صرف خیر ۔۔ سراسر خیر
صرف خیر ۔۔ سراسر خیر
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
بھلائی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ ہر حالت میں خیر و بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے، خواہ نعمتیں دے، خواہ سلب کرے۔ چاہے تو کسی کو عزت دے یا ذلیل کر دے۔ ان سب میں مثبت پہلو صرف خیر کا ہے اور ان کا منفی پہلو شر ہے، جو اللہ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا۔ اللہ کی طرف صرف مثبت پہلو منسوب ہوتا ہے۔ مثلاً عزت دینا اللہ کی طرف سے ہے جو خیر ہے، نہ دینا عدم ہے اور یہ عدم اللہ کی طرف منسوب نہیں ہوتا، کیوں کہ عدم ، تخلیق نہیں ہے سو خالق کی طرف اس کی نسبت بنتی ہی نہیں ہے۔
سورہ آل عمران نے گواہی دی ہے کہ’’ اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
آخری جملہ کتنا بامعنی اور عمیق ہے
وہ قادر ہو کر بھی بہت کچھ نہیں کر سکتا۔ گویا یہ پابندی اس نے خود پر خود لاگو کی ہے۔ یعنی کسی فعل کو وہ انجام نہیں دیتا تو اس لیے نہیں کر وہ ایسا کرنے سے عاجز ہے یا کر نہیں سکتا، بلکہ اس لیے کہ وہ ایسا کرنا نہیں چاہتا ۔ یہ سب اس کے اختیار کے زیر اثر ہے سو اس کو با اختیار ثابت کرتا ہے اور یہی اس کو زیبا ہے۔ کسی کا سب کچھ کرنا کوئی کمال نہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص ایک بھی ایسا کام نہ کرے جو اخلاقی اور سماجی یا کسی بھی حوالے سے معیوب ہو۔
گویا اگر اللہ کچھ نہیں کرتا تو وہ مجبور نہیں ہے مختار ہے۔ جیسا کہ وہ کہتا ہے اس نے رحمت کو خود پر لازم کر لیا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ شر کیوں خلق ہوا ؟
یہ بات نہایت قابل توجہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کا ذاتی پہلو خیر ہی خیر ہے اور یہ پہلو اللہ تعالیٰ کا تخلیقی پہلو ہے اور شر اس کا معروضی پہلو ہے۔ مثلاً پانی کا ذاتی پہلو خیر ہی خیر ہے اور معروضی پہلو یہ ہے کہ کبھی اس میں انسان غرق ہو کر مر جاتا ہے تو یہ پہلو اللہ کا تخلیقی پہلو نہیں ہے۔ یعنی اللہ نے پانی کو حیات کے لیے بنایا ہے ، غرق کے لیے نہیں۔ اگر اس میں کوئی انسان غرق ہوتا ہے تو یہ اس کا ایک معروضی پہلو ہے، جو پانی کی غرض تخلیق سے مربوط نہیں ہے۔ اسی طرح سانپ، بچھو وغیرہ میں موجود زہر کا مثبت پہلو خیر ہے۔ چنانچہ اس پہلو سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے ۔ اگر کسی منفی پہلو سے ضرر پہنچتا ہے تو یہ اس کا معروضی پہلو ہے۔
ثانیاً ارتقا پذیر طبیعیات میں نقائص کا ہونا ایک ضروری امر ہے۔ ارتقا کے درجات میں سے ہر درجے میں ایک نقص اور ایک کمی لازمی چیز ہے۔ کیوں کہ اگر یہ نقص نہ ہوتا تو مادہ جامد اور ساکن ہوتا اور یہاں کوئی سبقت ، رونق اور تحرک نہ ہوتا۔ بلکہ ایک جامد، خاموش اور بے رونق بلکہ بے معنی نظام ہوتا۔
لہٰذا کائنات اور ہماری مثال اس راہرو اور اس عمارت کی سی ہے جسے منہدم کیا جا رہا ہو اور گزرنے والا دیکھ کر یہ اعتراض کرے کہ اس خوبصورت عمارت کو کیوں گرایا جا رہا ہے، جبکہ وہ اس کے ماضی کے بارے میں علم نہیں رکھتا کہ یہ عمارت بہت بوسیدہ ہو چکی ہے اور ایک دن یہ عمارت خود اس پر بھی گر سکتی ہے اور نہ ہی مستقبل پر اس کی نظر ہے۔ ممکن ہے اسے ایک علمی مرکز میں تبدیل کرنے کے لیے منہدم کیا جا رہا ہو۔
گویا شر اور آفت مادی اشیاء کی ناقص ذوات کا لازمہ ہیں۔ جسے ظاہر ہے ذات احدیت سے نسبت نہیں دی جا سکتی۔ آپ اپنے جسم کی مثال لیجئے۔ وہ تعمیر اور تخریب ایک ساتھ چلتی ہے۔ پرانے خلیے ٹوٹتے نئے جنم لیتے ہیں۔ گویا اس تخریب سے تعمیر جنم لیتی ہے۔ اور یہ عمل تمام عمر جاری و ساری رہتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ شر ( بُرائی) اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔ کیوں کہ یہ بات تو قرآن مجید سے ٹکراتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے ’’ اے اللہ! شر ( بُرائی) کی نسبت تیری طرف نہیں‘‘۔
یہ حدیث قرآن کریم کے مخالف نہیں ہے، قرآن کریم میں بھی شر کے حوالے سے یہ بیان موجود ہے۔
