وزیراعظم کا بھارت کو صائب مشورہ

وزیراعظم کا بھارت کو صائب مشورہ
وزیراعظم شہباز شریف کا لندن میں اوورسیز پاکستانیوں کے ایک بڑے اجتماع سے حالیہ خطاب ایک جامع اور عزم سے بھرپور پیغام تھا۔ اس خطاب میں جہاں انہوں نے پاکستان کی حالیہ دفاعی کامیابیوں، اندرونی استحکام، خطے میں امن، معاشی ترقی، اوورسیز پاکستانیوں کے کردار اور عالمی حالات پر اظہار خیال کیا، وہیں انہوں نے ایک بار پھر یہ باور کروایا کہ پاکستان محض ایک دفاعی قوت ہی نہیں، بلکہ اب اسے ایک معاشی قوت بنانے کا وقت آ گیا ہے۔ یہ خطاب نہ صرف موجودہ حالات کا احاطہ کرتا ہے، بلکہ ایک پالیسی سمت کی نشان دہی بھی کرتا ہے، جس میں پاکستان کے لیے ایک محفوظ، خوشحال اور باوقار مقام کا خواب موجود ہے۔ وزیراعظم نے 6مئی 2025ء کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کو وہ سبق سکھایا جو وہ زندگی بھر یاد رکھے گا۔ اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی عسکری تیاری اور ردِعمل کی صلاحیت پر مکمل اعتماد موجود ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ دشمن کے 6جنگی جہاز محض چند گھنٹوں میں زمین بوس ہوگئے، اس بات کی گواہی ہے کہ پاکستان کی فضائیہ، برّی فوج اور دیگر دفاعی ادارے ہمہ وقت تیار اور متحرک ہیں۔ یہ معرکہ صرف ایک عسکری کامیابی نہیں، بلکہ ایک واضح پیغام بھی تھا، پاکستان کے خلاف کسی بھی جارحیت کا جواب فوری، متوازن اور فیصلہ کن ہوگا۔ وزیراعظم نے اس معرکے میں فوجی قیادت کی یکسوئی، جذبہ ایمانی، اللہ پر بھروسہ اور فیصلہ سازی میں ہم آہنگی کو فتح کی بنیادی وجوہ قرار دیا، جو ایک متحد قوم کی نشانی ہے۔ وزیراعظم نے بھارت کو ’’جھگڑالو پڑوسی نہیں اچھا ہمسایہ بنو’’ صائب مشورہ بھی دیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں ایک انتہائی متوازن اور دانش مندانہ رویہ اپنایا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان امن چاہتا ہے اور ہم اپنے تمام مسائل، بشمول مسئلہ کشمیر کو برابری کی بنیاد پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا کہ ’’ ہمیں ساتھ رہنا ہے‘‘ اور ’’ جنگوں پر اربوں ڈالر خرچ ہوچکے، اب عوام پر خرچ ہونے چاہئیں‘‘، یہ سوچ ذمے دار قیادت کی نمائندگی کرتی ہے۔ کشمیر پر ان کا موقف دو ٹوک تھا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر باہمی تعلقات استوار ہوسکتے ہیں، تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جو کشمیری عوام کے دلوں کی ترجمانی کرتا ہے اور عالمی برادری کو یاد دہانی کراتا ہے کہ یہ مسئلہ محض جغرافیائی تنازع نہیں بلکہ انسانیت، آزادی اور انصاف کا سوال ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں اوورسیز پاکستانیوں کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وورسیز پاکستانیوں کو سونے اور جواہرات میں بھی تولا جائے تو کم ہے، یہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ ایک اعتراف ہے اُن قربانیوں، خدمات اور محنتوں کا جو بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی سرزمین کے لیے دیتے ہیں۔ 48.5ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر ایک ایسا سنگِ میل ہے جو نہ صرف معیشت کو سہارا دیتا بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ افراد پاکستان سے ہزاروں میل دُور رہ کر بھی اپنی زمین سے جڑے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ اوورسیز پاکستانی نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی سطح پر بھی پاکستان کا دفاع کرتے ہیں، یہ ایک اہم نکتہ ہے، جو دنیا میں پاکستان کی سافٹ امیج کو مضبوط بنانے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ وزیراعظم نے یہ بات تسلیم کی کہ پاکستان کو اب محض ایک ’’ عظیم عسکری قوت‘‘ نہیں بلکہ ’’ عظیم معاشی قوت‘‘ بننے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے غربت کے خاتمے، بے روزگاری، مہنگائی اور قرضوں سے نجات کو ممکن قرار دیا اور کہا کہ اگر ہم فیصلہ کر لیں تو غربت کو بھی ایسے ہی شکست دے سکتے ہیں جیسے دشمن کے جہاز گرائے۔ یہ یقین دہانی امید دلاتی ہے، اس کے لیے مسلسل محنت، پالیسیوں میں تسلسل، معاشی اصلاحات، صنعتی ترقی، تعلیم، سرمایہ کاری کے مواقع اور سب سے بڑھ کر کرپشن کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے غزہ میں جاری ظلم پر بھی بات کی، جہاں 64ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت غزہ میں جو ظلم ہورہا ہے، اس جیسی تباہی پچھلی صدی کی کسی بھی جنگ میں نہیں دیکھی گئی۔ یہ بیان نہ صرف فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہے بلکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش بھی ہے۔ وزیراعظم نے اسلامی ممالک پر زور دیا کہ وہ اب آگے بڑھیں اور اس ظلم کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کریں۔ یہ وہ وقت ہے جب مسلم امہ کو متحد ہوکر عالمی طاقتوں کو باور کروانا چاہیے کہ ظلم کسی ایک قوم کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔ وزیراعظم کا پورا خطاب اس بات کا مظہر ہے کہ موجودہ حکومت پاکستان کو ایک مضبوط، خوددار اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کا ارادہ رکھتی ہے مگر یہ ارادہ اُسی وقت عملی صورت اختیار کرے گا جب ہم بطور قوم متحد ہوں گے، سیاست دان ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفاد کو ترجیح دیں گے اور عوامی فلاح اولین ترجیح ہوگی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا یہ خطاب صرف فتح کا جشن نہیں بلکہ ایک عہد ہے، امن کا، ترقی کا، خودمختاری کا۔ انہوں نے مستقبل کی راہیں واضح کیں۔ جنگ ہو یا امن، معیشت ہو یا سیاست، مسئلہ کشمیر ہو یا غزہ، ہر میدان میں قیادت کو مضبوط فیصلے، واضح حکمت عملی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے عوام اب صرف وعدے نہیں، نتائج دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت واقعی غربت کا خاتمہ، قرضوں سے نجات اور عالمی سطح پر پاکستان کی عزت و وقار بحال کرنا چاہتی ہے، تو اسے بیان بازی سے نکل کر عمل کے میدان میں اترنا ہوگا۔ یہ وقت جذباتی نعروں کا نہیں، عملی اقدامات اور قومی پالیسیوں کی ہم آہنگی کا ہے۔ معرکہ حق کی جیت کے بعد اب ہمیں معرکہ معیشت، معرکہ تعلیم اور معرکہ انصاف جیتنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔
شذرہ۔۔۔۔
کم عمری کی شادی، اجتماعی المیہ
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کی حالیہ رپورٹ نے پاکستان کے ایک سنگین سماجی مسئلے کم عمری کی شادی کو پھر اجاگر کیا ہے، رپورٹ کے مطابق ملک میں ایک کروڑ 90لاکھ سے زائد لڑکیوں کی کم عمری میں شادیاں کی گئیں، جن میں سے 48لاکھ لڑکیاں ایسی تھیں جن کی شادیاں 15سال کی عمر سے پہلے ہوئیں۔ ان اعداد و شمار سے نہ صرف ہماری اجتماعی غفلت آشکار ہوتی ہے بلکہ اس بات کی بھی گواہی ملتی ہے کہ ہم اپنے بچوں، خصوصاً لڑکیوں، کے حقوق کے تحفظ میں مسلسل ناکام ہورہے ہیں۔ یہ انکشاف نیشنل سول سوسائٹی ڈائیلاگ اور ڈسیمنیشن ایونٹ کے دوران سامنے آیا، جو چائلڈ ارلی اینڈ فورسڈ میرج (CEFM)پراجیکٹ کے تحت منعقد ہوا۔ اس تقریب میں سول سوسائٹی، پارلیمنٹرینز، بچوں کے تحفظ کے ماہرین اور نوجوان نمائندگان نے شرکت کی۔ سب کی رائے متفقہ طور پر یہ تھی کہ بچپن کی شادی محض ایک ثقافتی یا سماجی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے، جو بچوں کے بنیادی حقوق، تعلیم، صحت اور مستقبل کو تاریکی میں دھکیل دیتا ہے۔ قانونی اعتبار سے بھی صورتحال مایوس کن ہے۔ صرف سندھ اور اسلام آباد میں شادی کی کم از کم عمر 18سال مقرر ہے جبکہ باقی صوبوں میں اب تک اس حوالے سے خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ آئینی تحفظات کے باوجود، قانون سازی کے فقدان اور عمل درآمد میں سستی نے لاکھوں بچیوں کو گھریلو تشدد، تعلیم سے محرومی اور کم عمری میں ماں بننے جیسے خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ایس پی او اور سیو دی چلڈرن جیسی اداروں کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں، لیکن جیسا کہ ان کے نمائندوں نے خود کہا، یہ محض ایک پروجیکٹ نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد ہے۔ سینیٹر جاوید جبار کی یہ بات نہایت اہم ہے کہ اگر فاطمہ جناح یا بے نظیر بھٹو کی شادیاں بھی کم عمری میں ہو جاتیں، تو وہ ہماری تاریخ میں ان بلند مقام تک نہ پہنچ پاتیں۔ یہ مثال اس بات کا ثبوت ہے کہ جب لڑکیوں کو تعلیم، مواقع اور تحفظ دیا جائے، تو وہ نہ صرف اپنے بلکہ پوری قوم کے مستقبل کو سنوار سکتی ہیں۔ اس المیے کا خاتمہ صرف بیرونی امداد سے نہیں ہوگا، جاوید جبار نے درست کہا بچوں کا تحفظ ہماری اپنی ذمے داری ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس مسئلے کو ایک وقتی مہم کے طور پر نہیں بلکہ ایک مستقل، کمیونٹی کی سطح پر چلائی جانے والی تحریک کے طور پر اپنائیں۔ حکومت، سول سوسائٹی، میڈیا، تعلیمی ادارے، مذہبی و قبائلی رہنما اور والدین سب کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔ قانون سازی کے ساتھ معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا ناگزیر ہے۔ جب تک ہم اس مسئلے کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کریں گے، ہماری لاکھوں بچیاں کم عمری میں اپنے خوابوں کو دفن کرتی رہیں گی۔ یہ جدوجہد صرف ایک لڑکی کے بچپن کی نہیں، ایک قوم کے مستقبل کی جنگ ہے اور یہ جنگ ہمیں ہر صورت جیتنی ہے۔







