Column

سندھ میں کاروکاری کے بڑھتے واقعات، قانون کہاں ہے؟

سندھ میں کاروکاری کے بڑھتے واقعات، قانون کہاں ہے؟
تحریر : محمد ناصر شریف

سندھ بھر میں سال 2025میں کاروکاری کے 124کیسز میں 142افراد کو قتل کیا گیا ہے۔ مقتولین میں 105خواتین اور 37مرد شامل ہیں۔ ملزمان میں سے 74ملزمان مقتولین کے شوہر، والد، والدہ، بھائی، بیٹے ، بیٹی اور بہنیں ہیں ، 46دیگر رشتے دار اور 7پڑوسی، دوست اور دیگر ملزمان شامل ہیں۔ کاروکاری کے واقعات میں مختلف اقسام کے ہتھیار استعمال کئے گئے جن میں 6کلاشنکوف و اسٹین گن ، 16شاٹ گن، 2رائفل ، 50ریوالور /پستول ، 6چھریاں /خنجر جبکہ 30دیگر اقسام کے ہتھیار شامل ہیں۔ کاروکاری قرار دیکر سب سے زیادہ افراد کو لاڑکانہ رینج میں قتل کیا گیا جو سندھ کی حکمران جماعت کا گڑھ بھی مانا جاتا ہے جبکہ سال 2024کی اسی مدت میں سندھ بھر میں کاروکاری کے 86کیسز میں 79خواتین سمیت 99افراد کو قتل کیا گیا تھا۔ رواں سال 43افراد زیادہ مارے گئی ہیں یعنی اس طرح کے قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
کاروکاری کا مطلب بد چلنی یا بدکاری کے شبے میں مرد اور عورت دونوں کو قتل کرنا ہے، جسے غیرت کے نام پر قتل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سندھ اور بلوچستان میں رائج ایک رسم ہے، جس میں خاندان کی مشتبہ طور پر گمراہ عورت اور اس کے شریک جرم (مرد) کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ پنجاب میں اسے کالا کالی، خیبر پختونخوا میں طور طورہ اور بلوچستان میں سیاہ کاری کہتے ہیں۔ سندھی زبان میں کاروکاری کالے اور کالی کو کہتے ہیں، یعنی سیاہ کار۔
یہ غیرت اور عزت کے نام پر قتل ہوتا ہے۔ کاروکاری پاکستان اور خاص طور پر سندھ میں عورتوں کے قتل کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کی وجہ سے ہر سال عورتوں کے قتل میں اضافہ ہورہا ہے۔ رواں سال 105خواتین قتل کی گئیں جبکہ گزشتہ سال 79خواتین کو قتل کیاگیا تھا۔
کاروکاری کی رسم ہزاروں سال پُرانی ہے۔ اس میں عزت کے نام پر اپنی ماں، بیٹی، بیوی اور بہن کو قتل کرنا اعزاز اور قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔ قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرت میں عورت کی حیثیت بھیڑ، بکری، گائے اور بھینس سے زیادہ نہیں ہوتی اور عورتوں کو مال و اسباب ہی سمجھا جاتا ہے، آپ کہیں گے کہ دنیا نے ترقی کرلی ہے، اب تو عقل و شعور کی دولت سے انسان مالا مال ہے تو یہ آپ کی خوش فہمی ہے، حالات اب بھی نہیں بدلے اور خاص طور پر پاک سرزمین پر۔ کاروکاری کے نام پر ذاتی دشمنی اور انتقام کیلئے قتل عام سی بات ہے۔
ایسے بھی واقعات رونما ہوئے ہیں جس میں مرد دشمن کو سزا دینے کیلئے اپنی ماں، بیٹی، بیوی، بھابھی، بھتیجی، بھانجی اور بہن کو کاری یعنی سیاہ کار کہتے ہوئے قتل کرکے پھر اپنے دشمن کو اس سے منسوب کرتے ہوئے اسے سیاہ کار قرار دیتے ہوئے قتل کیا جاتا ہے۔ کاروکاری کے نام پر قتل قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔ ایسے قبیح جرم کے مرتکب افراد سزا سے بھی بچ جاتے ہیں۔ سندھ کے مختلف گائوں کے مضافات میں ایسے قبرستان موجود ہیں، جہاں کاری قرار دی جانے والے عورتوں کو کفن اور نماز جنازہ پڑھائے بغیر خاموشی سے دفن کر دیا جاتا ہے۔کاروکاری کے تنازعات قبائلی جرگوں میں طے کئے جاتے ہیں۔ یہ جرگے صرف بااثر مردوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان میں کوئی خاتون شریک نہیں ہوسکتی۔ اس طرح وہ اپنی صفائی پیش کرنے سے محروم رہتی اور پنچایت کے مرد ارکان کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ ان جرگوں کی ضرورت بھی اس وقت ہوتی ہے جب دو مخالف قبیلے کے لوگ اس کا شکار ہوں بصورت دیگر قبیلے کے سردار ہی فیصلہ کرتے ہیں جو دونوں فریقوں سے رقم لینے کے بعد جرگہ منعقد کرتے تھے۔
