Column

سیلاب سے تباہ حال زراعت: کسان، فصلیں اور معیشت، بحالی کی فوری ضرورت

سیلاب سے تباہ حال زراعت: کسان، فصلیں اور معیشت، بحالی کی فوری ضرورت
تحریر : محمد راشد (میڈیا کوآرڈیینٹر مرکزی کسان لیگ )
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری قومی معیشت کا بڑا حصہ کھیتوں سے حاصل ہونے والی اجناس، باغات کی پیداوار اور مویشی پالنے کے نظام پر منحصر ہے۔ دیہات میں بسنے والے لاکھوں خاندان اپنی روزی روٹی انہی کھیتوں سے کماتے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں آنے والے شدید اور تباہ کن سیلاب نے نہ صرف کسانوں کو بلکہ پوری زرعی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پانی کے طوفان نے کھیت کھلیان بہا دئیے، تیار فصلیں تباہ کر ڈالیں اور کسان کو بے بسی کے عالم میں کھڑا کر دیا۔ یہ آفت صرف ایک قدرتی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے زرعی ڈھانچے، حکومتی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی کمزوری کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔
خیبرپختونخوا وہ صوبہ ہے جہاں سے اس سیلابی تباہی کا آغاز ہوا۔ شدید بارشوں، کلائوڈ برسٹ اور ندی نالوں میں طغیانی نے بستیاں اجاڑ دیں اور زرعی زمینوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صرف اسی صوبے کے 16اضلاع میں 31ہزار 600 ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں اور باغات مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ سب سے زیادہ نقصان بونیر میں ہوا جہاں 26ہزار 141 ایکڑ پر کھڑی فصلیں پانی میں بہہ گئیں۔ سوات، دیر لوئر اور شانگلہ میں بھی ہزاروں ایکڑ زمین زیرِ آب آ گئی۔ مکئی، چاول، سبزیاں اور پھلدار باغات وہ اجناس ہیں جن پر مقامی معیشت کا انحصار ہے، لیکن یہ سب اس سیلابی ریلے کی نذر ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف کسانوں کا ذریعہ معاش ختم ہوا بلکہ مقامی منڈیوں میں اجناس کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔
پنجاب، جو پاکستان کی زرعی پیداوار میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس بار سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ 21لاکھ 25 ہزار 838ایکڑ زرعی رقبہ سیلاب کی نذر ہوا۔ یہ تباہی صرف زمین یا فصلوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے زرعی آلات، گوداموں، گھروں اور کسانوں کی روزمرہ زندگی کو بھی برباد کر دیا۔ فیصل آباد ڈویژن سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 3لاکھ 23ہزار 215ایکڑ پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر ضائع ہو گئیں۔ اسی طرح گوجرانوالہ ڈویژن، گجرات ڈویژن، بہاولپور ڈویژن، ساہیوال، ملتان ڈویژن اور ڈی جی خان میں بالترتیب2لاکھ 62ہزار 862ایکڑ، 2لاکھ 38ہزار 416ایکڑ، 1لاکھ 45ہزار 432ایکڑ، 1لاکھ 37ہزار 79ایکڑ، 58ہزار 439ایکڑ اور 49ہزار 165ایکڑ فصلیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئیں۔
یہاں چاول، کپاس، گنا، مکئی اور چارہ جیسی فصلیں تباہ ہوئیں جنہیں ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے۔ صرف چاول ہی کی 9لاکھ 70ہزار 929ایکڑ فصل تباہ ہوئی، جو برآمدی شعبے کے لیے شدید دھچکا ہے۔ چارے کی 4لاکھ 500ایکڑ، گنے کی 2لاکھ 20ہزار 344ایکڑ، مکئی کی1لاکھ 86ہزار 419ایکڑ اور کپاس کی 1لاکھ 10 ہزار 850 ایکڑ زمین متاثر ہوئی۔ یہ نقصان صرف کسان کی روزی پر نہیں بلکہ قومی سطح پر غذائی تحفظ اور برآمدات پر بھی براہِ راست اثر ڈال رہا ہے۔
زرعی تباہی کے ساتھ ساتھ لاکھوں مویشی بھی یا تو پانی کے ریلوں میں بہہ گئے یا خوراک کی کمی اور بیماریوں کے باعث مر گئے۔ دیہات میں کسان کی معیشت صرف فصلوں پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ مویشی اس کا دوسرا بڑا سہارا ہوتے ہیں۔ دودھ، گوشت اور کھال کے ساتھ ساتھ بیل اور بھینس کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سبز چارے کی شدید قلت ہے اور کسان اپنے بچ جانے والے جانوروں کو خوراک دینے سے قاصر ہیں۔ حکومت کی طرف سے ونڈے کی معمولی تقسیم ہو رہی ہے مگر اکثر یہ سہولت ضرورت مند کسان تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایسے حالات میں مرکزی مسلم لیگ، الخدمت فائونڈیشن، مرکزی کسان لیگ اور دیگر مذہبی و فلاحی تنظیمیں سائیلج اور توری کی تقسیم کر رہی ہیں، مگر یہ اقدامات وقتی ہیں، مستقل حل نہیں۔
کسان اس وقت بدترین بحران کا شکار ہے۔ ایک طرف اس کی تیار فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور دوسری جانب بجلی کے بھاری بل، زرعی قرضوں کا بوجھ اور مہنگائی نے اس کی کمر توڑ دی ہے۔ ایسے حالات میں کاشتکاری کا خواب ایک بھیانک حقیقت میں بدل گیا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اب تک کوئی جامع اور موثر پالیسی سامنے نہیں آئی جو کسان کو سہارا دے سکے۔ کسانوں کے لیے بجلی کے بل معاف کرنے، قرضے ختم کرنے اور بیج و کھاد فراہم کرنے جیسے اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں بحالی کے عمل کو موخر کرنا کسی طور بھی دانشمندی نہیں۔ اگر ہم نے فوری طور پر کسان کی داد رسی نہ کی تو آئندہ برس شدید غذائی بحران سامنے آ سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیلاب متاثرہ کسانوں کے بجلی کے بل معاف کیے جائیں۔ زرعی قرضے اور تمام ٹیکس فوری طور پر ختم کیے جائیں تاکہ کسان دوبارہ اپنے پاں پر کھڑے ہو سکیں۔ بیج، کھاد اور ڈیزل پر سبسڈی دی جائے تاکہ اگلی فصل کی تیاری ممکن ہو سکے۔ گندم کی آئندہ کاشت کے لیے سبسڈی دی جائے تاکہ زیادہ پیداوار حاصل ہو سکے اور ملک ممکنہ غذائی بحران سے بچ سکے۔ مویشیوں کے لیے چارہ اور سائیلج بڑے پیمانے پر فراہم کیا جائے۔ شفاف اور غیر سیاسی بنیادوں پر امدادی پیکیج دیا جائے تاکہ اصل حقدار کسان کو فائدہ پہنچے۔
درحقیقت پاکستان کا کسان ہماری معیشت کی بنیاد ہے۔ اگر کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔ سیلاب نے کسان کو کچل کر رکھ دیا ہے، اس لیے اب یہ حکومت اور ریاست کی آئینی، اخلاقی اور معاشی ذمہ داری ہے کہ وہ کسان کو دوبارہ کھڑا ہونے کا موقع دے۔ اگر ہم نے آج کسان کو سہارا نہ دیا تو آنے والے دنوں میں یہ بحران صرف دیہات تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔

جواب دیں

Back to top button