Column

پاکستان سعودیہ دفاعی معاہدہ – عظمت ِ رفتہ کی واپسی کی پہلی سیڑھی

پاکستان سعودیہ دفاعی معاہدہ – عظمت ِ رفتہ کی واپسی کی پہلی سیڑھی
تحریر : رفیع صحرائی
وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ سعودی عرب نے تاریخ کے صفحات پر ایک نیا باب رقم کر دیا ہے۔ جب ان کا طیارہ سعودی ایئر بیس میں داخل ہوا تو وہاں کی فضائوں میں ایف۔15طیارے پاکستان کے وزیرِاعظم کے استقبال میں پرواز کر رہے تھے اور 21توپوں کی سلامی دی جا رہی تھی۔ یہ محض ایک پروٹوکول نہیں تھا بلکہ یہ اعلان تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب اب ایک دوسرے کے خونی رشتے میں جُڑ گئے ہیں۔ پوری دنیا کو باور ہو گیا تھا کہ کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے اور پھر جب وزیرِ اعظم شہباز شریف کا پرپل کارپٹڈ استقبال کیا گیا تو پوری دنیا چونک اٹھی۔ سربراہانِ مملکت کا استقبال عام طور پر سرخ قالین بچھا کر کیا جاتا ہے۔ پرپل کارپٹ بچھا کر استقبال کرنا اس سلسلے کی انتہا ہے۔ یہ آخری حد ہے۔ کچھ ہی دیر بعد دنیا بھر کو پتا چل گیا کہ پاکستان اور سعودی عرب یک جان دو قالب ہو گئے ہیں۔ وہ ایک ایسے اٹوٹ بندھن میں بندھ گئے ہیں جو دونوں کے لیے ضروری تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خونی رشتے میں، سلامتی کے رشتے میں، ایمان کے رشتے میں، دشمن کو شکست دینے کے عہد کے رشتے میں جڑ گئے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سٹریٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ طے پا گیا ہے جس پر سعودی فرماں روا محمد بن سلمان اور پاکستانی وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے دستخط کیے ہیں۔ اب پاکستان کو حرمین شریفین کی محافظت کا اعزاز مل گیا ہے۔ ہم پاکستانیوں کا تو پہلے ہی سعودی عرب سے عقیدت کا رشتہ ہے۔ حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے ہر پاکستانی اپنی جان نچھاور کرنے کے جذبات رکھتا ہے۔ اب سرکاری طور پر پاکستان نے یہ ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
یہ معاہدہ کہتا ہے کہ اگر کسی ایک پر حملہ ہوا تو سمجھو دونوں پر حملہ ہوا! اب پاکستان کا دشمن سعودی عرب کا دشمن ہے اور سعودی عرب کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے۔ یہ پیغام صرف دہلی یا تل ابیب کے ایوانوں تک محدود نہیں رہے گا، یہ وائٹ ہائوس اور پینٹاگون کی دیواروں تک گونجے گا۔ اب اگر بھارت نے مس ایڈونچر کی کوشش کی تو سعودی عرب کے ریسورسز، فائٹر جیٹس اور انسٹالیشنز پاکستان کے ڈسپوزل پر ہوں گی۔ دنیا جانتی ہے کہ سعودی عرب نے اپنے دفاع کے لیے جدید ترین سازوسامان رکھا ہوا ہے اور اس پر بہت بھاری رقم خرچ کی ہے۔ دوسری طرف اگر اسرائیل یا کسی اور ملک نے سعودی عرب کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھا تو پاکستان سیسہ پلائی دیوار کی طرح سامنے کھڑا ہو گا۔
ایک اور اہم بات بھی بتاتے چلیں کہ یہ معاہدہ عین اس روز ہوا ہے جب پاکستان کا بدترین دشمن بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اپنی سالگرہ منا رہا تھا اور اندرون و بیرونِ ملک سے سالگرہ کی مبارک باد اور تحائف وصول کر رہا تھا۔ پاکستان اور سعودی عرب نے مل کر مودی کو ایسا تحفہ دیا ہے جسے وہ مرتے دم تک بھلا نہ سکے گا۔