’’ اور یہ کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اس سے اہل زمین کے حق میں برائی مقصود ہے یا ان کے رب نے ان کے لئے بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے‘‘ ، اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔
وہ حکیم ذات ہے اور حکیم کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
تمام امور اللہ کے ارادے اور حکم سے ہی ہوتے ہیں اور ہر شے خواہ وہ خیر والی ہو یا شر والی اسی کی مخلوق ہے۔
اس حوالے سے اہل علم کے پانچ اقوال ملتے ہیں جو یہ ہیں۔
1۔ شر کے ذریعے تیرا ( اللہ کا) تقرب حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
2 ۔ انفرادی طور پر شر کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی جا سکتی۔ یعنی یہ نہیں کہا جائے گا کہ اے بندروں اور خنزیروں کے خالق! اے شر کے خالق! اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق اور رب ہے۔ یعنی عمومی کلمات میں تو شر کو داخل کیا جا سکتا ہے، علیحدہ سے بالخصوص شر کا ذکر کر کے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا جائز نہیں۔
3۔ اللہ کی طرف شر نہیں چڑھتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف کلمات طیبہ ہی چڑھتے ہیں۔
4۔ شر اللہ تعالیٰ کی نسبت سے شر نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے شر کو کسی حکمت کے تحت ہی پیدا کیا ہے شر تو مخلوق کی نسبت سے ہے۔
5۔ کسی شخص کو اس کی قوم میں شمار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ: فلاں شخص فلاں قوم میں سے ہے۔
اس نے جو بھی پیدا کیا وہ حکمت سے خالی نہیں۔ حکمت کے لحاظ سے وہ بھی خیر ہی ہے لیکن اس میں بعض لوگوں کے لیے شر ہو سکتا ہے۔ یہ جزوی نوعیت کا شر ہے جو بندے کی نسبت سے ہے جب کہ اللہ تعالیٰ مطلق طور پر شر یا کلی طور پر شر کی نسبت سے پاک ہے۔
باوجود اس کے کہ ہر شے کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام افعال اللہ کی ذات سے متصف ہونے کی حیثیت سے اور اللہ تعالیٰ سے صادر ہونے کی حیثیت سے صرف اور صرف خیر پر مشتمل ہیں۔ ان میں کسی طرح سے بھی شر کا پہلو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ عدل پر، ہر فعل حکمت و عدل پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے لیے اس کے شایانِ شان معاملہ فرماتا ہے۔ اور اگر کسی شے میں شر موجود ہے تو وہ بندے کی نسبت سے ہے۔ اس کے اعمال کا نتیجہ ہے۔
’’ اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے تو وہ تمہارے اپنے ہی کاموں کی وجہ سے آتی ہے اور وہ ( اللہ) بہت سے گناہ تو معاف کر دیتا ہے‘‘۔
اللہ تو لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ جب بہت بارش نازل فرماتا ہے، جس سے کسی انسان کی فصل تباہ ہو جاتی ہے لیکن دوسری طرف زمین کو اور دیگر لوگوں کو بھی تو فائدہ پہنچتا ہے۔ تو جنہیں فائدہ پہنچا ہے یہ بارش ان کے لیے خیر والی ثابت ہوئی اور جنہیں نقصان ہوا ان کے لیے اس میں شر کا پہلو نظر آیا۔ ایک جہت سے اس میں شر ہے تو ایک جہت سے خیر ہے۔ اسی طرح شر جسے اللہ نے انسان کے لیے مقدر کیا ہے وہ حقیقت میں خیر ہی ہے۔
گویا شر کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے براہِ راست منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شر ایک ایسا تصور ہے جو انسانوں کی بداعمالیوں، نافرمانیوں اور خواہشاتِ نفس کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تو پاک اور منزہ ہے، اور وہ کسی بھی طرح سے شر کا مصدر نہیں ہے۔
قرآن مجید نے یہ بات بھی اچھی طرح واضح کر دی ہے کہ خدا خالق شر نہیں، نہ براہ راست اور نہ بالواسطہ، بلکہ یہ بات تو اس کی شان ہی کے خلاف ہے کہ وہ خالق شر ہو۔
قرآن مجید نے خدا کا تعارف ہی یہ کرایا ہے کہ وہ صرف اچھی صفات کا حامل ہے، اس میں کوئی بری صفت نہیں پائی جاتی اور وہ لوگوں کو بھی اس بات کا حکم دیتا ہے کہ وہ خیر ہی کے داعی بنیں۔
سورہ اعراف میں فرمایا’’ اللہ کے لیے تو صرف اچھی ہی صفتیں ہیں تو انہی سے اس کو پکارو‘‘۔
