Column

بگرام کے پیچھے کیا ہے؟

بگرام کے پیچھے کیا ہے؟
کالم:صورتحال
تحریر:سیدہ عنبرین
امریکی صدر ہر آنے والے دن کے ساتھ دنیا کو حیران کر دینے اور اسے پریشانی میں مبتلا رکھ کر یقیناً خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ پہلو میدان سیاست میں آنے کے بعد پختہ نہیں ہوا، وہ زمانہ طالب علمی سے ہی ایسے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے انہوں نے جو خصوصیات اپنے جینز کے تحت ورثے میں پائیں یہ اسی زمرے میں آتی ہیں، ان کی طرف سے اچانک افغانستان کے بگرام فوجی اڈے کے حصول کی خواہش سامنے آنے پر دنیا پہلے حیران ہوئی، پھر پریشانی میں مبتلا ہو گئی۔ بگرام فوجی اڈے کی اول اول تعمیر1950ء میں ہوئی تھی۔ اسے روس نے تعمیر کیا اور عرصہ دراز تک یہ اسی کے استعمال میں رہا۔ 1980ء کے بعد سے روسی فوجوں کی پسپائی تک جنگ میں اس فوجی اڈے کا اہم کردار رہا ۔ یہ اڈا ستر کلو میٹر کے علاقے میں ہے، اسے صرف فوجی اڈہ کہا جائے تو اس کی ہیت کا ادراک درست انداز میں نہیں ہوتا، یہ ایک شہر تھا جس میں شہری نہیں فوجی تھے۔ کبھی روسی فوجی تو کبھی امریکی فوجی، یہاں فوجی سازوسامان کے انبار تھے، لڑاکا طیارے، ٹینک، توپیں، فوجیوں کی رہائش گاہیں، ہسپتال، تفریح گاہیں، کلب، مارکٹیں، بینک غرضیکہ وہ سب کچھ تھا جو روسی فوجیوں اور بعد ازاں امریکی فوجیوں کی زمانہ امن اور زمانہ جنگ کی ضرورتوں کو پورا کرتا تھا۔ یہاں بھاری بھر کم امریکی طیارے لینڈ کرتے، ہزاروں ٹن سامان جنگ اور ہزاروں افراد کو یہاں پہنچاتے تھے۔ جنگ افغانستان کے دوران جب افغان مجاہدین امریکہ کے خلاف برسر پیکار تھے تو ان کی نظریں ہمیشہ اس فوجی اڈے پر رہتی تھیں۔ انہوں نے اہم امریکی جرنیلوں اور شخصیات کی یہاں موجودگی کی اطلاع پا کر اس اڈے پر کامیاب حملے کئے، جن میں ایک حملہ اس وقت کیا جب امریکی صدر جارج بش اس کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد امریکی فوجی، ان کے جرنیل اور سی آئی اے افسر سوچ میں پڑ گئے کہ ان کا پالا کس قوم سے پڑا ہے۔ افغانستان اور افغانوں پر صبح، شام تنقید کرنے والوں کو ایک آئینہ اپنے سامنے رکھ کر اپنے اور افغانوں کے کردار کا جائزہ لینا چاہیے، پھر فیصلہ کرنا چاہیے کہ پھولوں کے ہار کس کے گلے میں ہونے چاہئیں اور جوتوں کے ہارکن گردنوں میں پہنانے چاہئیں۔
افغانستان میں روس کے قد م اکھاڑنے کیلئے امریکی فوج میں ہمت و سکت نہ تھی، لہذا عالم اسلام کو ساتھ ملانے کیلئے اس امریکی جنگ کو جہاد کا درجہ دلایا گیا۔ جذبہ شوق شہادت سے سرشار مسلمان دنیا کے کونے کونے سے یہاں پہنچے ، کچھ جام شہادت نوش کر گئے، کچھ زندگی بھر کیلئے اپاہج ہو گئے۔ اس جہاد میں پاکستان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جنگ کے زخمیوں کیلئے نشر آباد پشاور میں ایک آراستہ ہسپتال تھا، جہاں متعدد مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا ، ہزاروں کی تعداد میں ایسے مجاہدین دیکھے کسی کے دونوں بازو نہ تھے، کسی کے دونوں پائوں بارودی سرنگوں کی زد میں آکر اڑ گئے تھے۔ کچھ سہاروں سے مشکل چل سکتے تھے، کچھ معذوروں کیلئے مخصوص ریڑھیوں میں پڑے تھے، جبکہ کچھ کو مصنوعی اعضاء لگانے کا کام جاری تھا۔
