ColumnImtiaz Aasi

وکلاء تحریک چلا سکیں گے؟

وکلاء تحریک چلا سکیں گے؟
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ہم اگر تحریک آزادی کی طرف لوٹیں تو وکلاء برادر ی نے قیام پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ بذات خود ایک معروف قانون دان تھے جب کہ ان کے بہت سے ساتھیوں کا تعلق بھی قانون کے پیشے سے تھا۔ تحریک آزادی جس عزم اور جذبے سے چلائی گئی اس نے انگریز کو ہندوستان تقسیم کرنے پر مجبور کر دیا۔ قیام پاکستان میں مسلمانوں نے جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے تب جا کر ہمیں ایک آزاد مملکت نصیب ہوا۔ پھر اس ملک کے ساتھ جو ہم نے کیا اس کی تفصیل میں جائے بغیر آج وہی وکلاء برادری آپس میں دست و گریباں ہیں اور ان کا اتحاد منقسم ہوچکا ہے۔ جب انسان میں عہدوں اور منصب کا لالچ آجائے تو ایسے لوگ کبھی کسی مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف وکلا برادری کی تحریک نے قانون کے پیشے سے تعلق رکھنے والوں کے سر فخر سے بلند کر دیئے تھے۔ بدقسمتی سے وکلا برادری کا وہ اتحاد برقرار نہ رہ سکا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر اور اسلام ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی لاہور ہائی کورٹ سے آمد جیسے اہم قانونی معاملات میں وکلاء برادری کا اتحاد قائم نہیں رہ سکا ورنہ اگر وکلا جنرل مشرف کے خلاف جیسی تحریک چلاتے تو حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر سکتے تھے لیکن بار کونسلوں اور بار ایسوسی ایشنز کو توقع سے زیادہ فنڈز کی فراہمی ، وزارت قانون میں عہدوں اور منصب کی ہوس نے وکلا برادری کا اتحاد پارہ پارہ کر دیا۔ گو وکلا کا ایک گروپ عہدوں اور فنڈز کی فراہمی پر خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے مگر کب تک؟ ہم تو یہی کہیں گئے وکلا برادری نے اپنے پائوں پر خو د کلہاڑی چلائی ہے ورنہ وکلاء اتحاد حکومتوں کو فیصلے بدلنے پر مجبور کر دیتا تھا۔26 ویں آئینی ترمیم اور اس کے بعد کے حالات پر غور کریں تو عدالتی نظام کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو جلسے اور جلوس کی آزادی سلب کر لی گئی ہے۔ حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلائے تو جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک معزز جج جہانگیری کا معاملہ دیکھ لیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے ہوتے ہوئے ان کے عدالتی اختیارات اسی عدالت کے چیف جسٹس صاحب نے واپس لے لئے ہیں۔ عجیب تماشہ ہے جسٹس جہانگیری برسوں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے رہے، ڈپٹی اٹارنی جنرل رہے، نیب کے پراسیکیوٹر خدمات انجام دیتے رہے تب کسی کو ان کی ڈگری پر شک نہیں گزرا لیکن جب انہوں نے حکومت کی منشاء کے برعکس فیصلے دیئے تو ان کی ڈگری مشکوک ہو گئی۔ سوال ہے سپریم جوڈیشل کونسل نے اس معاملے کو زیر التواء کیوں رکھا حالانکہ اس کا فیصلہ وقت ضائع کئے بغیر ہونا چاہیے تھا ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے وہ جج جنہوں نے سابق چیف جسٹس اور موجودہ چیف جسٹس صاحب کے روبرو اپنی نالش پیش کی ابھی تک زیر التواء ہے۔ پاکستان کے عوام عرصہ دراز سے جج صاحبان کی شکایت پر عدالت عظمیٰ کے احکامات کے منتظر ہیں۔ اب وہی جج صاحبان اپنے ساتھی جج سے اظہار یکجہتی کے لئے سپریم کورٹ گئے تو انہیں خوش آمدید کہنا چاہیے تھا۔ اب ہم آتی ہیں وکلا برادری کے احتجاج کی طرف جس میں ایک طرف وکلاء اتحاد کے نعرے لگ رہے تھے تو دوسری طرف وکلاء حضرات دست و گریباں تھے۔ طاقت ور حلقوں کو وکلاء اتحاد برداشت نہیں تھا وہ عرصہ دراز سے وکلاء برادری کو توڑنے میں سرگرم تھے جس میں بالاآخر وہ کامیاب ہوگئے ہیں۔ بار کونسل کے عہدے داروں کو کہنا ہے جن وکلاء کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کرایا ہے جب ان کا معاملہ سامنے آئے گا تو ان کے اجات نامے منسوخی پر غور کیا جائے گا۔ ظاہر ہے جب بار کے صدر نے اپنے ہی وکلا ء کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرایا ہے تو قانونی طور پر یہ مقدمہ واپس نہیں لیا جا سکتا کیونکہ قانونی طور پر یہ مقدمہ ریاست کا مقدمہ ہے جسے کوئی فرد واحد واپس نہیں لے سکتا۔26 ویں آئینی ترمیم کا معاملہ زیر غور تھا جب وکلا ء کے ایک گروپ نے احتجاج کی کال دی تو اسے ناکام بنا دیا گیا۔ جب تک وکلاء سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بنے رہیں گے اس وقت تک نہ تو وکلاء کوئی تحریک چلا سکتے ہیں نہ ہی وہ کسی بڑے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ وکلاء جو کبھی سیاسی تحریکوں میں پیش پیش تھے آج وہ کسی تحریک کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں ہیں جس کی وجہ عہدوں اور فنڈز کے لالچ نے انہیں کسی مقصد کے لئے تحریک چلانے سے دور کر دیا ہے ورنہ جس طرح حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم کرکے عدلیہ کے پر کاٹ دیئے ہیں وکلا ء برادری بھرپور تحریک چلاتی تو حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی تھی۔ درحقیقت وکلاء برادری کا منقسم ہونا اور عہدوں کے لالچ نے انہیں قومی مقاصد سے دور کر دیا ہے۔ پاکستان کے عوام کو وکلاء برادری کر جس بات کا اعتماد تھا وہ عوام کا مقدمہ بھی لڑیں گے خواب بن گیا ہے۔ وہ ادارے جو وکلاء اتحاد کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے سرگرم تھے اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہو چکے ہیں لیکن تاریخ ایسے وکلاء کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ تاریخ صرف انہی لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو قانون کی بالادستی اور آئین پر عمل پیرآ ہونے کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیں لہذا اب بھی وقت ہے وکلاء برادری کو اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ قانون کی بالادستی اور آئین پر عمل درآمد کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے تو سیاسی تاریخ میں انہیں ہمیشہ شاندار الفاظ میں یاد رکھا جائے اگر وہ عہدوں اور گرانٹس کی ہوس میں پڑے رہے تو ہمارا ملک کمزور ہو جائے گا۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو ہمارا ملک ہے تو ہم بھی ہیں۔ ہماری وکلاء برادری سے درخواست ہے وہ اپنے رویہ میں تبدیلی لائیں اور ملک میں آئین کی بالادستی کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ یاد رکھیں جن قوموں میں انصاف نہیں ہوتا ایسی قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button