کتاب کی طاقت

کتاب کی طاقت
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
بچپن کی غربت، یتیمی اور بھوک انسان کو یا تو توڑ دیتی ہے۔۔۔ یا پھر اسے نئی راہیں دکھاتی ہے۔ جو لوگ برے حالات کا ہمت سے سامنا کرتے ہیں۔ اس سے ایک نئی طاقت اخذ کرتے ہیں۔ تو پھر وہی لوگ تاریخ میں اپنا نام امر کر جاتے ہیں۔ میکسم گورکی بھی انہی لوگوں میں شامل تھا جسے حالات نے مایوس کیا، مگر پھر ایک جملے نے اس کی زندگی بدل دی۔ کہتے ہیں ایک دفعہ ایک بوڑھی عورت نے اس سے کہا ’’ پڑھائی کر، کتاب میں وہ طاقت ہے جو بھوک کو بھی ہرا دیتی ہے‘‘۔ یہ محض ایک نصیحت نہیں تھی، بلکہ ایک چراغ تھا۔ جو گورکی کے دل میں جل اٹھا اور پھر ساری زندگی اس کی رہنمائی کرتا رہا۔۔
میکسم گورکی کا اصل نام الیکسی میکسی مووچ پیشکوف ہے۔ روسی ادب کی ایک عظیم شخصیت تھے۔ ان کی زندگی غربت، یتیمی اور کٹھن حالات میں گزری، لیکن ان کے اندر پڑھنے اور لکھنے کا جذبہ اتنا مضبوط تھا۔ کہ وہ روسی ادب میں ایک انقلاب لے آئے۔
میکسم گورکی 28مارچ 1868ء کو شہر نعنی نووگورود روس میں پیدا ہوئے۔ 1871ء میں والد کا انتقال ہوا۔ اس وقت گورکی صرف تین سال کے تھے۔ 1879ء میں والدہ کا بھی انتقال ہو گیا، گورکی صرف نو سال کی عمر میں یتیم ہو گئے۔ 1880 ء کی دہائی میں سخت غربت میں زندگی گزری، مزدوری، جوتے پالش کرنے اور بحری جہاز پر کام کرنے جیسے چھوٹے موٹے کام کیے۔ 1884ء میں عمر 16سال کی عمر میں پہلی بار خودکشی کی کوشش ناکام رہی۔ بچپن میں غربت، یتیمی اور بھوک نے اسے مایوس کیا۔ لیکن بوڑھی عورت کے اس ایک جملہ نے گورکی کی زندگی میں انقلاب لایا۔ اس کی زندگی کا رخ موڑ دیا، اور وہ روس کا سب سے بڑا ادیب اور انقلابی سوچ کا نمائندہ بنا۔ اور محروموں کی زبان بن کر آواز بلند کی۔ 1884ء سے 1887ء تک مختلف شہروں کا سفر کیا۔ مزدوری کے ساتھ ساتھ خود تعلیم حاصل کی۔ 1889ء میں پہلی بار تحریریں اور کہانیاں مقامی رسائل میں شائع ہونا شروع ہوئیں۔ 1892ء میں پہلی کہانی ’’ ماکار چُدرا‘‘ شائع ہوئی، اسی کے ساتھ قلمی نام ’’ میکسم گورکی‘‘ اختیار کیا۔ 1895ء سے 1899ء کے درمیان شہرت میں اضافہ ہوا۔ مختصر کہانیاں اور خاکے روس بھر میں مقبول ہوئے۔ 1901ء میں انقلاب پسند سرگرمیوں کے باعث گرفتار کیا گیا۔ 1902ء میں روسی سائنسز اکیڈمی نے انہیں رکنیت دینے کی کوشش کی لیکن زار کی حکومت نے ویٹو کر دیا۔ انقلاب 1905ء میں فعال کردار کیا اور ’’ ماں‘‘ (The Mother)لکھنے کا آغاز کیا۔ 1906ء میں ناول ’’ ماں ‘‘ شائع ہوا، دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ جس نے دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں کو متاثر کیا۔1906ء سے 1913ء تک بیرونِ ملک قیام کیا، خاص طور پر اٹلی میں۔ اس دوران لینن اور دیگر انقلابی رہنماں سے قریبی تعلقات پیدا ہوئے۔ 1913ء میں روس واپس ہوئے۔ 1917ء میں روسی انقلاب کے دوران بالشیویکوں سے اختلاف بھی کیا لیکن انقلابی تحریک کا ساتھ دیا۔ 1921ء میں صحت کی خرابی کے باعث سوویت حکومت کی اجازت سے دوبارہ اٹلی چلے گئے۔ 1928ء میں اسٹالن کی دعوت پر سوویت یونین واپس آئے۔ 1932ء میں شہر نعنی نووگورود کا نام تبدیل کر کے انہی کے اعزاز میں ’’ گورکی‘‘ رکھا گیا۔ 18جون 1936ء کو ماسکو کے قریب انتقال کر گئے۔ بعض محققین کے مطابق ان کی موت میں سیاسی سازش کا امکان بھی بیان کیا جاتا ہے۔
گورکی نے کتاب کو ہتھیار بنایا۔ وہ بھوک کے خلاف لڑا، غربت کو چیلنج کیا اور قلم کے ذریعے سماج کے دکھوں کو آواز دی۔ اس نے دکھایا کہ تعلیم اور شعور ہی وہ قوت ہے جو بھوک اور محرومی کو شکست دے سکتے ہیں۔ گورکی نے محنت کشوں، کسانوں اور عام انسان کی زندگی کو اپنی تحریروں میں زندہ کر دیا۔ اس کا ناول ’’ ماں‘‘ صرف ایک کہانی نہیں، بلکہ انقلابی فکر کا استعارہ بن گیا۔ یہ وہ ادب ہے جو قاری کو سوچنے، لڑنے اور بدلنے پر مجبور کرتا ہے۔ آج بھی ہمارے معاشروں میں ہزاروں بچے غربت اور یتیمی کی تاریکیوں میں جی رہے ہیں۔ اگر انہیں کتاب کی روشنی ملے تو وہ بھی اپنی تقدیر کے مالک بن سکتے ہیں۔ گورکی کی زندگی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ کتاب بھوک کو ہراتی ہے، جہالت کو مٹاتی ہے اور انسان کو وہ طاقت دیتی ہے جو تاریخ کا رخ بدل دیتی ہے۔ اس کی تحریروں میں محنت کش طبقے کی روح بولتی ہے۔ وہ کہانیاں اور ناول جو اس نے لکھے، آج بھی پڑھنے والے کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا سب سے مشہور ناول ’’ ماں‘‘ دنیا کے انقلابی ادب کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اس میں ماں کی محبت اور قربانی کے ساتھ ساتھ مزدور طبقے کے دکھ اور جدوجہد کی جھلک نظر آتی ہے۔ گورکی کا سفر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ تعلیم محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ انسان کو بدلنے اور اس کی تقدیر سنوارنے والی قوت ہے۔ بھوک، غربت اور تنہائی کو شکست دینے کا واحد راستہ علم اور شعور ہے۔ ہمارے معاشروں میں بھی ہزاروں بچے آج غربت اور یتیمی کے سائے میں جی رہے ہیں۔ اگر ہم انہیں کتاب اور تعلیم کی روشنی فراہم کریں تو شاید آنے والے وقت میں وہ بھی کسی گورکی کی طرح تاریخ کا رخ موڑ سکیں۔ گورکی ، کی کہانی سے یہی سبق ملتا ہے، کہ کتاب بھوک کو ہرا سکتی ہے، جہالت کو مٹا سکتی ہے، اور انسان کو وہ طاقت دے سکتی ہے جو دنیا بدل دے۔ ان کی زندگی خود ایک پیغام ہے کہ علم اور شعور سب سے بڑی طاقت ہیں۔ گورکی نے اپنے قلم کے ذریعے بھوک، غربت اور جبر کے خلاف آواز بلند کی، اور یہ ثابت کیا کہ کتاب واقعی زندگی بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔۔۔





