پاکستان میں حالیہ سیلاب اور بروقت اقدامات

پاکستان میں حالیہ سیلاب اور بروقت اقدامات
تحریر:مہر اشتیاق احمد
سیلاب ایک قدرتی آفت ہے جو انسانی جانوں، معاشرت، معیشت اور ماحول پر گہرے اثرات ڈالتی ہے، حالیہ سیلابوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے گھر، فصلیں تباہ، املاک و انفرا سٹرکچر تباہ اور معاشرتی زندگی مفلوج ہو گئی ہے، سیلاب نے سیکڑوں افراد کی جانیں لے لی ہیں، ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، ہزاروں لوگ زخمی یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔ کئی مقامات پر لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر عارضی کیمپوں میں پناہ لینا پڑی ہے، بعض علاقوں کے زمینی رابطے منقطع ہو چکے ہیں، جس سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، سیلاب کے نتیجے میں لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلیں ( دھان، کپاس، جوار، چاول، سبزیاں وغیرہ ) تباہ ہو گئی ہیں، جس سے کسان شدید مالی مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں، مال مویشیوں کی ہلاکت اور گوداموں کی بربادی نے زرعی معیشت کو مزید کمزور کیا ہے، اس کے علاوہ آئندہ فصل کی بوائی بھی خطرے میں ہے کیونکہ کھیتوں میں پانی جمع ہے، سڑکیں، پل، بجلی کے کھمبے، مواصلاتی نظام، تعلیمی ادارے اور اسپتال بھی سیلاب سے شدید متاثر ہوئے ہیں، کئی سو پل تباہ اور ہزاروں کلومیٹر سڑکیں ناقابل استعمال ہو گئی ہیں، جس نے تجارتی سرگرمیوں اور عام آدمی کی نقل و حرکت کو محدود کیا ہے، بے گھر ہونے والے خاندان خیموں اور عارضی پناہ گاہوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، انفراسٹرکچر کی تباہی سے تعلیم اور صحت کے نظام میں شدید مشکلات آ رہی ہیں، جبکہ پینے کا صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے ہیضہ، ملیریا اور دیگر وبائیں پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
سیلاب کے نتیجے میں مٹی کا کٹائو، زرعی زمین کی زرخیزی میں کمی، جنگلات اور جنگلی حیات کو نقصان، اور ماحولیاتی نظام میں عدم توازن پیدا ہو رہا ہے، گندے پانی کے جمع رہنے سے بیماریوں اور مچھر کے پھیلائو میں اضافہ ہو رہا ہے، سیلاب کی تباہ کاریاں صرف وقتی نہیں بلکہ دیرپا سماجی، معاشی اور ماحولیاتی اثرات رکھتی ہیں۔ اس تناظر میں حفاظتی اقدامات، بروقت امداد، ماحولیاتی شعور اور جامع پالیسی سازی انتہائی ضروری ہے۔ جس کے لئے ڈیم اور پانی ذخیرہ کرنے والے بڑے ذخائر کی تعمیر سے سیلابی پانی پر قابو پایا جا سکتا ہے اور اس پانی کو خشک سالی کے مواقع پر استعمال کیا جا سکتا ہے،ڈیم بڑے پیمانے پر سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جس سے نشیبی علاقوں، رہائشی بستیوں اور زرعی زمینوں کو شدید نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق بڑے ڈیم اندازاً 60تا 70فیصد سیلابی صورتِ حال کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، جبکہ چھوٹے ڈیم 20فیصد تک موثر ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ان کی دیکھ بھال اور پانی کے اخراج کا نظام درست کام کر رہا ہو، ڈیم صرف پانی ذخیرہ نہیں کرتے بلکہ زرعی آبپاشی، بجلی کی پیداوار، زیر زمین پانی ریچارج اور مقامی ماحول کی بہتری میں بھی معاون ہوتے ہیں، البتہ جب پانی کا بہائو معمول سے کہیں زیادہ ہو، یا ڈیم اپنی استعداد سے زیادہ بھر جائیں تو پانی چھوڑنا یا بند کا ٹوٹنا خود بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے، اس لیے ڈیموں کے ساتھ وارننگ سسٹم، نکاسی کے متبادل راستے، اور موثر لینڈ یوز پلاننگ بھی ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق سیلابی ریلوں کو نہری نظام اور ری چارج زونز کے ذریعے زمین میں جذب کرنا، یا پانی کو متبادل چینلز میں لے جانا زیادہ پائیدار ماڈل بنتا جا رہا ہے، صرف ڈیم بنانا کافی نہیں، بلکہ ہولسٹک واٹر مینجمنٹ کی ماڈرن اسٹریٹیجی ناگزیر ہے، ڈیم خاص طور پر بڑے آبی ذخائر، سیلاب سے تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر جامع حکمت عملی کے بغیر یہ کافی نہیں ہیں، حفاظتی بندوں اور پختہ کناروں کی مضبوطی سے دریا اور نہر کے پانی کو رہائشی علاقوں میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے، نکاسی آب کے نظام کو جدید اور فعّال بنایا جائے تاکہ پانی جلد از جلد خارج ہو سکے۔
فعال وارننگ سسٹم، الرٹ اور ابتدائی خبرداری کے نظام کے ذریعے سیلاب کے خطرے سے پہلے ہی آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا سکتا ہے، نہروں اور دریاں کی بھل صفائی اور سیلابی ریلے کے لیے اضافی نہری نظام بھی فائدہ مند ہے، متاثرہ علاقوں میں رہنے والوں کی تربیت، آگاہی مہمات اور باہمی امداد کے نظام کو فروغ دینا چاہیے، حکومت اور مقامی اداروں کے درمیان رابطہ مضبوط کریں، تاکہ ہنگامی صورتحال میں فوری امداد مل سکے.درج بالا تدابیر پر عمل سے سیلاب کے نقصانات کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے، اگر تمام سطحوں پر مستقل پلاننگ ہو اور بروقت اقدامات کیے جائیں۔
مہر اشتیاق احمد







