پاک سعودی دفاعی معاہدہ، نئے دور کا آغاز

پاک سعودی دفاعی معاہدہ، نئے دور کا آغاز
تحریر : مہر اشتیاق احمد
پاکستان اور سعودی عرب نے 2025ء میں ایک نیا ’’ اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ‘‘ (Strategic Mutual Defense Agreement ) (SMDA) سائن کیا ہے، جس کے مطابق اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوتا ہے تو اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کو مزید مضبوط بناتا ہے اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع کا عزم ظاہر کرتا ہے۔ کسی ایک ملک کے خلاف حملہ، دونوں ملکوں کے خلاف حملہ شمار ہوگا۔ معاہدے کے تحت فوجی وسائل، انٹیلی جنس شیئرنگ اور مشترکہ مشقوں سمیت کئی شعبوں میں تعاون کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔ اس معاہدے کی بدولت مسلمان اور عرب ممالک کو بھی تحفظ کا احساس ملے گا، اور مستقبل میں تیسرے ملک کو بھی شامل کیا جا سکے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط قریبی تعلقات اور اسٹریٹجک مفادات کی روشنی میں یہ معاہدہ ہوا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔ دونوں رہنمائوں نے اس موقع پر خطے کے امن، مسئلہ فلسطین اور باہمی تعاون جیسے موضوعات پر بھی گفتگو کی۔ یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کو نئی سطح تک لے گیا ہے، بلکہ عالم اسلام کے لیے بھی اہمیت کا حامل سمجھا جارہا ہے۔
پاک سعودی اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ خطے کے امن اور استحکام پر نمایاں اثر ڈال سکتا ہے کیونکہ یہ نہ صرف دونوں ممالک کے دفاعی تعاون کو مضبوط بناتا ہے، بلکہ کسی تیسرے ملک کی جارحیت کی صورت میں متحدہ ردعمل کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔ اس معاہدے سے خلیجی اور جنوبی ایشیائی خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں مدد ملے گی، جس سے بیرونی حملوں یا دہشتگردی کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ دیگر اسلامی اور عرب ممالک کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ اگر وہ شامل ہونا چاہیں تو علاقائی تحفظ کے لیے اشتراک ممکن ہے۔
دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس معاہدے کے بعد ایران، اسرائیل اور دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن، علاقائی بلاک کی تشکیل اور امن مذاکرات میں نئے زاویے پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس سے خطے کے چھوٹے ممالک کو بھی دفاعی تحفظ، اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام کا احساس ملے گا۔ اس معاہدے سے خطے میں اتحاد، دفاعی تعاون اور بیرونی خطرات کے خلاف مشترکہ اسٹریٹجی فروغ پائے گی، جس کے باعث جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کا مجموعی امن و استحکام مضبوط ہو سکتا ہے۔ پاک سعودی دفاعی معاہدہ نہ صرف دفاع بلکہ معاشی اور انفراسٹرکچر تعاون میں بھی مثبت کردار ادا کر سکتا ہے، کیونکہ دونوں ممالک نے اسٹریٹجک تعلقات کو معیشت، سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے تک وسعت دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ دفاعی معاہدہ کے بعد بنیادی ڈھانچے ( انفراسٹرکچر) جیسے دفاعی تنصیبات، ٹیکنالوجی ٹرانسفر، اور مشترکہ صنعتی زونز کے قیام پر پیش رفت کی توقع ہے۔
سعودی عرب کی مالیاتی طاقت اور پاکستان کی افرادی قوت سے مشترکہ پراجیکٹس، جدید اسلحہ سازی اور لاجسٹکس سسٹم میں سرمایہ کاری کا امکان بڑھے گا۔ اس دفاعی تعاون سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت، مالی سرمایہ کاری اور توانائی منصوبوں میں تیزی متوقع ہے۔ مشترکہ منصوبوں سے نہ صرف روزگار بڑھے گا بلکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور صنعتی ترقی میں بھی مدد ملے گی جس سے دونوں ملکوں کی معیشتیں مضبوط ہوں گی۔ دفاعی شراکت داری کا یہ فروغ مستقبل کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کے انفراسٹرکچر اور اقتصادی شعبوں کے کثیرالجہتی اور طویل المدتی منصوبوں کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔
اس پاک سعودی دفاعی اور اسٹریٹجک تعاون سے سب سے زیادہ فائدہ دفاعی صنعت، ایرو اسپیس (Aerospace)، ٹیکنالوجی، اسلحہ سازی اور لاجسٹکس جیسے شعبوں کو ہوگا۔ دفاعی معاہدے کی بنیاد پر پاکستان میں جدید ہتھیاروں، ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور جوائنٹ وینچر ز کے ذریعے دفاعی سازوسامان کی صنعت کو فروغ ملے گا۔ عسکری بنیادوں پر چلنے والے صنعتی ادارے اور فوج سے جڑے کاروبار، جیسے فوجی فائونڈیشن اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس، کو براہِ راست تکنیکی اور مالی فائدہ ہوگا۔ ایرو اسپیس ٹیکنالوجی، ڈرون سازی، جدید فوجی گاڑیوں، جہاز سازی اور لاجسٹکس انفراسٹرکچر میں بھی سرمایہ کاری کے وسیع امکانات پیدا ہوں گے۔ سپلائی چین، ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر سے جڑے ادارے بھی اس تعاون سے مستفید ہوں گے۔ اس معاہدے سے نہ صرف روایتی دفاعی شعبہ، بلکہ آئی ٹی، ٹیکنالوجی، کمیونیکیشن اور بنیادی صنعتی شعبے بھی ترقی کریں گے؛ تاہم سب سے فوری اور بڑا فائدہ عسکری و دفاعی صنعتی شعبے کو ہی ہوگا۔