روس کو شکست ہوگئی، جہاد ختم ہو گیا، امریکہ نے آنکھیں پھیر لیں، پھر امریکہ نے قیمتی معدنیات کے ذخائر پر قبضے کیلئے افغانستان کو منتخب کیا تو افغان اس کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ کل کے مجاہدین دہشتگرد بن گئے، انہوں نے امریکہ کو کورا جواب دیتے ہوئے کہا اسامہ ہمارا مہمان ہے، ہم اپنے مہمان کی حفاظت اپنی جان سے زیادہ کرتے ہیں۔ امریکہ کو یہ جواب ناگوار گزرا، انہوں نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ با غیرت افغان اپنے موقف پر قائم رہے، انہوں نے اسامہ کی حفاظت کی، یہ تھا افغانستان کا کردار، دوسری طرف ان کا کردار ملاخطہ فرمائیے جنہوں نے اپنے ملک کے اندر سے امریکہ کی فرمائش پر افغانستان کے سفیر کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا۔ یاد رہے کسی بھی ملک کے سفیر کا درجہ اپنے ملک کے سربراہ کے برابر ہوتا ہے، ہم نے ایک امریکی فون پر ان کی یہ فرمائش پوری کی تھی۔
امریکی صدر نے بگرام ان کے حوالے نہ کرنے پر دو ٹوک الفاظ میں افغانوں کو دھمکی دی ہے کہ وہ نہیں جانتے ان کی بات نہ ماننے پر ان کے ساتھ کیا جاسکتا ہے، شہری بابوں کو یہ دھمکی ملتی تو ان کی پتلونیں گیلی ہو جاتیں، لیکن افغان قیادت نے اس کا منہ توڑ جواب دیا ہے، افغان چیف نے کہا ہے ہم امریکہ کو بگرام کا اڈہ تو بہت بڑی بات ہے افغانستان کی ایک انچ زمین بھی نہیں دیں گے بلکہ ماضی کی طرح اس کی حفاظت میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ افغان وزیر خارجہ نے فصیح الدین کے بیان کے بعد جو کہا وہ لہو گرما دینے کیلئے کافی ہے، انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ ہم پر کوئی نئی جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے تو اپنا یہ شوق پورا کر لے، ہم مزید بیس سال تک اس کے ساتھ لڑنے کیلئے تیار ہیں۔
امریکی حکومت پران افراد کے اہل خانہ کا شدید دبائو ہے جو دوران جنگ افغان ہونے کے باوجود امریکی مفادات کیلئے کام کرتے رہے، لیکن جب امریکہ افغانستان سے فرار ہوا تو ان لوگوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ گیا۔ ان قومی مجرموں کو افغانوں نے وہ سزا دی جس کے وہ مستحق تھے، درجنوں کو فائرنگ سکواڈ سے اڑا دیا گیا، کھ ایسے ہیں جنہیں قید میں ڈال دیا گیا یا جنہیں مجاہدین کے حوالے کر دیا گیا۔ امریکہ اپنے ان ایجنٹوں کی واپسی چاہتا ہے جو اس کے لئے اپنی قوم اور اپنے وطن سے غداری کرتے رہے۔ امریکہ نے بعض ایسے اہم افراد کیلئے پانچ بلین ڈالر کا انعام بھی مقرر کر رکھا ہے کہ کچھ لوگ یہ انعام حاصل کرنے کیلئے ان افراد کو امریکہ کے حوالے کر دیں۔ انعام کا لالچ بھی امریکہ کا مسئلہ حل نہیں کر سکا۔
امریکہ کا ایک خصوصی نمائندہ گزشتہ دنوں افغانستان کے دورے پر تھا، اس کے ذریعے افغانوں کو مختلف قسم کی پیشکشیں کی گئی ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس وہ افراد نہیں ہیں جن کا امریکہ تقاضا کر رہاہے، امریکہ کی قید میں بھی کچھ افغان موجود ہیں، آج سے قبل امریکہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا تھا لیکن اب وہ اپنے آدمیوں کے بدلے ان قیدیوں کو رہا کرنے پر تیار ہے۔
امریکہ کے دنیا بھر میں سیکڑوں فوجی اڈے ہیں، جو ان ممالک پر نظر رکھنے اور ضرورت پڑنے پر ان ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کی عرض سے بنائے گئے ہیں، مزید براں انہیں اڈوں سے جہاں حملہ کرنا مقصود ہو وہاں حملے کیلئے بھی انہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکہ خوب جانتا ہے بگرام کا فوجی اڈہ اب چین کے تصرف میں ہے، وہ شاید وہاں فوج نہ اتارے، لیکن افغانوں کو ڈرانے کا مقصد اپنے اس اڈے پر کئے گئے اخراجات کی ریکوری کے بہانے افغانستان کے دس ارب ڈالر پر ہاتھ صاف کرنا ہے، جو امریکہ کے بینکوں میں رکھے ہیں۔ امریکہ انہیں ہڑپ کرنا چاہتا ہے، اس کی بڑی وجہ امریکہ کی گری ہوئی اقتصادی حالت ہے، دنیا کو یہ سمجھنے میں وقت لگے گا کہ امریکہ کوڈی کوڈی ہو چکا ہے، بس فقط اس کا بھرم قائم ہے۔ بگرام کے پیچھے فقط یہ مقصد ہے اور کچھ نہیں۔

جواب دیں

Back to top button