یکجہتی کی جانب پہلا قدم

یکجہتی کی جانب پہلا قدم
محمد مبشر انوار
کروسیڈ وار کی نشاندہی صدی کے آغاز میں صدر بش کی جانب سے کی گئی تھی کہ خود ساختہ لبرل ریاستیں درون خانہ اس حقیقت کی بخوبی قائل ہیں کہ آخر کار کرہ ارض پر عقائد ہی کی بنیاد پر اقتدار واختیار کا حتمی فیصلہ ہونا ہے ۔ یہ ممکن نہیں کہ انسان اپنی فطرت سے اعراض برتے اور گرتے پڑتے اسے اس آفاقی نظام ہی کی طرف لوٹنا ہے،جس پر اس کرہ ارض بلکہ کائنات کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ الگ بات کہ مغربی اقوام کو ان کے مذہبی پیشوا،ذاتی مفادات کی غرض سے ،حقیقت سے دور رکھے ہوئے ہیں تاہم اس کے باوجود انفرادی طور پر ایسے افراد کی کمی نہیں جو حقیقت کے متلاشی ہیں اور حق کو تلاش کرکے،اس کی آغوش میں آ بستے ہیں۔ 9/11کے بعد اقوام مغرب نے جس طرح اسلام کی تصویر کشی کی،جس طرح مسلمانوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا،جس طرح جھوٹے سانحات گھڑ کراپنی اقوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی،مغربی قوم نے تجسس کی بنا ء پر اسلام پرتحقیق شروع کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی حکمرانوں کی توقعات کے برعکس اکثریت اسلام میں عافیت تلاش کرنے میں کامیاب ہوئی۔وہ مہم جوئی،جس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد و درندہ ثابت کرنا تھا،الٹی پڑ گئی اور آج اقوام مغرب میں اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والامذہب شمار ہوتا ہے۔بہرکیف مغرب کی طرف سے اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ طلوع اسلام سے ہی جاری ہے،کبھی اس میں نقب لگانے کی مذموم سازشیں دکھائی دیتی ہیں تو کہیں اس میں تفریق کی کاوشیں دکھائی دیتی ہیں تو کہیں قادیانیت جیسی مکروہ سازشوں کا دور دورہ ملتا ہے،ان سب گھناؤنی حرکات کا سرا بہرطور کہیں نہ کہیں مغرب سے ہی جا ملتا ہے ۔ اٹھارویں صدی میں ایسی سازشوں کا کھرابہرطور اس وقت کی عالمی طاقت برطانیہ تک جاتا ہے اوردین اسلام کی تعلیمات سے کھلواڑ کی باقاعدہ تربیت گاہوں کا انکشاف بھی ملتا ہے کہ کیسے برطانیہ اس وقت غیر مسلموں کو اسلام میں تحریف کرنے کی تربیت کرتا رہا ہے۔یہاں قارئین کے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرے گا کہ چند سطریں قبل ہی تو راقم الحروف سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والے دین کا ذکر کررہا ہوں اور اب یہ متضاد بات کیسے اور کیونکر کی جارہی ہے؟سوال حق بجانب ہے مگر اس میں فرق انتہائی باریک ہے کہ آج جو سب سے زیادہ اور تیزی سے پھیلنے والا دین ہے،اس میں عوام الناس کی اپنی رغبت و غیر جانبداری شامل ہے جبکہ ایسی تربیت گاہوں میں ایسے عالم تیار کئے جاتے تھے کہ جن کے اذہان میں پہلے ہی اسلام سے نفرت بھر دی جاتی تھی اور ان کے اذہان کو مخصوص جہت و طرز پر تیار کیا جاتا تھا،اس قسم کے اذہان ہمیں آج بھی اپنے اردگرد،اسلام کے نام لیوائوں کی صورت نظر آتے ہیں۔
