ColumnRoshan Lal

شاہراہ بھٹو، ایم فائیو اور گنڈا سنگھ والا

شاہراہ بھٹو، ایم فائیو اور گنڈا سنگھ والا
روشن لعل
تقریباً ہر حکمران اپنی مرضی یا اپنے لائق فائق سمجھے جانے والے مشیروں کے مشوروں سے تجرباتی طور پر ایسے کام کرتا رہتا ہے جس سے میڈیا اور عوام میں اس کی واہ واہ ہو سکے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز نے رواں سال کے آغاز پر ایک منفرد اور پہلی مرتبہ کیا جانے والا کام سمجھ کر شہر لاہور میں موٹر سائیکل سواروں کے لیے سڑک پر الگ سبز لین مختص کرنے کا اعلان کیا۔ عجیب بات ہے کہ نہ صرف مریم نواز بلکہ ان کے جہاندیدہ سمجھے جانے والے مشیر بھی اس بات سے لاعلم رہے کہ جس کام کی تشہیر وہ اپنی اختراع کے طور پر کر رہے ہیں وہی کام کرنے کی کوشش میں سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار2019ء میں بری طرح ناکام ہوئے تھے۔ لاہور شہر کی پہلے سے تنگ ہو چکی سڑکوں کو موٹر سائیکل سواروں کے لیے سبز لائن لگا کر مزید تنگ کرکے واہ واہ سمیٹنے کی کوشش میں جس طرح عثمان بزدار ناکام ہوئے عین اسی طرح مریم نواز بھی کامیاب نہ ہو سکیں ۔ جو کچھ یہاں بتایا گیا ہے اس سے جڑا ہوا لطیفہ یہ نہیں ہے کہ مریم نواز کے مشیروں نے انہیں ایک ایسا ناکام منصوبہ دوبارہ شروع کرنے پر آمادہ کیا جس کی آئندہ کامیابی کا کوئی امکان نہیں تھا بلکہ اصل لطیفہ یہ ہے کہ ایک ٹی وی چینل پر مارننگ شو کرنے والے عبداللہ سلطان اور ہما امیر شاہ نامی اینکروں نے نہ صرف اپنے پروگرام میں کئی منٹ تک اس مضحکہ خیز منصوبے کو منفرد ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی بلکہ اس دوران سندھ کے حکمرانوں کو یہ مفت مشورہ بھی دے دیا کہ نئے اور حیرت انگیز کام کرنے کے لیے انہیں پنجاب کی وزیر اعلیٰ سے ضرور کچھ سیکھنا چاہیے۔
حکمرانوں اور سیاستدانوں کے نہ تو تمام کام قابل ستائش اور نہ ہی قابل تنقید ہو سکتے ہیں۔ میڈیا کے لوگوں کو اگر کسی بھی حکمران کے کاموں میں تنقید کا پہلو نظر آئے تو اسے تمام سیاق و سباق کے ساتھ عام لوگوں کو دکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ایسے تنقیدی کام کو دیکھتے ہوئے قطعاً یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ دو حکومتوں کے ملتے جلتے کاموں میں سے کسی ایک کے نقائص سے تو مکمل چشم پوشی اختیار کی گئی ہے اور دوسری کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس طرح کے دوغلے رویوں کے مظاہر ہمارے مبینہ طور پر چھوٹے اور بڑے ٹی وی چینلوں پر اکثر دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ حالیہ سیلاب کے دنوں میں ایسا ہی ایک مظہر شاہراہ بھٹو اور ایم فائیو میں سیلابی پانی کی وجہ سے پڑنے والے شگافوں کے حوالے سے نظر آیا۔ شاہراہ بھٹو کا وہ حصہ جسے ٹریفک کے لیے نہ کھولے جانے کی وجہ سے زیر تعمیر کہا جارہا ہے ، اس میں ایک مقام پر 8سے 10ستمبر کے دوران ہونے والی بارش کے دوران بڑا شگاف پڑ گیا ۔ شاہراہ بھٹو پر اگر ملیر ندی میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے شگاف پڑا تو دریائے ستلج کے پانی نے موٹر وے ایم فائیو کو مختلف مقامات پر اتنا نقصان پہنچا کہ گزشتہ نو دنوں سے یہ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہے۔ ایم فائیو پر پہلا شگاف ، شاہراہ بھٹو کے زیر تعمیر حصے کو پہنچنے والے نقصان کے دو دن بعد پڑا۔ حیرت کی بات ہے کہ عبداللہ سلطان اور ہما امیر شاہ جیسے اینکر پرسنز جنہوں نے شاہراہ بھٹو پر پڑنے والے شگاف کے بعد آسمان سر پر اٹھا لیا تھا وہ دو دن بعد ایم فائیو کے شگاف پر انتہائی مختلف انداز میں اظہار خیال کرتے ہوئے نظر آئے ۔ یہ بات درست ہے کہ شاہراہ بھٹو اور ایم فائیو میں پڑنے والے شگافوں کی خبریں اگر میڈیا پر نشر نہ ہوں تو عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی پیدا نہ ہو کہ نو تعمیر شدہ یہ سڑکیں کن لوگوں کی غلطیوں کی وجہ سے تباہی کا شکار ہوئی ہیں۔ مگر جب عبداللہ سلطان اور ہما امیر شاہ جیسے اینکر پرسنز دو مختلف سڑکوں کو سیلاب کی وجہ سے پہنچنے والے ایک جیسے نقصانات پر اپنے تبصروں میں ایک سڑک پر تو یہ تاثر دینے کی کوشش کریں کہ اس کے نقصان کے لیے اسے تعمیر کرنے والی حکومت کے لوگ ذمہ دار ہیں اور دوسری سڑک کے نقصان کو دبے لفظوں میں قدرتی آفت کا نتیجہ قرار دے کر اسے بنانے والی حکومت کی طرف اشارہ بھی نہ کریں تو پھر حکمرانوں کی غلطیوں کی بجائے دھیان ان اینکرز کے رویوں کی طرف چلا جاتا ہے جن کا دوہرا معیار چھپائے نہیں چھپتا۔ مذکورہ اینکر پرسنز نے جس دہرے معیار کا مظاہرہ کیا اگر یہ دوہرا معیار شاہراہ بھٹو میں شگاف پڑنے کے صرف دو دن بعد ظاہر نہ ہوا ہوتا تو شاید عام لوگوں کی توجہ ان کے رویوں کے فرق کی طرف نہ جاتی لیکن اب ، جب ان کے رویوں کا واضح فرق عام لوگوں پر ظاہر ہو چکا ہے تو ان کے دوہرے رویوں پر سوال اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اینکر پرسنز چاہے شاہراہ بھٹو اور ایم فائیوں میں پڑنے والے شکافوں کے لیے دوہرے رویوں کا مظاہرہ کرتے رہیں لیکن یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ، جس شاہراہ بھٹو کو زیر تعمیر کہا جارہا ہے اس میں حالیہ سیلابی بارشوں کے دوران پڑنے والے شگاف کی وجہ سے اگرچہ اس کے ڈیزائن کی خرابی سامنے آگئی ہے لیکن اگر سیلاب نہ آتا ا تو پھر بھی اس کا افتتاح اسی طرح ہو جانا تھا جس طرح ڈیزائن کے خرابی کے باوجود 2019ء میں مکمل ہونے والی ایم فائیو کا افتتاح ہوا تھا۔ شاہراہ بھٹو اور ایم فائیو میں ڈیزائن کی تقریباً ایک جیسی خرابیاں ظاہر ہو چکی ہیں ، اب مطالبہ یہ کیا جانا چاہیے کہ غیر جانبدارانہ انکوائری کے ذریعے ان خرابیوں کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔
سیلابی پانی کی وجہ سے جو نقصانات ممکن ہوتے ہیں ان میں سڑکوں کا ٹوٹنا بھی شامل ہے ، لہذا اس سیلاب میں شاہراہ بھٹو اور ایم فائیو کا ٹوٹنا تو کسی حد تک قابل برداشت ہو سکتا ہے لیکن اگر کسی جگہ سیلابی پانی کی پیمائش کرنے والی گیج سیلاب میں بہہ گئی ہو تو یہ بات کسی صورت قابل برداشت نہیں ہونی چاہیے۔ یہاں دریائے ستلج میں31 اگست کو گنڈا سنگھ والا کے مقام پر آنے والا چار لاکھ کیوسک کے قریب سیلابی پانی کا ریلہ ناقص تعمیر شدہ اس گیج کو ہی بہا کر لے گیا جو اس پانی کی پیمائش کے لیے بنائی گئی تھی۔ 31اگست کے بعد اگلے دو دن تک گنڈا سنگھ والا کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب رہا لیکن گیج بہہ جانے کی وجہ سے اس حساس مقام پر سیلابی پانی کی پیمائش نہ ہو سکی۔ میڈیا لوگوں نے شاہراہ بھٹو ٹوٹنے پر شور مچایا اور ایم فائیو کا ٹوٹنا نظر انداز کیا لیکن حیرت انگیز طور پر وہ گنڈا سنگھ والا کے مقام پر گیج کے بہہ جانے کے تشویشناک واقعہ سے لاعلم رہے۔ سیلاب کے دوران سڑکوں کا ٹوٹنا تو ممکنہ نقصانات میں شامل ہونے کی وجہ سے نظر اندا ز کیا جاسکتا ہے لیکن جو گیج سیلابی پانی کی پیمائش کے لیے تعمیر کی گئی ہو وہ اگر ناقص تعمیر کی وجہ سے بہہ جائے تو یہ بات حکومت اور میڈیا ، دونوں کے لیے قابل برداشت نہیں ہونی چاہیے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہاں سنسنی پھیلانے والے میڈیا اینکرز ہی نہیں حکومت بھی گیج بہہ جانے کے واقعہ سے بے خبر رہی۔

جواب دیں

Back to top button