذریعے خدمت کا ڈھونگ دنیا بھر سے زیادہ ہمارے ہاں کامیابی سے چلتا رہا لیکن اب نعروں سے زیادہ سوشل میڈیا کی فوٹو گرافری کو اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ حالیہ سیلاب میں وہ حرکات دیکھنے میں آئیں جن کا تصور بھی نہیں تھا، بیوروکریسی پر ویڈیو کا بھوت سوار ہے اور ان کے نزدیک خدمت کا مطلب ٹک ٹاک بن چکا ہے۔ دوسری طرف ایک خاص طبقہ موجودہ جمہوری نظام کو ’’ ہارورڈ نظام‘‘ سمجھ رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مشرف کا دور کبھی کامیاب نہیں تھا، اس دور میں دولت کی غیر مساوی تقسیم بڑھی، انسانی تفریق میں اضافہ ہوا، معاشرے میں منفی درجے بڑھ گئے، اس ترقی سے زیادہ نقصان ریاست اور معاشرے کو ہوا، ملک دہشت گردی اور بدامنی کی لپیٹ میں آگیا، چند ہزار خاندانوں نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے لیا، بلیک منی کو وائٹ منی بنانے اور منی لانڈرنگ کو آسانی ملی، امپورٹڈ قیادت نے سرکاری جھنڈے تلے قومی خزانے پر ڈاکے ڈالے، وہی طاقتور آج بھی اداروں اور عوامی سہولتوں پر قابض ہیں، ریاستی پالیسیوں پر اثر انداز ہو کر اربوں روپے ایک دن میں کما لیتے ہیں اور جمہوری حکومتیں بے بس نظر آتی ہیں۔ انہی طاقتوروں نے سرکاری اداروں اور خزانوں پر ہاتھ صاف کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت طاقتور طبقے کو قابو کر پائے گی، کیا غیر مساوی دولت کی تقسیم کو روک سکے گی، کیا ان مالدار قبضہ گروپوں کو سزا دے سکے گی، بظاہر یہ ناممکن لگتا ہے۔ حکومتی بیانات، بیرونی ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی پلاننگ اور لگن سے ملکی معیشت میں بہتری ممکن ہے، لیکن ان کوششوں کا فائدہ عوام تک تب پہنچے گا جب حکومت فیصلوں پر اثر انداز ہونے والے طاقتور خاندانوں اور معاشرے میں بیٹھے ناسوروں کو قانون کی گرفت میں لائے گی۔ وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی حکمت عملی سے واضح ہے کہ ملک مثبت سمت کی طرف بڑھ رہا ہے، سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایک طویل عرصے تک دو جماعتیں اقتدار میں رہیں، ان کے بیچ جو کچھ بھی چلتا رہا وہ انہی کے مفادات میں تھا، پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا شکوہ اسٹیبلشمنٹ کا مسلم لیگ ن کی طرف جھکائو رہا، لیکن آصف زرداری کی مفاہمت نے اس شکوے کو دفن کر دیا۔ ویژن 2030کے ثمرات آنے والے سال میں ظاہر ہونا شروع ہوں گے، ملک جلد غیر ملکی مالیاتی اداروں سے نجات حاصل کر لے گا، اس مرتبہ معیشت کے لیے مضبوط منصوبہ بندی کی گئی ہے، یقیناً اعلیٰ سطح پر یہ بات بھی مدنظر رکھی گئی ہوگی کہ معیشت پر قابض ڈاکوئوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے اور کون معاشرے میں شر انگیزی پھیلا رہا ہے، کیونکہ سکون اور امن ترقی کی پہلی اور آخری سیڑھی ہیں۔ موجودہ قیادت اس وقت بین الاقوامی سطح پر ملکی سلامتی اور معیشت کے لیے بھرپور کام کر رہی ہے۔ اس ویژن کی مضبوطی کے لیے سیاسی و عسکری قیادت کا مسلسل جڑا رہنا لازمی ہے اور اندرونی سیاسی خلفشار پر قابو پانا نہایت ضروری ہے۔