کروسیڈ وار کی تیاریوں میں غیر مسلم نجانے کب سے خفیہ طور پر اپنی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں اور آج ان کی طاقت کس قدر بڑھ چکی ہے،اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بیشتر مسلم ممالک اپنے دفاع کے لئے ،اپنے ازلی دشمنوں کے محتاج ہیں۔ اور ازلی دشمن کی منصوبہ سازی دیکھئے کہ اس نے یک طرفہ یلغار نہیں کی بلکہ ہمہ جہتی یلغار سے مسلم ممالک کو اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے اس کے باوجود اسے مسلسل خوف دامن گیر ہے کہ یہ وہ قوم ہے جسے اس کے دشمنوں میںسوئے ہوئے شیر سے تشبیہ دی جاتی ہے کہ اسے سوتے میں تہ تیغ کر سکو تو ٹھیک ہے وگرنہ اگر یہ بیدار ہو ا تو پھر ان کی خیر نہیں۔یہی وجہ تھی کہ امریکہ کمیونزم سے نپٹنے کے بعد،اسلام /مسلمانوں کو اپنا دشمن قراردیتے ہوئے،ان پر وار کرنے کی ٹھانی تھی،الگ بات کے آج تو کمیونزم کے بانی دوبارہ سر اٹھا چکے ہیںاور اس وقت کئی ایک محاذوں پر سرمایہ دارانہ نظام کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ دوسری طرف مسلم ریاستیں ہیں کہ ان کے درمیان مسلسل نفرتوں کے بیج بوئے جاتے رہے ہیں،ان کے درمیان خلیج حائل کرنے کی بھرپور کوششیں کی گئی ہیں ،ایک دوسرے سے دور رکھا گیا ہے،ان کے درمیان کسی بھی قسم کا اتحاد قائم نہیں ہونے دیا گیابلکہ ان میں نفاق کے بیج ہی بوئے گئے ہیں۔ کروسیڈ جنگ میں اترنے کی منصوبہ بندی بہرحال اب کسی حد تک سامنے آچکی ہے اور اس کا اولین مظاہرہ،جیسا کہ توقع تھی،اسرائیل کی جانب سے کیا جا چکا ہے ،مغرب کی اکثریت اس وقت بظاہر غزہ کی حمایتی ہے لیکن درپردہ بغور دیکھیں تو ان کی ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ ہی ہیں کہ اگر وہ واقعتا اس ظلم و ناانصافی کے خلاف ہوتے تو غزہ میں جاری جارحیت و درندگی و نسل کشی رک چکی ہوتی لیکن ایسا ہوا نہیں اور تادم تحریر اسرائیل کی فوجیں ،غزہ پر زمینی یلغار کر چکی ہیں ۔ بے بس و مجبور فلسطینی اپنے بساط کے مطابق روبہ عمل تو ہیں لیکن مقابلہ ایسا ہے کہ اس کا انجام واضح ہے ،ایک طرف دنیا کے جدید ترین و مہلک ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی فوج ہے تو دوسری طرف جذبہ ایمانی سے لیس مجاہدین کہ جن کے لئے جدید ہتھیاروں کا حصول تقریبا ناممکن ہے،وسائل کے اعتبار سے بھی فلسطینی انتہائی محدود وسائل رکھتے ہیں جبکہ اسرائیل کے پاس کثیر وسائل موجود ہیں،جن میں کمی کی بجائے پشت پناہوں کی مدد سے مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔شنید تو یہ بھی ہے کہ اسرائیل کو فراہم کئے جانے والے ہتھیاروں کا راستہ بھی مسلم ریاستوں سے گذرتا ہے اور عالمی دباؤ کہیں یا ان ممالک کی مجبوریاں کہیں ،اسرائیلی کمک کو جانے والے ہتھیاروں کی ترسیل مسلم ممالک سے ہی ہوتی ہے جبکہ خبریں تو یہاں تک ہیں کہ چند ایک مسلم ممالک کے بحری جہاز تک ان ہتھیاروں کی ترسیل کے لئے استعمال ہوتے ہیں لیکن دنیا کو دکھانے کے لئے ،یہ مسلم ممالک بھی اسرائیل کی ’’ مذمت‘‘ ہی کرتے نظر آتے ہیںاور جنگ بندی کے لئے مطالبات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ غزہ کے حوالے سے دوغلا کردار فقط مغربی ممالک کا ہی نہیں بلکہ مسلم ممالک بھی اسی دوغلے کردار کا شکار ہیں اور بیک وقت قاتل کے ہاتھ بھی مضبوط کرنے میں لگے ہیں تو مقتولین کے ساتھ ہمدردیوں کے اظہار میں بھی پیچھے نہیں۔ مشرق وسطی کے مسلم ممالک کے اس روئیے کوبالعموم دیکھیں تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ ان ممالک کو اپنی سالمیت و بقاء کی فکر لاحق ہے اور وہ کسی بھی صورت اس جنگ میں براہ راست کودنے کے لئے تیار نہیں کہ انہیں خدشات ہی نہیں بلکہ شدید خطرات لاحق ہیں کہ ان کے اس جنگ میں براہ راست کودنے سے ،ان کی اپنی سالمیت و بقاء کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس کا مظاہرہ وہ اس سے قبل دو جنگوں میں کر چکے ہیں کہ ایک طرف مصر اور دوسری طرف شام جبکہ تیسری طرف لبنان ،اس جنگ میں کودنے سے اپنی جغرافیائی سرحدوں کی شکل تبدیل کروا چکے ہیں کہ جیسے ہی فلسطین کے علاوہ کوئی دوسرا مسلم ملک اس لڑائی میں اترتا ہے،اسرائیل کا مربی و محسن و آقا،امریکہ بجائے اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے،براہ راست اسرائیلی دفاع کے لئے میدان میں اتر آتا ہے۔
حالات کے جبر اور بقاء کی فکر ،اس وقت پورے عالم اسلام کو شدید تر ہے جبکہ پورے عالم اسلام میں اس وقت پاکستان وہ واحد ملک ہے،جس نے حالیہ دنوں میں اپنی عسکری دھاک بخوبی بٹھائی ہے اور اپنے ازلی دشمن اور اسرائیل کے فرسٹ کزن کو جو دھول چٹائی ہے،اس نے پاکستان کو نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں عزت و احترام سے نوازا ہے۔ گو کہ پاکستان کے معاشی حالات و دیگر امور میں پیش رفت بہت زیادہ قابل ستائش ہرگز نہیں لیکن عسکری قابلیت و اہلیت و جذبہ،اسے دیگر تمام مسلم ممالک سے ممتاز کر چکا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان عسکری حوالے سے ایک انتہائی معتبر نام بن چکا ہے۔ گو کہ اس وقت پورا عالم اسلام شدید ترین خطرات میں گھرا ہوا ہے اور ہر مسلم ریاست کو اپنی بقاء کی فکر ہے بالخصوص پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث پوری دنیا کی نظروں میں کھٹکتا ہے لیکن افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ مہارت،اہلیت و قابلیت کے باعث دنیا اس سے پنجہ آزمائی سے قبل بہت بار سوچنے پر مجبور ہو گی البتہ اس کی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے ،یا اس کی اہلیت کو جانچنے،پرکھنے کے لئے بھارت و اسرائیل کے توسط سے پراکسی جنگ کا امکان بہرحال موجود ہے۔ رہی بات مشرق وسطی کے دفاع کی،تو اس میں بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ پاکستان اور پاکستانیوں کی وابستگی ایک طے شدہ امر ہے اور اس سے بہرطور کسی کو کوئی انکار نہیں،ماضی میں بھی پاکستان نے ’’ حرمین شریفین‘‘ کی حفاظت محدود اور مخصوص حالات میں کی ہے اور آئندہ بھی ہر پاکستانی ان مقدس مقامات کی حفاظت کو اپنے لئے سعادت ہی سمجھے گا،اس پس منظر میں سعودی عرب کے ساتھ حالیہ ہونے والے تاریخی معاہدے کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاہدہ ،یہ سہولت،صرف ایک اسلامی مملکت کے لئے ہونی چاہئے؟یا اس معاہدے کو اس طرح محدود رکھ کر کیا ہم حدیث نبویؐ کے منکر نہیں ہو رہے؟تاہم میری نظر میں حالات کا جبر اور بقاء کی فکرہر ریاست کو ہوتی ہے اور یہی جبر و فکر،جلد یا بدیر ،اس معاہدے کی توسیع کا سبب بنے گااور اس حالیہ معاہدے کو ’’ مسلم یکجہتی کی جانب پہلا قدم‘‘ ہی تصورکیا جائے گا کہ موجودہ عالمی حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ بالآخر امت مسلمہ کو متحد ہو کر ہی کروسیڈ وار کے خلاف بروئے کار آنا ہو گا۔





