اسلامی دنیا کی قیادت کی نئی سمت

اسلامی دنیا کی قیادت کی نئی سمت
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ طے پانے والا جامع دفاعی معاہدہ محض دو ممالک کے درمیان عسکری تعاون کا اظہار نہیں، بلکہ ایک نئی جغرافیائی، سیاسی اور تزویراتی ( اسٹرٹیجک) جہت کی طرف اشارہ ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ سعودی عرب کے دوران ہونے والے اس معاہدے کو بین الاقوامی سطح پر نمایاں توجہ ملی ہے اور اسے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا کے لیے ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ یہ معاہدہ کئی برسوں سے جاری باہمی مذاکرات اور اعتماد سازی کا نتیجہ ہے، جس نے اب ایک ادارہ جاتی شکل اختیار کرلی ہے۔ یہ معاہدہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ فلسطین، کشمیر اور دیگر مسلم علاقوں میں مسلمانوں کے حقوق اور سلامتی کے حوالے سے سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان اور سعودی عرب جیسے دو طاقتور مسلم ممالک کے درمیان دفاعی اتحاد صرف دفاعی تحفظ تک محدود نہیں بلکہ ایک بڑی سوچ اور وژن کا مظہر ہے۔ یہ معاہدہ اس بات کی علامت ہے کہ مسلم دنیا اب بیدار ہورہی ہے، اپنی خودمختاری اور دفاع کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اپنارہی ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے، اس کی افواج دنیا کی بہترین تربیت یافتہ افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ سعودی عرب بے پناہ مالی وسائل، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کی اہلیت اور عالمِ اسلام میں روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب یہ دونوں ممالک ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں تو اس سے ایک ایسا پیغام جاتا ہے جو صرف دشمنوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اسلامی دنیا کے لیے بھی اُمید اور حوصلے کا باعث بنتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر جس تدبر اور سفارتی مہارت کا مظاہرہ کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ان کی ملاقات کو نہایت خوشگوار اور مفید قرار دینا اس بات کا غماز ہے کہ دونوں رہنمائوں کے درمیان نہ صرف ہم آہنگی موجود ہے بلکہ وہ مسلم دنیا کے مستقبل پر یکساں وژن بھی رکھتے ہیں۔ سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان کے مطابق یہ معاہدہ کسی مخصوص ملک یا واقعے کے ردعمل میں نہیں بلکہ ایک جامع، دیرپا اور ادارہ جاتی تعاون کی بنیاد پر استوار کیا گیا ہے۔ معاہدہ تمام فوجی وسائل اور تعاون کا احاطہ کرتا ہے، جو دونوں ممالک کو نہ صرف کسی بھی ممکنہ خطرے کے خلاف تیاری کا موقع دے گا، بلکہ دفاعی انڈسٹری میں بھی ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرے گا۔ اس معاہدے کی گونج صرف اسلامی دنیا میں نہیں بلکہ بین الاقوامی حلقوں میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ نے اسے خطے کے لیے ایک ’’ نئی جہت’’ قرار دیا ہے جبکہ امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے کہا کہ چین، ترکی اور سعودی عرب کی حمایت کے ساتھ پاکستان کی پوزیشن غیر معمولی طور پر مضبوط ہوگئی ہے۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا بیان بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے، جس میں انہوں نے اس معاہدے کو اسلامی دنیا کی مشترکہ دفاعی قوت کی بنیاد قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سعودی عرب اور پاکستان کو آگے بڑھ کر امتِ مسلمہ کی قیادت سنبھالنی چاہیے۔ ان کا یہ موقف کہ ہم نے ہر مرحلے پر یہی بات کی کہ جہاں بھی مسلمانوں کے حقوق کی بات ہو، پاکستان اور سعودی عرب قیادت کے اہل ہیں، ایک ایسا وژن ہے جو اَب عملی صورت اختیار کررہا ہے۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اسلامی دنیا کا اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اگر مسلم ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہیں گے تو غیر مسلم طاقتیں ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائیں گی۔ دوحہ میں ہونے والی کانفرنس اسی اتحاد کی طرف ایک قدم تھی اور پاکستان۔ سعودیہ دفاعی معاہدہ اس سفر میں ایک مضبوط سنگ میل ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا یہ دورہ نہ صرف سفارتی کامیابی کا عکاس ہے بلکہ مسلم لیگ ن کی قیادت کے لیے بھی سیاسی لحاظ سے اہم ہے۔ لندن میں نواز شریف سے ان کی ملاقات اور سعودی دورے کے حوالے سے مشاورت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملکی سیاست میں بھی یہ معاہدہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ حکومت اس معاہدے کو اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابی کے طور پر پیش کر سکتی ہے، جس سے اس کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے کا موقع پیدا ہوگا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دفاعی معاہدے کو محض دستاویزات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس پر عمل درآمد کے لیے دونوں ممالک عملی اقدامات کریں۔ مشترکہ مشقیں، انٹیلی جنس شیئرنگ، دفاعی پیداوار میں تعاون اور عسکری تربیت کے شعبے اس معاہدے کے تحت فعال ہونے چاہئیں۔ اسی کے ساتھ، یہ بھی اہم ہے کہ یہ اتحاد مسلم دنیا کے دیگر ممالک کو بھی اپنے دائرے میں شامل کرے۔ متحدہ عرب امارات، قطر، ترکی، مصر اور دیگر مسلم ممالک کے ساتھ بھی اس طرح کے معاہدے اور شراکت داریاں قائم کی جائیں، تاکہ ایک جامع اسلامی دفاعی بلاک وجود میں آسکے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یہ دفاعی معاہدہ تاریخ ساز ہے۔ یہ دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان صرف عسکری تعاون کا مظہر نہیں بلکہ مسلم دنیا کی قیادت کے لیے ایک مشترکہ وژن کا اظہار بھی ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان کے لیے ایک اسٹرٹیجک فتح ہے بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے امید کی ایک نئی کرن بھی ہے۔ رب العزت سے دعا ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے خیر و برکت، ترقی اور استحکام کا ذریعہ بنے اور یہ اتحاد اسلامی دنیا کے اتحاد، سلامتی اور خود مختاری کا پیش خیمہ ثابت ہو۔
خضدار: کامیاب آپریشن، 4دہشتگرد ہلاک
خضدار میں سیکیورٹی فورسز کے حالیہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ ’’ فتنہ الہندوستان’’ کے 4دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنا ایک بڑی کامیابی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق مارے گئے دہشت گرد مختلف دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث تھے اور ان کے قبضے سے اسلحہ اور گولا بارود برآمد کیا گیا، جو ان کے ناپاک عزائم کا واضح ثبوت ہے۔ فتنہ الہندوستان کا نام ہی اپنی نوعیت میں اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ گروہ پاکستان میں انتشار، فساد اور عدم استحکام پیدا کرنی کے لیے دشمن کی پشت پناہی سے سرگرم عمل ہے۔ یہ ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ بھارت صرف سرحدوں پر ہی نہیں، بلکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے بھی منظم نیٹ ورک چلارہا ہے۔ بلوچستان کی سرزمین کو استعمال کر کے وہاں قوم پرستی، لسانی تعصب اور مسلح بغاوت کی آگ بھڑکانے کی کوششیں برسوں سے جاری ہیں۔ خضدار آپریشن پاکستان کی مسلح افواج کی انٹیلی جنس اور آپریشنل مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کا کامیاب ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ریاست پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو نہ صرف موثر طریقے سے لڑ رہی بلکہ دشمن کے کسی بھی منصوبے کو ابتدائی سطح پر ہی ختم کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کرنا خوش آئند اقدام ہے، جو اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ ریاست اور حکومت، دونوں اس نازک محاذ پر ایک صف میں کھڑے ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا دل ہے اور دشمن اس دل کو زخمی کرکے پورے ملک کو کمزور کرنے کے خواب دیکھتا رہا ہے۔ بھارت بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرکے پاکستان کو سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر مفلوج کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں خضدار جیسے حساس علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان کسی بھی قیمت پر اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کو قدم نہیں جمانے دے گا۔ محب وطن قوم سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کو تسلیم کرتی اور ان پر فخر کرتی ہے۔ دشمن صرف گولا بارود سے نہیں لڑتا، بلکہ سوشل میڈیا، پروپیگنڈا اور نفسیاتی جنگ کے ذریعے بھی قوم کا مورال گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ ان تمام محاذوں پر یکجہتی اور بصیرت کے ساتھ مقابلہ کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ خضدار میں بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں کی ہلاکت نہ صرف ایک کامیاب آپریشن بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ پاکستان اپنی خودمختاری، امن اور سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔ یہ کارروائی ایک وارننگ بھی ہے اُن تمام عناصر کے لیے جو دشمن کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج ہر محاذ پر چوکنا اور متحرک ہیں اور دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنانے کا حوصلہ، ہمت اور صلاحیت رکھتی ہیں۔