خطے کے بدلتے ہوئے حالات نے دونوں ممالک کو یہ معاہدے کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسرائیل اپنے مذموم منصوبے گریٹر اسرائیل کے خواب کو پورا کرنے کے لیے سازشیں بُن رہا ہے۔ اس خواب میں صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ حرمین شریفین کی پاک سرزمین بھی شامل ہے۔ سعودی عرب اب جان گیا ہے کہ بھارت اس کے ساتھ محبت کی جو پینگیں بڑھا رہا تھا اس کے پیچھے اسرائیل کے مذموم مقاصد کی تکمیل کا مشن تھا۔ بھارت سعودی عرب کی پیٹھ میں بھی اسی طرح چھرا گھونپنے کے ارادے سے اس کے قریب ہو رہا تھا جس طرح ایران اسرائیل جنگ میں اس نے ایران کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا مگر اب اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ کو یہ باور ہو گیا ہو گا کہ اگر انہوں نے مکہ اور مدینہ کی طرف میلی نظر ڈالی تو ان کے مقابلے میں وہ قوت کھڑی ہو گی جس کے ہاتھوں میں پاکستان کی ایٹمی طاقت ہے اور جس کے دلوں میں عشقِ رسولؐ کی حرارت ہے۔
راحیل شریف کی قیادت میں بننے والا اسلامی اتحاد دہشت گردی تک محدود رہا مگر آج شہباز شریف اور محمد بن سلمان کے اس معاہدے نے ثابت کر دیا کہ اب ہم صرف دہشت گردوں کے مقابل نہیں بلکہ دشمنانِ اسلام کے خلاف صف آرا ہیں۔ اس معاہدے کی اصل روح یہ ہے کہ یہ دو ملکوں کا دفاعی اتحاد نہیں بلکہ یہ آنے والے وقتوں میں ایک بڑے اسلامی بلاک کی بنیاد ہے۔ اگر ترکی، ایران، قطر اور یو اے ای جیسے ممالک بھی اس کارواں میں شامل ہو جائیں تو سوچ لیجیے کیسا منظر ہو گا۔ ایک ایسی فوج، ایک ایسا دفاعی حصار جسے دیکھ کر اسرائیل کی نیندیں حرام ہو جائیں گی اور امریکہ کو بھی اپنے منصوبے لپیٹنے پڑیں گے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے شان دار استقبال اور اس دفاعی معاہدے کی ایک بڑی وجہ بھارت کے خلاف پاکستان کی حالیہ جنگی فتوحات ہیں۔ کہتے ہیں نا کہ فتح کے ہزاروں سرپرست ہوتے ہیں جبکہ شکست ہمیشہ یتیم ہوتی ہے۔ پاکستان کی فتح نے ٹرمپ کو پاکستانی حکومت کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ شاید چند دن میں ٹرمپ شہباز ایک ملاقات بھی ہو جائے۔ اسرائیل ایران جنگ میں پاکستان نے ایران کی جو مدد کی وہ ایران اور پاکستان کے تعلقات کو ازسرِ نو مضبوط کرنے کا باعث بنی۔ پاکستان نے میدان میں اپنی طاقت کا لوہا منوا کر اپنی اہمیت کو تسلیم کروا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفارت کاری کے میدان میں بھی اس نے بہت سی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ سعودی عرب جو کہ ماضی میں ہماری کچھ غلطیوں کی وجہ سے ناراض ہو گیا تھا اب ہمارا دفاعی پارٹنر ہے۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات پورے عروج پر ہیں۔ ٹرمپ ہمیں انڈیا پر فوقیت دے رہا ہے۔ دنیا جنگ میں ہمیں فاتح تسلیم کر رہی ہے اور انڈیا کی زمانے بھر میں سبکی ہو رہی ہے۔ اتنی ڈھیر ساریاں کامیابیاں قلیل وقت میں سمیٹنا بہترین صلاحیتوں اور اعلیٰ سفارت کاری کی مثال ہیں۔
اس معاہدے کے پس منظر میں فیلڈ مارشل جنرل سیّد عاصم منیر کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کی حکمتِ عملی، ان کی خاموش مگر فیصلہ کُن اور موثر سفارت کاری نے آج امتِ مسلمہ کو ایک نئے راستے پر ڈال دیا ہے۔ یہ معاہدہ ایک تاریخی موڑ ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم امہ بکھری ہوئی ریت کے ذروں کی مانند نہ رہے۔ وقت آ گیا ہے کہ سب مل کر ایک پہاڑ بن جائیں، ایک قوت بن جائیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کا یہ معاہدہ ایک اعلان ہے کہ دشمن جہاں بھی ہو گا ہم اس کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوں گے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ وہ معاہدہ ہے جو امت مسلمہ کی عظمتِ رفتہ کو لوٹانے کی پہلی سیڑھی ہے۔

جواب دیں

Back to top button