Column

دفاعی معاہدہ کسی تیسرے ملک کیخلاف نہیں

اداریہ۔۔۔۔۔
دفاعی معاہدہ کسی تیسرے ملک کیخلاف نہیں
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والا حالیہ اسٹرٹیجک دفاعی معاہدہ نہ صرف دونوں برادر اسلامی ممالک کے تعلقات میں تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ یہ پورے خطے کے لیے امن، سلامتی اور استحکام کا نیا پیغام بھی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان، وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور وفاقی وزیر احسن اقبال کے حالیہ بیانات سے یہ بات واضح ہوچکی کہ یہ معاہدہ کئی ماہ کی محنت، حکمت عملی اور گہرے اعتماد کا نتیجہ ہے، جس کا مقصد صرف عسکری سطح پر تعاون نہیں بلکہ معاشی و سفارتی محاذ پر بھی مشترکہ ترقی کی راہیں ہموار کرنا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے بجاطور پر اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا معاہدہ ’’ کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں‘‘ بلکہ خالصتاً دفاعی نوعیت کا ہے۔ اس کا مقصد دونوں ممالک کی سالمیت کا تحفظ اور مشترکہ سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ معاہدے کی ایک اہم شق کے مطابق اگر کسی ایک ملک پر جارحیت کی جاتی ہے تو اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا، جو نیٹو طرز کے اجتماعی دفاعی اصول کی جھلک دیتا ہے۔ یہ معاہدہ اس دیرینہ دفاعی تعاون کو باضابطہ شکل دیتا ہی جو 1960ء کی دہائی سے دونوں ممالک کے درمیان موجود ہے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کا ہر نازک وقت میں ساتھ دیا ہے، چاہے وہ معاشی بحران ہو یا عالمی دبائو۔ اسی طرح پاکستان نے بھی ہر موقع پر سعودی سالمیت کو اولیت دی ہے۔ اسلامی اخوت کا عملی مظہر یہ معاہدہ محض سفارتی یا دفاعی نوعیت کا ہی نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے اندرونی اتحاد، بھائی چارے اور یکجہتی کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستانی عوام کو سرزمینِ حرمین شریفین سے جو عقیدت ہے، وہ دنیا بھر میں منفرد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اس معاہدے کو ’’ ایک حقیقی گیم چینجر‘‘ قرار دیا اور بجاطور پر کہا کہ ’’ ہر پاکستانی حرمین شریفین پر قربان ہونے کو تیار ہے‘‘۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب امت مسلمہ کو بیرونی دبائو، اندرونی انتشار اور فلسطین و کشمیر جیسے سنگین انسانی المیوں کا سامنا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کا یہ قدم امت کو یہ پیغام دیتا ہے کہ مسلم دنیا کے بڑے ممالک اب صرف بیانات پر نہیں بلکہ عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کا یہ کہنا کہ یہ معاہدہ بھارت کے لیے ایک ’’ واضح پیغام‘‘ ہے، قابلِ غور ہے۔ اگرچہ معاہدہ کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں، لیکن یہ ضرور باور کراتا ہے کہ پاکستان اب تنہا نہیں۔ اگر اس پر جارحیت کی گئی تو عرب دنیا بھی اس کا جواب سمجھے گی۔ یہ نکتہ خطے میں امن و استحکام کے لیے نہایت اہم ہے، کیونکہ طاقت کا توازن صرف عسکری صلاحیتوں سے نہیں بلکہ سفارتی اور تزویراتی اتحادوں سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس دفاعی معاہدے کے دوررس اثرات صرف فوجی شعبے تک محدود نہیں، اس سے سرمایہ کاری، تجارتی تعاون، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور انسانی وسائل کی تربیت جیسے شعبوں میں بھی نئے امکانات کھلیں گے۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس جانب اشارہ کیا کہ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی اور اب یہ معاہدہ اس دیرینہ تعلق کو مزید تقویت دے گا۔ پاکستان کو اس وقت معاشی بحالی، زرِمبادلہ کے ذخائر میں بہتری اور سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ سعودی سرمایہ کاری اور اعتماد سے نہ صرف ان اہداف کی طرف پیش رفت ممکن ہوگی، بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا تاثر بہتر ہوگا۔ دوسری جانب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والا ہنگامی اسلامی سربراہی اجلاس، جس میں اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی گئی، اسلامی دنیا کی بیداری کا مظہر ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ پاکستان نے اس اجلاس میں بھرپور شرکت کی اور اسرائیل کے خلاف آواز بلند کی۔ پاکستانی وزیر خارجہ کی طرف سے قطر کے ثالثی کردار کو سراہنا اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان مسئلہ فلسطین کے حل میں سفارتی ذرائع کو اہمیت دیتا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں اسرائیلی حملوں کو غیر قانونی قرار دینا، عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرانے کا مطالبہ اور فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی، سب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مسلم دنیا اب صرف احتجاج سے آگے بڑھ رہی ہے۔ احسن اقبال کی گفتگو میں سی پیک کے دوسرے مرحلے اور چین کے ساتھ تعلقات کا ذکر بھی خوش آئند ہے۔ توانائی، انفرا اسٹرکچر اور صنعتی ترقی کے منصوبے، دیامر بھاشا ڈیم اور قراقرم ہائی وے کی تعمیر جیسے اقدامات پاکستان کو ترقی کے نئے دور میں داخل کرسکتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا اسٹرٹیجک دفاعی معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا، بلکہ پورے خطے میں امن، استحکام اور ترقی کے لیے ایک نیا باب کھولے گا۔ یہ معاہدہ دفاع، معیشت، سفارت کاری اور اسلامی اتحاد کے وہ تمام پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جو آج کے دور میں ہر قوم کے لیے ناگزیر ہوچکے ہیں۔
شذرہ۔۔۔۔۔
پاکستان کے امن کیخلاف بھارت کا مذموم کردار
پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے جرمن جریدے کو دئیے گئے خصوصی انٹرویو میں افغانستان، بھارت، دہشت گردی، افغان مہاجرین اور علاقائی سیکیورٹی سے متعلق کئی اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے، جو نہ صرف پاکستان کی سکیورٹی پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک پیغام ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے واضح کیا کہ پاکستان میں موجود غیر قانونی افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد دہشت گردی اور سنگین جرائم میں ملوث پائی گئی ہے۔ یہ انکشاف نہایت تشویش ناک ہے اور پاکستان کی داخلی سیکیورٹی کے لیے بڑا خطرہ بھی۔ پاکستان نے 40سال تک لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی، ان کے دکھ درد میں شریک رہا اور انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ تاہم اب جب کہ افغانستان میں جنگی حالات ختم ہوچکے ہیں، افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی ایک ناگزیر قدم بن چکا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مہاجرین کے انخلا کے لیے پاکستان نے بارہا ڈیڈ لائنز میں نرمی برتی اور کسی بھی سخت اقدام سے گریز کیا، لیکن ان مہاجرین میں چھپے دہشت گرد عناصر ملکی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ ان عناصر کے خاتمے کے لیے سخت اور مربوط اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان کہ بھارت پاکستان میں ریاستی سطح پر دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے، نہایت اہم اور قابل توجہ ہے۔ انہوں نے ثبوتوں کے ساتھ اس امر کی نشان دہی کی کہ بھارتی فوج کے حاضر سروس افسران پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ انکشافات نہ صرف پاکستان کی سالمیت کے خلاف کھلی جارحیت ہیں بلکہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی بھی۔ پاکستان نے یہ شواہد اقوام عالم کے سامنے متعدد بار پیش کیے ہیں، مگر بدقسمتی سے عالمی برادری کی جانب سے تاحال کوئی موثر اقدام نہیں کیا گیا۔ اس موقع پر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان کی ریاست کسی بھی غیر ریاستی عنصر کو مسترد کرتی ہے اور ریاست کے علاوہ کوئی بھی گروہ یا فرد جہاد کا اعلان کرنے کا مجاز نہیں۔ یہ موقف نہایت اصولی اور پختہ ہے، جو پاکستان کی داخلی پالیسی کو شدت پسندی سے پاک کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو قربانیاں دی ہیں، وہ دنیا بھر کے لیے ایک مثال ہیں۔ ہزاروں جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان نے عالمی امن کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد وہاں چھوڑے گئے ہتھیار اب دہشت گردوں کے ہاتھ لگ چکے ہیں اور یہی ہتھیار پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہورہے ہیں۔ امریکا خود اس پر تشویش ظاہر کر چکا، لیکن اس مسئلے کا حل صرف اظہارِ تشویش سے نہیں نکلے گا، بلکہ مشترکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا بھارت میں انتہاپسندی اور پرتشدد واقعات سے متعلق تجزیہ بھی نہایت بروقت اور درست ہے۔ بھارتی ریاستی ادارے، بشمول آرمی، شدت پسند سیاسی نظریات کے زیر اثر آ چکے ہیں۔ یہی نظریات نہ صرف بھارت کے اندر اقلیتوں کے لیے خطرہ ہیں بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے بھی۔ آخر میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ کردار ادا کرے۔ مسئلہ کشمیر برصغیر کے پائیدار امن کی کنجی ہے اور اس کے بغیر خطے میں دیرپا استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کا موقف واضح، مدلل اور اصولی ہے۔ اب وقت ہے کہ عالمی برادری ان حقائق کو سنجیدگی سے لے اور جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے بھارت پر دبائو ڈالے تاکہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور ریاستی جارحیت کا سدباب کیا جا سکے۔

جواب دیں

Back to top button