عورتوں کو ان جرگوں کی کارروائی دیکھنے کی بھی ممانعت ہوتی ہے، یوں ہمیشہ مردوں کی بالادستی قائم رہتی تھی۔ زمانہ قدیم کے معاشروں میں تو یہ غیرقانونی معاملات چلتے تھے تاہم جدید معاشروں میں جہاں تحریری آئین موجود ہو، قانون کے ذریعے عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہوں، وہاں عزت کے نام پر قتل سماج کی ساخت و حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ چند سال قبل جب بلوچستان کے علاقے نصیر آباد کے ایک گائوں سے تین لڑکیوں کے قتل اور انہیں زندہ دفن کرنے کے واقعات ذرائع ابلاغ پر بحث کا موضوع بنے تو وزیراعلٰی بلوچستان ثنا زہری نے کاروکاری کی رسم کو درست قرار دیا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کاروکاری کا زہر سماج میں کتنا گہرا اتر چکا ہے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے ستی کی رسم پر پابندی لگادی تھی۔ ممتاز ہندو رہنما راجہ رام موہن رائے نے ہندوؤں میں ستی کی رسم کیخلاف مہم چلائی تھی۔ پھر سندھ کے انگریز کمشنر چارلس نیپئر نے کاروکاری کی رسم کو غیرقانونی اور غیر انسانی قرار دیا تھا۔ انہوں نے اپنے حکم نامے میں لکھا تھا کہ سندھ میں عورتوں کو جس بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے اس کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی۔ چارلس نیپیئر کا کہنا تھا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھیڑ بکریوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انگریز حکمران کے اس فیصلے کے بعد انڈین پینل کوڈ میں عزت کے نام پر قتل کو سزا کا مستحق قرار دیا کیا گیا تھا۔
ہمارے یہاں اکثر ونی اور سوارہ جیسے لفظ سننے میں آتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ونی اور پختون قبائل میں سوارا کے نام پر جاری یہ قدیم اور افسوس ناک رسم ہے جس میں کسی جرم یا گناہ حتیٰ کہ الزام کی صورت میں جان بخشی کیلئے عورتیں نکاح میں دے دینا ونی یا سوارہ کہلاتا ہے۔ خون بہا کے طور پر سرحد میں عورت دینا سوارہ اور جنوبی پنجاب میں قتل معاف کرانے کی صورت میں عورت دینا ونی کہلاتا ہے۔ قبیلوں میں رواج رہا ہے کہ قبائلی جھگڑے چکانے یا اتحاد قائم کرنے کیلئے مویشی، زمین اور عورت استعمال کی جاتی ہے۔ ونی کا فیصلہ جس میں کسی تنازعے کے تصفیے میں آدھی یا مطلوبہ زمین یا کھیت یا پھر برادری کی کوئی لڑکی دے دی جاتی ہے۔
اس حوالے سے قوانین صرف قانون کی کتابوں کی زینت بننے کے باوجود پاکستان میں کئی فرسودہ رسومات آج بھی زندہ ہیں۔ ان کی وجہ سے لاتعداد خاندان متاثر ہوتے اور ان گنت معصوم انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ چاہے وہ کاروکاری ہو، سوارہ یا ونی ہو، اور قوانین کے ہوتے ہوئے بھی فرسودہ رسومات کو ختم نہیں کیاجاسکا۔
سندھ میں کارو کاری کے واقعات کی روک تھام کیلئے پولیس نے انسدادِ کارو کاری سیل بنائے ہیں لیکن وہ بھی کبھی اپنی افادیت ثابت نہیں کر سکے۔
دین مبین بتاتا ہے کہ مرد و عورت میں جو فطری جذبات خدا تعالیٰ نے رکھے ہیں۔ آپؐ نے ان کے جائز استعمال کا طریقہ سکھایا اور فرمایا کہ جب تمہارے گھر کوئی مناسب رشتہ آئے تو اسے قبول کرلیا کرو ورنہ زمین میں فساد برپا ہوگا چنانچہ اس حوالے سے ایک حدیث مبارک ہے، جس کا مفہوم ہے’’ جس شخص کی دین اور اخلاق سے تم راضی ہو جب وہ تمہاری طرف پیغامِ نکاح بھیجے تو پس تم اس سے نکاح کردو ورنہ زمین میں فتنہ اور بڑا فساد ہوگا‘‘۔
’’کاروکاری‘‘ کے نام پر جو رسم رائج ہے وہ سراسر ظلم اور ناجائز ہے، ایک ایسا معاشرہ جہاں پسند کی شادی کو باعثِ ذلت سمجھا جاتا ہی اور اس جرم کی تلافی صرف خون سے کی جاتی ہے۔ جب اسلام عورت کو اپنی پسند سے شادی کا اختیار دیتا ہے تو پھر ایسی سوچ کا مظاہرہ کرنا جہالت ہے۔ کاروکاری ایک سماجی برائی ہے جس کی جڑ زیادہ تر قبائلی علاقوں پر مبنی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے قوانین پر عملدرآمد کرایا جائے ، بڑھتے ہوئے کاروکاری کے واقعات کو روکنا ہمارا بھی فرض ہے، ورنہ قانون تو محض کاغذ کا ایک ٹکڑا رہ جاتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button