بگرام ایئر بیس پر ٹرمپ پالیسی

بگرام ایئر بیس پر ٹرمپ پالیسی
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
امریکی افواج نے بیس سال تک افغانستان میں اپنی موجودگی کے بعد بالآخر 2021ء میں انخلا مکمل کیا، ایک ایسی واپسی جو نہ صرف عالمی سیاست میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی بلکہ اس نے خطے کے جغرافیائی و سیاسی توازن کو بھی متاثر کیا۔ افغانستان سے امریکی انخلا ایک طویل اور پیچیدہ عمل تھا جو 2001ء کے ستمبر 11کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی جنگ کا اختتام تھا۔ اس جنگ کا آغاز القاعدہ کے خلاف تھا، جسے اس وقت افغان طالبان کی حمایت حاصل تھی۔ دو دہائیوں تک امریکی اور نیٹو افواج نے بگرام ایئر بیس کو اپنا مرکزی اڈہ بنایا، جو نہ صرف فوجی کارروائیوں بلکہ انٹیلی جنس جمع کرنے اور لاجسٹک سپورٹ کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔ یہ ایئر بیس، جو کابل سے تقریباً 44کلومیٹر شمال میں واقع ہے، اپنی اسٹریٹجک پوزیشن کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس کی قربت نہ صرف چین اور پاکستان کے سرحدی علاقوں سے تھی بلکہ یہ ایران اور وسطی ایشیا کے دیگر ممالک کے قریب بھی تھا، جو اسے جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کے لحاظ سے ایک کلیدی اثاثہ بناتی تھی۔ امریکی فوجیوں کے انخلا سے قبل، بگرام ایئر بیس پر 100000سے زائد فوجی تعینات رہے، اور اس میں برگر کنگ اور پیزا ہٹ جیسے فاسٹ فوڈ ریستورانوں سے لے کر ایک بڑا جیل کمپلیکس تک موجود تھا۔
2020 ء میں ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت کے دوران، ان کی انتظامیہ نے افغان طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدہ کیا، جس کے تحت امریکی افواج کے انخلا کا شیڈول طے کیا گیا۔ اس معاہدے میں بگرام ایئر بیس کو برقرار رکھنے کے بارے میں کوئی واضح شق شامل نہیں تھی۔ تاہم، جب جو بائیڈن نے 2021ء میں انخلا مکمل کیا، تو بگرام ایئر بیس کو افغان فورسز کے حوالے کر دیا گیا، جو بعد میں افغان طالبان کے قبضے میں چلا گیا۔ ٹرمپ نے اس انخلا کو ’’ شرمناک‘‘ اور ’’ تباہ کن‘‘ قرار دیتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ پر شدید تنقید کی، اور بارہا کہا کہ اگر وہ اقتدار میں ہوتے تو یہ انخلا زیادہ منظم اور باوقار ہوتا۔ اب، جب ٹرمپ دوبارہ صدر بنے ہیں، انہوں نے بگرام ایئر بیس کو واپس لینے کی بات کی ہے۔ ان کے حالیہ بیانات، جیسے کہ انہوں نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’’ اگر افغانستان نے بگرام ایئر بیس واپس نہ دی تو برے نتائج بھگتنے پڑیں گے‘‘ ، نے عالمی سطح پر ایک ہلچل مچا دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ ایئر بیس چین کے جوہری ہتھیاروں کے مراکز سے صرف ایک گھنٹے کی دوری پر ہے، جو اسے اسٹریٹجک طور پر اہم بناتا ہے۔ ٹرمپ کے اس مطالبے کے پیچھے کئی ممکنہ مقاصد ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، وہ خطے میں امریکی فوجی موجودگی کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ بگرام ایئر بیس نہ صرف افغانستان کے اندر بلکہ پورے جنوبی اور وسطی ایشیا میں امریکی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے ایک اہم اثاثہ تھا۔ اس کی جغرافیائی پوزیشن اسے چین، روس، ایران اور پاکستان جیسے ممالک کی نگرانی کے لیے مثالی بناتی ہے چین کے علاوہ ایران کو زیادہ قریب سے نگرانی میں رکھنا ایک ہدف ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ نے خاص طور پر چین کے جوہری پروگرام کا حوالہ دیا، جو یہ اشارہ دیتا ہے کہ ان کا اصل ہدف چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ چین اب بگرام ایئر بیس پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔
دوسری طرف، یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ کے بیانات کا مقصد افغان طالبان پر سیاسی دبائو ڈالنا ہو۔ دوحہ معاہدے کے بعد سے، امریکہ اور طالبان کے درمیان کچھ سطح پر رابطے جاری ہیں، جیسے کہ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی ایڈم بوہلر اور سابق امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کی افغان طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقاتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان بات چیت کا ایک چینل موجود ہے، لیکن افغان طالبان نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر کسی بھی غیر ملکی فوجی موجودگی کو قبول نہیں کریں گے۔ ٹرمپ کا’’ برے نتائج‘‘ کا دھمکی آمیز بیان اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے دبائو کی حکمت عملی استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ بگرام کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے 10000سے زائد فوجیوں اور جدید ایئر ڈیفنس سسٹمز کی ضرورت ہوگی، جو کہ عملاً ایک نئی فوجی مداخلت کے مترادف ہوگا۔
اس صورتحال میں پاکستان اور قطر کا کردار بھی اہم ہے۔ پاکستان نے دوحہ مذاکرات میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ثالثی کی، جبکہ قطر نے طالبان کے سیاسی دفتر کی میزبانی کی۔ دونوں ممالک نے انخلا کے عمل کو آسان بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تاہم، ٹرمپ کے حالیہ بیانات نے پاکستان اور قطر کو بھی ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ اگر امریکہ نے بگرام ایئر بیس پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی، تو اس سے خطے میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے، خاص طور پر پاکستان کے ساتھ، جو افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحد رکھتا ہے۔ پاکستان نے بارہا کہا ہے کہ وہ خطے میں استحکام چاہتا ہے اور کسی نئی فوجی مداخلت کے حق میں نہیں ہے۔چین کا کردار بھی اس تناظر میں اہم ہے۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ چین بگرام ایئر بیس پر قبضہ کیے ہوئے ہے، لیکن اس دعوے کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی۔ چین نے واضح کیا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی فوجی موجودگی کے خلاف ہی اور افغان عوام کے ہاتھوں میں اپنی قسمت کا فیصلہ دیکھنا چاہتا ہے۔ تاہم، چین نے افغانستان میں معدنیات کے کان کنی کے منصوبوں میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جو ٹرمپ کے بیانات کو مزید پیچیدہ بناتا ہے اورٹرمپ کی معدنیات کے خزانوں سے دلچسپی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ٹرمپ کے بیانات زیادہ تر سیاسی نوعیت کے ہیں۔ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران بائیڈن کے انخلا کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، اور اب وہ اسے اپنی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم، ان کے بیانات سے خطے میں کشیدگی بڑھنے کا خطرہ ہے، اور یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری اس صورتحال پر گہری نظر رکھے۔ بگرام ایئر بیس کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے استحکام پر اثر انداز ہوگا۔ مستند ذرائع، سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق، ٹرمپ کا یہ مطالبہ عملی طور پر نافذ کرنا تقریباً ناممکن ہے، اور اس سے زیادہ سیاسی بیان بازی کا حصہ ہے۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے، اور کسی بھی غیر ملکی مداخلت سے گریز کرنا خطے کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔





