Column

احتیاط برتیں، کہیں نہ پھر دیر ہو جائے

احتیاط برتیں، کہیں نہ پھر دیر ہو جائے
تحریر: خالد غورغشتی
جب ہم علیل ہوتے ہیں اور کسی طبیب کے پاس جاتے ہیں تو وہ علاج کے ساتھ کچھ ایسی احتیاط برتنے کی تاکید کرتا ہے، جو ہماری طبعیت پر گراں گزرتی ہیں لیکن مجبوراً ہمیں یہ کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں۔ بعض اہل حکمت نے احتیاط کو علاج سے بہتر قرار دیا ہے۔ جس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ چند زریں اصول جن پر آج بھی ہم عمل پیرا ہو کر بے شمار بیماریوں سے نجات پا سکتے ہیں۔
تھوڑا کھانا : صحت مندانہ زندگی گزارنے کے لیے کم کھانا، کم بولنا اور کم سونا زریں اصول ہیں۔ آج بھی جو اِن اصولوں پر کار بند ہیں؛ ان کی صحت ہم عصروں سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ کہا جاتا ہے؛ کھانا کھا کر پھر کھانا بدترین بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔ بعض کُتب میں سقراط کا قول ملتا ہے: ’’ لوگ کھانے کے لیے زندہ رہتے ہیں اور میں زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہوں‘‘۔ اس لیے کہا جاتا ہے، غذا کو دوا سمجھ کر کھانے والے کبھی بیمار نہیں ہوتے۔ کھانے کے دوران گفتگو سے گریز کرتے ہوئے چبا چبا کر احتیاط سے کھانا چاہیے کہ کھانے کا بدترین طریقہ وہ ہے؛ جو جلدی جلدی بغیر چبائے کھایا جائے۔ جب تک اچھی طرح بھوک نہ لگے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھانا چاہیے۔ کھانے کے فوراً بعد رفع حاجت اور کچھ دیر کے لیے پیدل چلنا کہ جس سے کھانا جلدی ہضم ہو جائے، بہترین عمل ہے۔ بعض دیہی علاقوں کے لوگوں کی زندگیاں طویل ہوتی ہیں، اس کے پیچھے ان کی محنت و مشقت اور سادہ دیسی غذائیں شامل ہوتی ہیں۔ آدمی مرتا نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو ہلاک کرتا ہے: بزرگ کہا کرتے تھے، آدمی مرتا نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ وہ کیسے؟ زیادہ کھا کر، مرچ مصالحے دار کھا کر، بہ کثرت تلے ہوئی چیزیں کھا کر، گوشت کا کثرت استعمال اور ہر وقت سست پڑا رہ کر۔ جب تک ہم ٹھیک ہیں؛ ہرگز کوئی دوا نہ استعمال کریں، ورنہ بیماریاں پھوٹتے دیر نہیں لگتی۔ اسی طرح بار بار کی بد ہضمی وہ بیماری ہے، جس سے ہزاروں بیماریاں جنم لیتی ہے۔ کہتے ہیں، دنیا بھر میں بُھوک سے کم لوگ مرتے ہیں؛ جتنا بیسار خوری کے باعث بیمار ہو کر ہلاک ہوتے ہیں۔ نمک، چینی، بازاری گھی، بازاری کھانوں کا کم سے کم استعمال کریں۔
چادر دیکھ کر پائوں پھیلانا: ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ ہم دوسروں کو دیکھ کر ہر کام کرتے ہیں، غمی و خوشی کی تقریبات آج اسی لیے مشکل ہو رہی ہیں۔ اگر ہم ہر معاملے میں اپنی چادر کو دیکھ کر پائوں پھیلانے کی کوشش کریں تو لاتعداد مسائل کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ دوسروں کے پاس بڑا مکان، مہنگی گاڑی، قیمتی ساز و سامان ہے اور ہمارے پاس ان سے کم قیمت ہے اور گزر بسر آسانی سے ہو رہا ہے تو ہمیں ہرگز ان کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ اپنے بجٹ کے مطابق خوشیوں کے مواقع تلاش کرنا ہی سب سے بڑی سعادت مندی ہے۔
دل و دماغ پر فضول خیالات کا بوجھ: زیادہ کھانے اور فضول سوچنے سے انسانی بدن پر گہرا اثر پڑتا ہے اور وہ جلد اپنی صحت گنوا بیٹھتا ہے۔ اس لیے ہر پل یہی کوشش کریں کہ دل و دماغ کو فضول سوچوں اور خواہشات کی تکمیل سے بچا کر مسلسل محنت و لگن سے اپنے مقصد کے حصول تک پہنچا جائے۔ ہمارے استاذ صاحب فرمایا کرتے تھے: "جو چیز بغیر کسی محنت و مشقت کے مل جائے اس کی نہ اہمیت ہوتی ہے نہ اسے استعمال کرنے میں وہ لُطف آتا ہے جو مشقت کے بعد حاصل شدہ چیز کو استعمال کرنے کا ہوتا ہے۔ حقیقی لطف بیٹھے بٹھائے مل جانے والی چیز سے کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔
بچپن سے ہی محنت مشقت کی عادت: یہ دور بڑا پُر خطر ہے، اگر اولاد کو ذرا سی ڈھیل دے دی جائے تو اس کے بگڑنے میں دیر نہیں لگتی۔ اس لیے بچوں کو شروع سے ہی گھر کے کام کاج کے ساتھ پرائمری پاس ہوتے ہی کسی کام دھندے پر لگا دینا چاہیے، تاکہ وہ مُستقبل کا بوجھ خود اُٹھا سکے۔ یاد رکھیں! لاڈ اور پیار نسلوں کو بگاڑ دیتا ہے، جو اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا وہ دوسروں کا کیسے کل اٹھائے گا؟ اس میں معاملہ میں ذرا بھی رحم دلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور بچوں کو بچپن سے ہی کوئی ایسا کام یا ہنر سیکھانا چاہیے تاکہ بڑے ہو کر وہ کسی پر بوجھ نہ ہوں۔ آج اکثر ہماری نسلوں کے بگاڑ کا سبب ان کو بچپن میں کسی کام روزگار کی تربیت نہ کرنا ہے۔ بعض دیہاتوں میں کھیتی باڑی اور مویشی پالنا بھی اچھا پیشہ ہے۔ اس میں جدت لا کر نئی نسلیں بڑے پیمانے پر کاروبار کر سکتی ہے۔
تعلیم کے ساتھ تربیت: تعلیم کے ساتھ تربیت کا وہی رشتہ ہے، جو جسم کے ساتھ سر کا، اس کے بغیر انسانی وجود ہمیشہ ادھورا رہتا ہے۔ آج ہمارے ملک میں پڑھے لکھے افراد کی کمی نہیں لیکن تربیت کی جگہ جگہ کمی نظر آتی ہے، ایک گھر اور اسکول کے باہر سے شروع ہونے والے گندگی آج ملک بھر میں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ صفائی ستھرائی کے حوالے سے بچوں کی باقاعدگی سے تربیت کریں اور ان کو درخت لگانے اور نہ اکھاڑنے کی بار بار تلقین کریں۔ اگر والدین اور اساتذہ آج سے یہ کام شروع کر دیں تو نہ صرف ہمارے راستے کُشادہ بلکہ ماحول بھی صاف سُتھرا ہو جائے گا۔ مہینے میں ایک بار اساتذہ اور والدین بچوں کو اپنے گھر اور سکول کی نالیاں صاف کروانے کی عملی تربیت کروائیں تو اس سے بھی معاشرے پر گہرا اثر مرتب ہو گا اور لوگ کسی کام کو حقیر نہیں سمجھیں گے۔
سوشل میڈیا کے مضر اثرات سے بچائو مہم: آج سوشل میڈیا ہماری نسلوں پر خطرناک حد تک اثر انداز ہو چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کھیل کُود کے میدان آباد کیے جائیں اور بچوں کو سوشل میڈیا اور مختلف گیمز کے شر سے حتیٰ الامکان بچایا جائے۔ بچے والدین کا عکس ہوتے ہیں اگر والدین اور اساتذہ ان کو شروع سے ہی ایسا بہترین ماحول فراہم کریں گے کہ جس میں وہ عملی طور پر ہر کام کو سر انجام دے سکیں تو وہ ضرور سوشل میڈیا کی وبا سے بچنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جواب دیں

Back to top button