ColumnQadir Khan

فتنہ الخوارج: پاکستان پر مالیاتی یلغار

فتنہ الخوارج: پاکستان پر مالیاتی یلغار
تحریر : قادر خان یوسف زئی

ریاست کی رگوں میں خون کی طرح بہنے والے امن کو اگر کسی گروہ نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے تو وہ فتنہ الخوارج ہے، جس نے دو دہائیوں کے دوران اپنے منظم اور پیچیدہ مالیاتی ڈھانچے کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی سلامتی کو بھی کمزور کرنے کی کوشش کی۔ یہ گروہ 2007ء میں سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے قبائلی پٹی سے شہروں تک اپنے اثرات قائم کیے۔ ان کی طاقت کا اصل راز بندوقوں یا خودکش حملہ آوروں میں ہی نہیں بلکہ اس مالیاتی نظام میں ہے جو اتنی باریک بینی سے ترتیب دیا گیا کہ ریاستی اداروں کو اس کی جڑوں تک پہنچنے میں برسوں لگے۔
فتنہ الخوارج کے معاشی معاملات کسی عام گروہ کی طرح نہیں بلکہ ایک منظم تنظیم کی مانند ہیں، جس کے اندر ایک مرکزی مالیاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ یہ کمیٹی نہ صرف اپنے زیرِ اثر علاقوں سے محصولات اکٹھا کرتی ہے بلکہ ان کا مکمل حساب بھی رکھتی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر مالیاتی رپورٹ تیار ہوتی ہے، جو علاقائی کمیٹیوں سے مرکزی سطح پر پہنچتی ہے اور پھر سہ ماہی بنیادوں پر براہِ راست امیر کو پیش کی جاتی ہے۔ اس ترتیب میں کسی طور پر نرمی یا گنجائش باقی نہیں چھوڑی گئی، اور شاید یہی وجہ ہے کہ فتنہ الخوارج اپنے محدود وسائل کے باوجود اتنے طویل عرصے تک ریاست کے لیے چیلنج بنا رہا۔ نور ولی محسود کی قیادت میں اس نظام کو مزید منظم کیا گیا۔ ایک باقاعدہ ضابطہ متعارف کرایا گیا جس نے اراکین کو مالیاتی چیک کنٹرول کے تحت اس امر کو یقینی بنایا کہ پچاس فیصد آمدنی مرکزی خزانے میں جائے گی۔ باقی فنڈز صرف درخواست اور منظوری کے بعد صوبائی سطح پر خرچ ہو سکتے تھے۔ اس کڑی نگرانی نے تنظیمی ڈھانچے کو بکھرنے سے بچایا اور انہیں ایک مربوط شکل دی۔
ان کے سب سے بڑے ذرائع آمدن میں بھتہ بازی شامل ہے۔ فتنہ الخوارج نے اس کو کبھی بھتہ نہیں کہا بلکہ ’’ ٹیکس‘‘ کا نام دیا۔ وہ مقامی ٹھیکیداروں اور کاروباری افراد پر پانچ فیصد سے بیس فیصد تک ’’ حصہ‘‘ لازم کرتے، اور جو انکار کرتا اس کے لیے انجام بھی پہلے سے طے شدہ ہوتا۔ چلغوزے کی فصل ہو یا سرحدی تجارت، ہر جگہ یہ گروہ کسی نہ کسی شکل میں اپنا حصہ وصول کرتا۔ یہ لوگ اپنے زیر اثر علاقوں میں تفصیلی شیڈول بھی جاری کرتے جن میں بتایا جاتا کہ کس کاروبار پر کتنا ٹیکس لگے گا۔ اس طرح وہ نہ صرف پیسہ اکٹھا کرتے بلکہ اپنی رٹ بھی قائم رکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ گروہ مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث رہا۔ بینک ڈکیتیاں، اغوا برائے تاوان، لکڑی اور نوادرات کی اسمگلنگ، حتیٰ کہ منشیات اور اسلحے کی غیر قانونی تجارت ان کی آمدنی کے بڑے ذرائع رہے۔ صرف 2007ء میں ایک ہزار سے زائد افراد کو اغوا کیا گیا۔ شہباز تاثیر کا اغوا اس کی ایک نمایاں مثال ہے، جہاں دو ارب روپے تاوان کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی طرح افغانستان میں پاکستان کے سفیر طارق عزیز الدین کو بھی اٹھایا گیا اور لاکھوں ڈالر تاوان کے بعد رہا کیا گیا۔ یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ وقت کے ساتھ پھیلتا گیا۔
منشیات کے کاروبار میں بھی فتنہ الخوارج نے اہم کردار ادا کیا۔ افغانستان سے آنے والی منشیات کے بڑے راستے ان کے زیرِ اثر علاقوں سے گزرتے تھے اور کراچی ان کی برآمدات کا مرکز تھا۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی براہِ راست عسکری کارروائیوں پر خرچ کی جاتی۔ اسلحے کی اسمگلنگ نے بھی انہیں دوہرا فائدہ دیا۔ ایک طرف انہیں نئے ہتھیار میسر آتے اور دوسری جانب یہ غیر قانونی کاروبار ان کے خزانے کو بھرتا رہا۔یہ گروہ صرف داخلی ذرائع پر انحصار نہیں کرتا بلکہ بیرونی دنیا سے بھی رقوم وصول کرتا رہا ہے۔ ذاتی عطیات اور غیر رسمی مالیاتی نظام جیسے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے بڑی رقوم پاکستان پہنچتی رہیں۔ بیرون ملک آباد حمایتی گروہ ان کے لیے مسلسل فنڈز فراہم کرتے رہے۔ ان رقوم کی منتقلی اتنی ہوشیاری سے کی جاتی کہ بین الاقوامی مالیاتی نگرانی کے نظام بھی انہیں فوری طور پر پکڑ نہ پاتے۔
اس مالیاتی طاقت نے فتنہ الخوارج کو مسلسل زندہ رکھا۔ ان کے عسکری منصوبے، بھرتیاں، پروپیگنڈا اور حتیٰ کہ عدالتوں جیسے متوازی نظام بھی اسی آمدنی سے چلتے رہے۔ مقامی آبادیوں پر ان کا دبا محض خوف کے ذریعے نہیں بلکہ اس مالیاتی جبر سے قائم رہا، جس نے عام لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی محنت کی کمائی کا ایک حصہ ان کے ہاتھوں میں دیں۔ یہ ایک ایسا نظام تھا جس نے ریاستی رٹ کو براہِ راست چیلنج کیا۔تاہم اس سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاستی اداروں نے وقت کے ساتھ ساتھ اس نظام کو کمزور کرنے میں کامیابیاں حاصل کیں۔ بھتے کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے مقامی کمیونٹی کو شامل کیا گیا، حوالہ ہنڈی نیٹ ورکس کو نشانہ بنایا گیا اور اسمگلنگ کے راستے بند کیے گئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کامیابیاں مستقل ثابت ہو سکیں گی؟ کیونکہ جب تک ان کے مالیاتی ڈھانچے کو جڑ سے نہ اکھاڑا جائے، ان کی طاقت مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتی۔
حالیہ برسوں میں، ٹی ٹی پی نے ڈیجیٹل فنانسنگ کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ وہ ٹیلیگرام جیسے پلیٹ فارمز پر کرپٹو کرنسی میں عطیات کی اپیل کرتے ہیں، جو ان کی فنڈنگ کو مزید خفیہ بناتا ہے کیونکہ کرپٹو والٹس کو ٹریس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ ارتقاء یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے سیکورٹی فورسز سے آگے رہنے کی کوشش کر رہے ہیں، غیر ملکی فنڈنگ ٹی ٹی پی کی حکمت عملی کا ایک اہم جزو ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ بھارت نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے فنڈز منتقل کیے، جو قانونی لین دین کی آڑ میں دہشت گرد گروپوں تک پہنچتے ہیں۔
فتنہ الخوارج کی کہانی محض ایک دہشت گرد گروہ کی کہانی نہیں بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح معاشی طاقت کسی بھی عسکری تنظیم کو برسوں زندہ رکھ سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس جنگ کو جیتنے کے لیے صرف بندوق کافی نہیں بلکہ ان کے مالیاتی نیٹ ورکس کو توڑنا سب سے ضروری ہے۔آج بھی جب ہم ان کے اثرات کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ گروہ کس حد تک منظم رہا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ سچ بھی سامنے آتا ہے کہ ریاست اگر نیت اور حکمتِ عملی کے ساتھ ان کے مالیاتی ذرائع پر وار کرے تو یہ دیو بھی کمزور ہو سکتا ہے۔ یہ ایک طویل جنگ ہے، جو صرف میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ بینک کھاتوں، حوالہ نیٹ ورکس، اور مقامی معیشت کے اندر لڑی جا رہی ہے۔ اور یہی جنگ دراصل فیصلہ کرے گی کہ فتنہ الخوارج ہمیشہ کے لیے ماضی کا قصہ بنے گا یا مستقبل میں بھی ہمارے امن کو چیلنج کرتا رہے گا۔

جواب دیں

Back to top button