Column

کھانے کی خوشبو سے رشتوں کی گرمی تک

کھانے کی خوشبو سے رشتوں کی گرمی تک
تحریر : جاوید اقبال
کبھی گھروں کو جنت کہا جاتا تھا، جہاں چولہے کی آنچ پر صرف کھانا نہیں پکتا تھا بلکہ محبت بھی دم بھرتی تھی۔ صحن میں کھیلتے بچے، دسترخوان پر جمع ہوتے بزرگ، اور کچن سے اُٹھتی خوشبو، سب مل کر ایک ایسا رشتہ بُنتے تھے جو نسلوں تک قائم رہتا تھا۔ لیکن اب منظر بدل گیا ہے۔ گھروں میں روشنی تو ہے مگر گرمیِ محفل نہیں، کمروں میں قیدی تو ہیں مگر قریبی رشتہ دار نہیں۔ ہر کوئی اپنی اسکرین، اپنے کھانے، اور اپنی تنہائی کے ساتھ بند ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے گھر رہنے کے بجائے ایک باعزت قید خانہ بن چکے ہیں، جہاں دیواریں ہیں مگر دلوں میں فاصلہ، اور چھت ہے مگر سر پر سایہ نہیں۔
کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ گھر کے چولہے کی آگ صرف سالن نہیں پکاتی، رشتوں کو بھی پکا کر گُندھتی ہے؟ دیگچی میں کھولتا سالن ہو یا تندور پر لگتی روٹی، یہ سب دراصل ایک خاندان کو جوڑنے کا وہ دھاگا ہے جو ٹوٹ جائے تو محلّات بھی یتیمی کی بو دیتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ہم نے اس دھاگے کو خود اپنے ہاتھوں سے کاٹنے کا بندوبست شروع کر دیا ہے۔
دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک کہلانے والے امریکہ کی ایک تحقیقی رپورٹ پڑھ کر دل دہل جاتا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں وہاں کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ اگر گھروں میں چولہے ٹھنڈے پڑ گئے اور کھانے پکانے کی ذمہ داری نجی کمپنیوں کو منتقل ہو گئی، تو خاندانی نظام بکھر کر رہ جائے گا۔ اُس وقت بہت سے دانشور ہنس پڑے تھے۔ ’’ کھانا پکانے اور خاندانی نظام میں کیا تعلق؟ ‘‘ مگر وقت نے دکھا دیا کہ سالن کا چمچ ٹوٹے تو رشتوں کے ڈور بھی ٹوٹتی ہے۔
اعداد و شمار جھوٹ نہیں بولتے۔ 1971ء میں امریکہ کے 71فیصد گھرانے ایسے تھے جن میں میاں بیوی اور بچے ایک ساتھ رہتے تھے۔ آج وہاں صرف 20فیصد خاندان باقی ہیں۔ باقی کہاں گئے؟ کوئی نرسنگ ہوم میں، کوئی بے روح فلیٹ میں، اور کوئی اپنی ہی ڈیوائس کی اسکرین میں قید۔ عورتیں اکیلی، مرد تنہا، بچے بغیر شادی کے پیدا ہونے والے۔ طلاق کا تناسب اتنا بڑھا کہ پہلی شادی میں 50فیصد، دوسری میں 67فیصد اور تیسری میں 74فیصد رشتے عدالت کے کاغذوں میں تحلیل ہو گئے۔ یہ سب کسی حادثے کا نتیجہ نہیں تھا، یہ گھر کا’’ چولہا بجھنے‘‘ کی قیمت تھی۔
گھر کا کھانا صرف غذا نہیں ہوتا، یہ محبت ہے، یہ گفتگو ہے، یہ بزرگوں کا ادب ہے، یہ بچوں کی تربیت ہے۔ جب خاندان ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے تو سالن میں نمک کم ہو یا زیادہ، محبت کا ذائقہ پورا ہوتا ہے۔ مگر جب ہر کوئی اپنی اپنی اسکرین کے ساتھ’’ اپنا کھانا‘‘ کھانے لگے تو گھر مہمان خانے بن جاتے ہیں، اور خاندان فیس بک فرینڈز لسٹ کی طرح صرف ناموں کا ہجوم۔