پس واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی سب صفات اچھی ہیں۔ اس سے صرف اچھائی اور خیر ہی کا صدور ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کے ساتھ کسی شر کو منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس سے بہت بلند و برتر ہے کہ وہ انسانوں میں، براہ راست یا بالواسطہ، شر تخلیق کرے۔ اس کے اپنے سب کام بھی خیر کے کام ہیں اور وہ انسانوں کو بھی خیر ہی کے کام کرنے کا حکم دیتا ہے۔ خدا کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے انسان میں شر یا مادہ شر تخلیق کیا ہے۔ یہ دونوں باتیں اس اعلیٰ صفتوں والے پروردگار کے شایان شان ہی نہیں۔
لیکن اس بات کو مان لینے کے بعد بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ اگر خدا خالق شر نہیں ہے اور اس نے انسان میں شر کا مادہ بھی پیدا نہیں کیا تو پھر اس دنیا میں شر کیسے وجود میں آتا ہے؟
قرآن مجید نے اس عقدے کو بھی وا کیا ہے۔ اس دنیا میں شر کے وجود میں آنے کے اسباب کیا ہیں ۔
’’ اور یاد کرو، جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ ( ایک صاحب اقتدار مخلوق) بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: تو زمین میں ایسی مخلوق بنائے گا جو اس میں ( ارادہ و اختیار کی آزادی رکھنے کی وجہ سے) فساد مچائے اور خوں ریزی کرے اور ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہی ہیں۔ اس نے کہا: میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ اور اختیار کی آزادی دی اور اس آزادی کے ساتھ، اللہ تعالیٰ نے اسے جذبات و خواہشات کی ایک دنیا بھی عطا کی، لوگوں کی نگاہوں میں مرغوبات دنیا عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر، نشان زدہ گھوڑے، چوپائے اور کھیتی کھبا دی گئیں۔ یہ دنیوی زندگی کے سرو سامان ہیں۔
نیز فرمایا: ’’ بڑی ہی عظیم اور بافیض ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں اس کائنات کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، جس نے پیدا کیا ہے موت اور زندگی کو تاکہ تمہارا امتحان کرے کہ تم میں سے کون سب سے اچھے عمل والا بنتا ہے، اور وہ غالب بھی ہے اور مغفرت فرمانے والا بھی‘‘ ۔
ارشاد باری ہے: ’’ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار سے نوازا، متاع قلیل کی اس دنیا میں خیر و شر کی آزمائش میں ڈالا اور پھر اس میں کامیاب ٹھہرنے والوں کے لیے اچھا انجام اور ناکام ہونے والوں کے لیے برا انجام مقدر کیا، ہم نے اس کو ( نیکی اور بدی کی) راہ سجھا دی ہے، وہ چاہے شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔ ہم نے کفر کرنے والوں کے لیے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ ہاں، وفادار بندے ایسی شراب کے جام نوش کریں گے، جس میں چشمہ کافور کی آمیزش ہو گی‘‘۔
اس سے اللہ تعالیٰ کی وہ سکیم سامنے آ جاتی ہے، جس کی بنا پر وہ خیر و شر کی اس آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔ اس آزمائش کے لیے بنیادی چیز جو انسان کو دی گئی ہے وہ ارادہ و اختیار کی آزادی ہے۔ اس آزادی کے بعد انسان پوری طرح با اختیار ہے کہ وہ اپنی عقل کی روشنی میں چلے یا اس سے رو گردانی کرے ۔ ہزاروں پردوں میں چھپے ہوئے حق کو اپنی بصیرت سے پہچان لے یا آنکھوں کے سامنے موجود حق کا پوری ڈھٹائی سے انکار کر دے۔
بہرحال، انسان نے اس دنیا میں اس آزادی کو استعمال کیا اور خوب کیا۔ کبھی فطرت کے مطابق اور کبھی اس کے خلاف، کبھی عقل و دانش کی راہ میں اور کبھی اس سے ہٹ کر، کبھی پروردگار عالم کی اطاعت میں اور کبھی اس کی نافرمانی میں۔ پس جب جب انسان نے عقل و فطرت کے مطابق اپنے اختیار کو استعمال کیا، خیر وجود میں آیا اور جب جب وہ اس راہ سے ہٹا اور اپنے اختیار کو عقل و فطرت کے خلاف استعمال کیا، شر وجود میں آیا۔
آخر میں ایک قابل غور نکتے پر غور کی دعوت دیتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی کا نظریہ پیش کرتے ہیں
’’ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز جوڑے جوڑے پیدا کی ہے۔ ہر چیز اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر ہی اپنی غایت اور اپنے مقصد کو پورا کرتی ہے‘‘۔





