پاک، سعودیہ دفاعی معاہدہ اور معاشی استحکام

پاک، سعودیہ دفاعی
معاہدہ اور معاشی استحکام
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدہ نہ صرف دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ہے بلکہ اس معاہدے کے دوررس اثرات پاکستان کے لیے سیاسی، دفاعی اور معاشی میدانوں میں مثبت پیش رفت کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے حالیہ بیان نے اس معاہدے کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے، جس میں انہوں نے نہ صرف معاہدے کی تاریخ ساز حیثیت پر زور دیا، بلکہ اس کے ممکنہ معاشی فوائد کی بھی نشان دہی کی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ سے قریبی اور دوستانہ رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے مختلف ادوار میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے، چاہے وہ قدرتی آفات ہوں، معاشی بحران ہوں یا بین الاقوامی سطح پر حمایت کا معاملہ۔ سعودی عرب نے ہر نازک موڑ پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور پاکستان نے بھی اسلامی دنیا میں سعودی عرب کے کردار کو تسلیم کیا ہے۔1971ء کے سانحہ مشرقی پاکستان کے دوران سعودی عرب کی جانب سے کراچی بھیجی گئی گن بوٹس اس بات کا ثبوت ہیں کہ سعودی عرب نے عملی طور پر بھی پاکستان کی حمایت کی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے اس واقعہ کا حوالہ دینا اس معاہدے کو ایک تاریخی تسلسل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ موجودہ معاہدہ ماضی کی دوستی اور اعتماد کا تسلسل ہے، نہ کہ کسی نئی سیاسی ضرورت کا نتیجہ۔ ابھی تک اس معاہدے کی تفصیلات مکمل طور پر منظرعام پر نہیں آئیں، لیکن جو معلومات فراہم کی گئی ہیں، ان کے مطابق پاکستان کی مسلح افواج کی موجودگی سعودی عرب میں مزید بڑھے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی دفاعی ضروریات میں مزید فعال کردار ادا کرے گا، جو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف دفاعی تعاون کو فروغ دے گا بلکہ پاکستان کے لیے معاشی فوائد بھی لے کر آئے گا۔
دفاعی صنعت، ہتھیاروں کی مرمت، ٹریننگ، اور تکنیکی مہارت کے تبادلے سے متعلق شعبوں میں معاشی ترقی کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بجاطور پر اس معاہدے کو پاکستان کے معاشی استحکام سے جوڑا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے، بیرونی سرمایہ کاری اور معاشی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ سعودی عرب پہلے ہی پاکستان میں توانائی، معدنیات اور تعمیراتی شعبوں میں دلچسپی کا اظہار کر چکا ہے ۔ اگر دفاعی تعاون کی بنیاد پر دیگر معاشی معاہدے بھی وجود میں آتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں، سعودی عرب میں موجود پاکستانی فوجی اور سویلین ماہرین کی آمد سے وہاں موجود پاکستانی کمیونٹی کے لیے بھی امکانات روشن ہوں گے۔ یہ نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کو قریب لائے گا بلکہ پاکستان کے لیے ریونیو کا مستقل ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا دونوں خطے شدید جیو اسٹرٹیجک کشیدگی کا شکار ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں یمن، ایران، اسرائیل اور فلسطین کے تنازعات پہلے ہی علاقائی توازن کو متاثر کررہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی افواج کی سعودی عرب میں موجودگی ایک ذمے دارانہ کردار کی عکاسی کرے گی، جہاں وہ امن و استحکام کے قیام میںمددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ان عناصر کی طرف اشارہ کیا ہے جو اس معاہدے سے ناخوش ہیں۔ پاکستان کے دفاعی تعلقات کو مضبوط کرنے کے خلاف بیانیہ ہمیشہ سے کچھ مخصوص حلقے پھیلاتے رہے ہیں، خاص طور پر وہ طاقتیں جو خطے میں پاکستان کی خودمختاری یا سعودی عرب کی قیادت سے خائف ہیں مگر اس تنقید کے باوجود، پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں وسعت عالمی سیاست میں ایک متوازن، بااعتماد اور باوقار حکمت عملی کی علامت ہے۔ وزیر دفاع نے اشارہ دیا ہے کہ سعودی عرب کے بعد دیگر ممالک کے ساتھ بھی دفاعی معاہدوں کے امکانات موجود ہیں۔ یہ بیان اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں ایک نیا باب رقم کرنا چاہتا ہے، جس میں وہ نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ عالمی برادری کے ساتھ بھی متوازن اور بااعتماد تعلقات استوار کرے۔ پاکستان کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ اپنے تجربے، مہارت اور ساکھ کو استعمال کرتے ہوئے ایسے دفاعی معاہدے کرے جو صرف عسکری نہیں بلکہ معاشی، تعلیمی اور سائنسی ترقی کا ذریعہ بھی بنیں۔ اگر اس حکمت عملی کو صحیح طریقے سے اپنایا گیا تو پاکستان خطے میں ایک پُرامن مگر طاقتور ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ حکومت اس معاہدے کی تفصیلات کو مناسب وقت پر عوام کے سامنے لائے اور پارلیمانی نگرانی کو یقینی بنائے تاکہ اس قسم کے معاہدے صرف ریاستی اداروں کی صوابدید پر نہ ہوں بلکہ جمہوری عمل کا حصہ بھی بنیں۔ پاک سعودی دفاعی معاہدہ ایک اہم سنگ میل ہے جو نہ صرف دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتا ہے بلکہ پاکستان کے لیے معاشی، دفاعی اور سفارتی فوائد کا وسیلہ بھی بن سکتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے اس معاہدے کو تاریخی قرار دینا بلاجواز نہیں، لیکن اس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان اسے کس طرح استعمال کرتا ہے۔ اگر اس معاہدے کو ایک جامع، شفاف اور پائیدار پالیسی کا حصہ بنایا جائے تو یہ مستقبل میں پاکستان کی معاشی خودمختاری، دفاعی خوداعتمادی اور بین الاقوامی وقار کو بڑھا سکتا ہے۔ پاکستان اس موقع کو قومی ترقی، علاقائی استحکام اور عالمی شراکت داری کی سمت ایک قدم سمجھ کر استعمال کرے اور ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنا کردار مزید موثر طریقے سے ادا کرے۔
سوشل میڈیا پر دولت کی
نمائش، کارروائی کا فیصلہ
ایف بی آر کی جانب سے سوشل میڈیا پر دولت کی بے جا نمائش کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ملکی معیشت اور ٹیکس نظام کی بہتری کی سمت ایک اہم قدم ہے۔ ذرائع کے مطابق، ایف بی آر نے لاکھوں سوشل میڈیا صارفین کا ڈیٹا جمع کرلیا، جن میں سے ابتدائی طور پر ایک لاکھ افراد کا آڈٹ کیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سوشل میڈیا پر اپنی پُرتعیش زندگی، مہنگی گاڑیوں، بنگلوں، قیمتی زیورات اور مہنگے ملبوسات کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرتے ہیں، لیکن ان کی آمدن کا کوئی واضح یا جائز ذریعہ سامنے نہیں آتا۔ افسوس کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں بڑی آبادی غربت، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل کا سامنا کررہی ہے، وہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اپنی دولت کی نمائش کو فخر اور شہرت کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ سوشل میڈیا پر نمود و نمائش کا یہ رجحان نہ صرف معاشرتی تفاوت کو ہوا دیتا ہے، بلکہ ٹیکس چوری، کالے دھن اور ناجائز ذرائع آمدن کو بھی پوشیدہ رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایف بی آر کا یہ قدم نہ صرف ایسے افراد کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے اہم ہے بلکہ یہ ایک واضح پیغام بھی ہے کہ اب ٹیکس چوروں کے لیے چھپنے کی جگہ نہیں بچے گی۔ خصوصاً شادیوں پر ہونے والے غیر معمولی اخراجات، لاکھوں روپے کے ملبوسات، جیولری اور غیر ملکی مقامات پر ہونے والی تقریبات، اب ایف بی آر کی نظر میں آچکی ہیں۔ اگر کوئی شخص لاکھوں روپے خرچ کر رہا ہے لیکن ٹیکس ریٹرن میں اس کا عکس نہیں دکھا رہا، تو سوالات تو ضرور اٹھیں گے۔ یہ اقدام اس لحاظ سے بھی قابلِ تعریف ہے کہ ایف بی آر گزشتہ برسوں کے گوشواروں کا موازنہ کر کے اس بات کا جائزہ لے گا کہ کسی کی آمدن میں اچانک غیر معمولی اضافہ کیوں اور کیسے ہوا۔ یہ وہ عمل ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں برسوں سے ہورہا ہے اور اب پاکستان میں بھی اسے سنجیدگی سے اپنانے کی ضرورت ہے۔ تاہم، یہ امر بھی انتہائی ضروری ہے کہ ایف بی آر اس عمل کو شفاف اور غیر جانب دار طریقے سے انجام دے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں۔ اگر یہ مہم صرف چند افراد تک محدود رہی یا محض میڈیا کی زینت بن کر رہ گئی، تو اس کا مقصد فوت ہوجائے گا۔ آخر میں، یہ کہنا بجا ہوگا کہ اگر ایف بی آر اپنی اس مہم کو ایمان داری، شفافیت اور تسلسل کے ساتھ چلائے، تو نہ صرف ملکی خزانے کو فائدہ ہوگا بلکہ ایک منصفانہ معاشرہ تشکیل پانے کی راہ ہموار ہوگی۔ اب وقت آچکا ہے کہ پاکستان میں دولت کی نمائش کو فیشن کے بجائے قانون کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔





