ادب پہلا کرینہ ہے۔۔۔

ادب پہلا کرینہ ہے۔۔۔
تحریر : رفیع صحرائی
’’ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جائوں سو میں نے مخلوق کو پیدا کیا ‘‘
گویا یہ زندگی فقط اس لیے ہے کہ معرفت خداوند متعال حاصل کی جا سکے۔
’’ اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے اور وہ بڑا غالب آنے والا، بخشنے والا ہے ‘‘
اس قرآنی آیت سے با آسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ معرفت اس لیے ہے کہ شعوری طور پر اس کی اطاعت کی جائے جس نے مخلوق کو خلق کیا ہے ۔ بنا معرفت کے عبادت اس تیر کی ماند ہے جو اندھا اندھیرے میں چلا دے ۔ پھر اسے پتہ ہی نہ چل سکے کہ وہ نشانے پر لگا بھی ہے یا نہیں ۔ شیطان کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ جنوں میں سے تھا اور کثرت عبادت سے فرشتوں کا سردار بن گیا، لیکن وہ معرفت کے ایک چھوٹے سے امتحان میں ناکام ہو کر راندہ درگاہ ہو گیا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ عابد تو تھا عارف نہیں تھا۔ اس نے عبادت کو ظاہری صورت سمجھ لیا تھا ۔ حالاں کہ عبادت تو اس کی رضا کے آگے سرنگوں ہونے کا نام ہے۔ گویا عبادت کی تکمیل تب ہوتی ہے جب کامل سپردگی ہو۔
مولانا ظفر علی خان نے اپنی ایک مشہور زمانہ نعت میں کہا ہے
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو
سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا
سب غایتوں کی ایت اولی تمہی تو ہو
ہمارا عقیدہ ہے کہ خالق اکبر نے یہ دنیا اس ایک کی محبت میں بنائی جس کو اپنا حبیب بنایا ، جس کی اطاعت کو اپنی رضا قرار دیا اور جس کے دین کو اپنا دین کہہ کر اس کی تکمیل کر دی ۔
جب سورہ حجرات نازل ہوئی، اس وقت مدینہ میں اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے ابتدائی مراحل طے ہو رہے تھے۔ ایک غیر مہذب قوم کو آداب معاشرت کی تعلیم دی جا رہی تھی۔ اس میں سب سے پہلے مقام اور درس احترام رسالت مآبؐ کا تھا۔ اولین سبق یہ تھا کہ آپ کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنا حد ادب ہے، گستاخی ہے کہ آواز بلند کرنے سے تمام اعمال حبط ہو جاتے ہیں۔
واضح رہے گناہ سے اعمال حبط نہیں ہوتے، ایمان مخدوش ہونے سے اعمال حبط ہوتے ہیں۔ لہٰذا رسولؐ کی محفل میں رفع صوت اور جہر قول دونوں کا تعلق اس شخص کے ایمان کی نوعیت سے ہے۔
دوسرا سبق یہ تھا کہ آپؐ سے آگے نہ بڑھا جائے۔
ادب کا تیسرا انداز یہ ہے کہ آنجنابؐ کو عام لوگوں کی طرح نہ پکارا جائے۔
’’ جو لوگ آپؐ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں بلاشبہ ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے ‘‘
یہ صرف آداب کا حصہ ہی نہیں بلکہ ایک طرز عمل ہے، جس کا سرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان کی نوعیت سے ملتا ہے۔
احترام آدمیت کے لیے خاص طور پر زور دیا گیا کہ کسی کا وقار مجروح نہ کیا جائے۔ خواہ وہ کردار کشی غیبت کی صورت میں ہو یا تہمت کی صورت میں ۔
’’ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولؐ سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے‘‘۔
یقیناً اقتدار صرف اللہ کا ہے۔ لہٰذا اس کی بندگی اسی میں ہے: حکم اللہ اور رسولؐ کا ہو اور بندہ اس کی اتباع کرے۔رسول اکرمؐ اس کی طرف سے قانون لانے والے ہیں، لہٰذا رسولؐ کے حکم سے آگے بڑھنے کا مطلب مداخلت فی الدین ہے۔ اللہ اور رسولؐ سے آگے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ حکم خدا اور رسولؐ کو پیچھے کیا جائے اور اپنا فیصلہ آگے کیا جائے۔اس لیے جب تک کوئی حکم ، قرآن و حدیث سے ثابت نہ ہو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف نسبت دینا جائز نہیں ہے، نہ ہی اپنی طرف سے حکم بنانا جائز ہے ۔
’’ اور جو لوگ اللہ کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘، ’’ جو لوگ اللہ کے رسولؐ کے سامنے دھیمی آواز میں بات کرتے ہیں بلاشبہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لیے آزما لیے ہیں ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے ‘‘
روایات میں آیا ہے کہ یہ حرکت بنی غنیم کے لوگوں سے سرزد ہوئی۔ ان کے ستر افراد پر مشتمل وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے کے لیے آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ لوگوں کی دسترس میں ہوتے تھے، سوائے تھوڑے اوقات کے جنہیں آپؐ اپنی نجی زندگی یا آرام کے لیے مختص رکھتے تھے۔ یہ لوگ اسی وقت پہنچ جاتے ہیں اور حجرات کے باہر سے آواز دیتے ہیں:’’ اے محمد! اے محمد! باہر نکلیں ۔
روایات کے مطابق اس قسم کے متعدد واقعات ہوئے، جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حلم و برد باری کے تحت متحمل فرماتے تھے، لیکن اس بار اللہ تعالیٰ نے اس ناشائشتہ حرکت کی سرزنش کرتے ہوئے آداب سکھائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح پکارا نہ کریں بلکہ صبر کریں تاکہ خود ملاقات کے لیے باہر تشریف لائیں۔
تہذیب و آداب کا تعلق عقل سے ہے۔
’’ اور تمہیں علم ہونا چاہیے کہ اللہ کے رسولؐ تمہارے درمیان موجود ہیں، اگر بہت سے معاملات میں وہ تمہاری بات مان لیں تو تم خود مشکل میں پڑ جائو گے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنا دیا اور اسے تمہارے دلوں میں مزین فرمایا اور کفر اور فسق اور نافرمانی کو تمہارے نزدیک ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ راہ راست پر ہیں ‘‘
اب یہ ضروری تھا کہ مومنین کا تعارف کرایا جائے ۔
’’ مومن تو بس وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائیں پھر شک نہ کریں اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کریں، یہی لوگ ( دعوائے ایمان میں) سچے ہیں ‘‘
ایمان کی پختگی کی دوسری علامت جہاد ہے۔ مال خرچ کرنے سے نہ کترائے اور جہاد بالنفس میں جانی خطرے کو اعتنا میں نہ لائے تو مومن ہے۔ اگر مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لے اور میدان جہاد سے جان بچانے کی کوشش میں فرار ہو جائے تو مومن کی سچی تعریف اس پر صادق نہیں آئے گی۔
آپؐ اگرچہ تین بیٹوں کے باپ تھے لیکن اس بات کی نفی کی گئی کہ آپؐ کسی مرد کے باپ ہیں۔
زید بن حارثہ کے بارے میں غلط فہمی دور کرتی ہے جنہیں لوگ رسولؐ اللہ کے بیٹے سمجھتے تھے، اس آیت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے انہیں کسی باپ کا نہ کہا جائے۔ شاید اس سے رسالت والے منصب میں کمی آنے کا اندیشہ تھا کہ باپ کا رشتہ ادب سے زیادہ بے تکلفی کا ہوتا ہے۔ پھر زیر حقیقی بیٹے بھی نہ تھے، سو متنبہ کرنے ضروری ٹھہرا۔
’’ دیکھو ! محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں اور سب نبیوںٌ پر مہر ہیں۔ اور یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے‘‘
معرفت یقینا عبادت کا ابتدائیہ ہے۔ اس لحاظ سے ادب بھی تو محبت کا افتتاحیہ ہے، مقدمہ ہے۔ سورہ حجرات میں اگرچہ مومنین کو رسالت مآبؐ کے احترام کا درس دیا گیا ہے۔ اس سورہ کا اول مصداق جناب ختمی مرتبتؐ ہی ہیں لیکن اس سے ہمیں ایک اور اشارہ بھی ملتا ہے کہ ہمیں اپنے والدین، اساتذہ اور بزرگوں کے ساتھ اس طرح سے پیش آنا چاہیے کہ ان کا ادب برقرار رہے ۔ ان کے احترام میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں رسالت مآبؐ کا احترام کرتے رہنے کی سعادت نصیب فرمائے۔
خموش اے دل!، بھری محفل میں چلانا نہیں اچھّا
ادب پہلا قرینہ ہے محبّت کے قرینوں میں
اور میر تقی میر
عشق بن یہ ادب نہیں آتا