ہم پاکستانی بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ’’ ہماری خاندانی اقدار مغرب سے مختلف ہیں‘‘، یہ جملہ اکثر سیاست دانوں کی تقریروں، اینکرز کے ٹاک شوز اور اسکول کی نصابی کتابوں میں دکھائی دیتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہم نے ان اقدار کو زندہ رکھا ہوا ہے، یا صرف زبان کی ورزش کے لیے ان کا نام لیا جاتا ہے؟
ہمارے گھروں کا حال بھی اب کچھ مختلف نہیں۔ چولہے جلتے ہیں تو صرف دکھاوے کے لیے، سالن پک بھی جائے تو اکثر ساتھ والے کمرے میں کھانے کے بجائے ٹی وی، موبائل یا لیپ ٹاپ کے سامنے جا کر ’’ انفرادی دعوت‘‘ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ باورچی خانے کے دھوئیں میں وہ محبت اور ربط کہاں جو کبھی دادیاں اور نانیاں قصے کہانیاں سناتے ہوئے روٹی بیلتی تھیں؟ اب تو’’ بابا جی کا قہوہ‘‘ بھی آن لائن آرڈر ہوتا ہے۔
ہم مغرب کی تقلید میں اس تیزی سے دوڑ رہے ہیں کہ مغرب والے بھی حیران ہیں۔ وہاں تو کم از کم فاسٹ فوڈ چینز نے اپنا ایک معیار تو بنایا ہوا ہے، یہاں تو چھوٹے موٹے ڈھابے والے بھی ’’ امپورٹڈ‘‘ ناموں کے بورڈ لگا کر جیب ہلکی اور معدہ بوجھل کر رہے ہیں۔ گھر کی دیسی دال اور سبزی کو ہم غریبی کی نشانی سمجھتے ہیں اور باہر کے برگر کو’’ کلاس‘‘ ۔ شاید اسی لیے بزرگ اکثر کہتے ہیں ’’ یہ نئی نسل نمکین لسی کو بھول گئی ہے، بس کولڈ ڈرنک کو یاد رکھتی ہے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ اگر ہم نے بھی یہی راستہ اپنایا تو انجام کیا ہوگا؟ امریکہ میں خاندانی نظام کو بازار نے نگل لیا، یہاں بھی یہی خطرہ منہ کھولے کھڑا ہے۔ آج ہی اگر کسی متوسط گھر کے باورچی خانے کا سروے کر لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ فرج میں سب سے زیادہ جگہ ’’ فاسٹ فوڈ کے ڈبے‘‘ گھیرے بیٹھے ہیں، نہ کہ اپنی پکی ہوئی دیسی خوراک۔ ہم نے تو گھروں کو بھی آدھا’’ ریسٹورنٹ‘‘ اور آدھا ’’ ہوٹل‘‘ بنا دیا ہے۔
یہ کیسی خود فریبی ہے کہ ہم گھریلو کھانے کو پرانے وقتوں کی علامت سمجھ کر مسترد کر دیں اور باہر کے ’’ ڈبے کے ذائقے‘‘ کو ترقی کی دلیل بنا لیں؟ اور پھر رونا روتے ہیں کہ بچے بات نہیں سنتے، بزرگوں کی عزت نہیں کرتے، اور گھر میں سکون نہیں ہے۔ جب دسترخوان ہی ٹوٹ گیا تو رشتوں کی ڈور کہاں سے جڑے گی؟
اسلام نے جس سماج کا نقشہ کھینچا ہے، اس کی بنیاد ہی خاندان پر ہے۔ قرآن و سنت میں بار بار گھر والوں کے ساتھ حسنِ سلوک، بچوں کی تربیت اور بزرگوں کی خدمت پر زور دیا گیا ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’ تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہے، اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہوں‘‘۔
غور کیجیے، یہ جملہ کسی مسجد یا مدرسے کے تناظر میں نہیں بلکہ باورچی خانے اور دسترخوان کی دنیا میں اپنی روشنی ڈالتا ہے۔
ہمارے بزرگ اس بات کو خوب سمجھتے تھے۔ اسی لیے سفر پر نکلتے تو اپنی گٹھڑی میں کھانے کا سامان ضرور رکھتے۔
نہ اس وقت ’’ فوڈ پانڈا‘‘ تھا، نہ ’’ آن لائن ڈیلیوری‘‘، لیکن گھریلو کھانے کی خوشبو ساتھ ضرور چلتی تھی۔ آج ہمارے بچے گھر میں بیٹھ کر بھی باہر کے کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ سہولت نہیں، غلامی ہے ذائقوں اور کمپنیوں کی غلامی۔
اسلام میں کھانے پینے کے آداب بھی رشتوں کو جوڑنے کا ذریعہ ہیں۔ دسترخوان پر سب کا ایک ساتھ بیٹھنا، بڑے کا پہلے شروع کرنا، چھوٹے کا انتظار کرنا، یہ سب وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن میں بڑی حکمت چھپی ہے۔ یہ آداب نہ صرف صحت کے ضامن ہیں بلکہ محبت کے ضامن بھی ہیں۔ مگر جب سب اپنے اپنے کمرے میں موبائل کی اسکرین کے ساتھ کھا رہے ہوں تو’’ بسم اللہ‘‘ کی آواز بھی گم ہو جاتی ہے اور دعا بھی۔
کیا یہ عجیب تضاد نہیں کہ ہم شادیوں پر لاکھوں روپے کے کھانے ضائع کر دیتے ہیں، مگر روزانہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک سادہ دسترخوان سجانے سے کتراتے ہیں؟ ہمارے گھروں میں باورچی خانہ اب’’ گھرکا قید خانہ‘‘ بن گیا ہے، جہاں ماں اکیلی کھڑی کڑچیاں ہلاتی ہے اور باقی سب اپنی اپنی دنیا میں مصروف ہیں۔
اسلامی تعلیمات ہمیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ کھانا بانٹنے سے رزق میں برکت ہوتی ہے، مگر ہم نے بانٹنے کے بجائے آرڈر کرنے کو ترجیح دے دی۔ نتیجہ یہ ہے کہ برکت بھی اُڑ گئی اور محبت بھی۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم بھی وہی راستہ اپنانے جا رہے ہیں جس پر چل کر مغرب نے اپنے خاندانی نظام کو قبرستان بنا دیا؟ کیا ہمارے لیے خاندان صرف ایک ’’ واٹس ایپ گروپ‘‘ کا نام رہ گیا ہے جہاں صبح صبح ’’ گڈ مارننگ‘‘ کے میسج آ جائیں تو سمجھا جاتا ہے کہ رشتے نبھا لیے گئے؟ یا پھر ہمارے لیے گھر صرف ’’ ایئر کنڈیشنڈ ہوٹل‘‘ ہیں جہاں سب رہتے تو اکٹھے ہیں مگر جیتے الگ الگ؟
سوچنے کی بات ہے کہ اگر ہم نے بھی اپنے باورچی خانے کے چولہے بجھا دئیے تو پھر یہی انجام ہمارا بھی منتظر ہے، بزرگ نرسنگ ہومز میں، بچے ویڈیو گیمز میں، اور والدین فاسٹ فوڈ کے ڈبوں میں۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں۔ گھر کا چولہا جلانا صرف سالن پکانے کا نام نہیں بلکہ رشتے گرم رکھنے کا ہنر ہے۔ اگر ہم نے گھروں کو دوبارہ دسترخوان کی خوشبو سے آباد نہ کیا تو آنے والی نسلیں صرف تصویروں میں ’’ فیملی فوٹو‘‘ دیکھیں گی، حقیقت میں نہیں۔
مغرب کی اندھی تقلید کا انجام بھی اُتنا ہی اندوہناک ہے جتنا خود مغرب کا۔ وہاں خاندانی نظام کا جنازہ اُٹھ چکا ہے، ہم کیوں اس کے کندھے بنیں؟ اگر ہم نے اسلامی تعلیمات کے سنہرے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کی، تو نہ صرف گھر کے باورچی خانے آباد رہیں گے بلکہ دل بھی آباد رہیں گے۔
یاد رکھیے! ’’ ایک بیڈروم سے گھر نہیں بنتا، مگر ایک باورچی خانے سے خاندان سنور جاتا ہے‘‘۔
جاوید اقبال

جواب دیں

Back to top button