ColumnRoshan Lal

اسرائیل کی من مانیاں ، امریکہ اور عرب دنیا

اسرائیل کی من مانیاں ، امریکہ اور عرب دنیا
تحریر : روشن لعل
قطر پر اسرائیلی بمباری کے رد عمل میں منعقدہ ، عرب اور غیر عرب اسلامی ملکوں کی دوحہ کانفرنس کے بعد، ایک دوست نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر یہ مذاق پوسٹ کیا ’’ اب سرائیل کی خیر نہیں ‘‘۔دوست کی ازراہ مذاق لکھی گئی پوسٹ کے جواب میں راقم نے پنجابی فلم مولا جٹ کا یہ مشہور زمانہ ڈائیلاگ پیش کر دیا ’’ مولے نوں مولا نہ مارے تے مولانئیں مردا ‘‘۔ اس کمنٹ کے تسلسل میں پوسٹ کرنے والے دوست نے جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ، اسرائیل کو اگر ’’ مولا ‘‘ تصور کر لیا جاءے تو اس مولے کو جو ’’ مولا ‘‘ مار سکتا ہے وہ امریکہ ہے، لیکن امریکہ ، اسرائیل کو کیوں مارے گا۔ راقم نے اپنے کمنٹ میں جو بات ملفوف انداز میں لکھی، دوست نے اس کا جواب اس طرح کھل کر دیا کہ مزید کہنے کو کچھ نہ رہا۔
سوشل میڈیا پر اسرائیل کی حیثیت کے حوالے سے دوست کے ساتھ خیالات کے مذکورہ تبادلے کے بعد قطر میں منعقدہ ، عرب اور غیر عرب اسلامی ملکوں کی کانفرنس کا 15ستمبر کو جو اعلامیہ جاری ہوا ، اس میں لکھا چاہے جو بھی گیا ہے مگر اس کے بین السطور میں یہ اعتراف نظر آیا کہ اسرائیل کی من مانیوں کو اسی کے انداز میں روکنا شریک ملکوں کے بس میں نہیں ہے، لہذا قوام متحدہ نے رکن ملکوں کی آزادی و خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے سرحدی علاقوں میں عدم مداخلت کے جو اصول طے کیے ہیں، امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں ان اصولوں کے احترام کو یقینی بنائیں۔ قبل ازیں، اسرائیل کے ایران پر حملے کے بعد رواں برس جون میں، ترکی کے شہر استنبول میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی جو کانفرنس ہوئی اس کا اعلامیہ بھی دوحہ کی حالیہ کانفرنس سے مختلف نہیں تھا۔ صرف استنبول اور دوحہ کی کانفرنسیں ہی نہیں ، گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران اسرائیل نے صرف فلسطینیوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ ہمسایہ اسلامی عرب ملکوں کے خلاف کئی مرتبہ جارحیت کا مظاہرہ کیا اور اسے جواب صرف مذمتی کانفرنسوں کے بعد جاری ہونے والے اعلامیوں کی شکل میں دیا جاتا رہا۔ ایران نے ایک سے زیادہ مرتبہ اسرائیل کو اس کی زبان میں جواب دینے کی کوشش کی لیکن امریکہ جیسی کسی سپر پاور کی پشت پناہی میسر نہ ہونے کی وجہ سے اسے آخر کار اسرائیل کی مرضی کے مطابق جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا۔ ایران نے تو ایک سے زیادہ مرتبہ اسرائیل کے ساتھ مقابلے میں پیچھے ہٹنے کے باوجود اسے چیلنج کرنے اور اس کے خلاف پراکسی جنگ کا سلسلہ جاری رکھا لیکن عرب ملکوں کے اتحاد نے لگاتار تین جنگوں میں شکست اور اپنا کئی مربع میل علاقہ اسرائیلی فوجوں کے قبضے میں جانے کے بعد گزشتہ 52برسوں کے دوران کبھی یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف مسلح کاروائی کرنے یا چوتھی جنگ لڑنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔ تین عرب ، اسرائیل جنگوں کے دوران ، سب سے زیادہ سرگرم نظر آنے والے مصر نے،1978 ء میں کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے تحت کسی بھی عرب ملک کی نسبت، سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ دیگر عرب ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا تاثر تو نہیں دیا لیکن وہ سب ایک ساتھ اس امریکہ کے قریب ہوتے چلے گئے جو اسرائیل کے کسی بھی نامناسب عمل کا اسرائیل سے بھی پہلے دفاع کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ان عرب ملکوں کے لیے کبھی فلسطین کا مسئلہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہوا کرتا تھا لیکن 1979ء میں انہوں نے امریکہ کے مفاد میں لڑے جانے والے نام نہاد افغان جہاد کو اپنی جنگ قرار دیتے ہوئے اپنے تمام وسائل اس میں جھونک دیئے۔ اس کے بعد سے اب تک عرب ملکوں نے امریکی اطاعت میں کوئی کسر روا نہیں رکھی لیکن امریکہ نے عربوں کے مقابلے میں ہمیشہ اسرائیل کی من مانیوں کو جواز فراہم کرنے اور اور اس کے مفادات کا تحفظ کرنے کو ترجیح دی۔ عرب دنیا میں شاید ہی کسی دوسرے ملک نے ، قطر سے زیادہ امریکہ کی اطاعت گزاری کی ہو لیکن اس کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر امریکی حکام نے جس سرد مہری کا مظاہرہ کیا، اس سے یوں لگتا ہے جیسے اس کی تمام ہرزہ سرائیوں سے چشم پوشی امریکہ کی مجبوری ہے۔
یہ بات شاید کچھ لوگوں کو عجیب لگے کہ امریکی حکام کسی مجبوری کے تحت اسرائیلی ہرزہ سرائیوں کو نظر انداز کرتے ہیں مگر اس امر کو جان، جے، مرشائمر ا اور سٹیفن ایم والٹ نے2007ء میں مشترکہ طور پر لکھی گئی اپنی کتاب ’’ دی اسرائیل لابی اینڈ یو ایس فارن پالیسی‘‘(The Israel Lobby and the U.S. Foreign Policy )میں تفصیل سے بیان کر دیا تھا۔ ان دونوں نے اپنی کتاب میں مثالوں کے ذریعے یہ بات ثابت کی کہ اسرائیل نے امریکہ کے اندر، ان کے ماہرین تعلیم، سیاستدانوں، دانشوروں اور اعلیٰ سرکاری اہلکاروں پر مشتمل ایسی لابی تیار کی ہوئی ہے جو امریکی خارجہ پالیسیوں کو اس طرح تشکیل دیتے ہیں کہ ان کے تحت عالمی سطح پر اسرائیل کے تمام ناجائز اقدامات اور مفادات کا دفاع ممکن ہو سکے۔ مذکورہ مصنفین نے اپنی کتاب میں ثبوتوں کے ساتھ جو تفصیل بیان کی اس کا لب لباب یہ ہے کہ 1948ء میں اسرائیل کے قیام اور اس کے بعد سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات بتدریج اس طرح استوار ہوئے کہ جو اسرائیل پہلے اپنی کارروائیوں کے لیے امریکہ کا مرہون منت ہوا کرتا تھا اس نے وہاں کے موثر لوگوں پر مشتمل ایسی لابی تیار کر لی جو اسرائیل کی طرف سے جمہوری اصولوں اور تسلیم شدہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے ہر صورت میں اس کی غیر مشروط سفارتی، معاشی اور عسکری سپورٹ ممکن بنانے کے لیے کامیابی سے سرگرم رہتی ہے۔ ’’ دی اسرائیل لابی اینڈ یو ایس فارن پالیسی‘‘ کے مصنفین کے ثبوتوں کے ساتھ بیان کیے گئے موقف کو امریکہ اور اسرائیلی حکومتوں نے پراپیگنڈا کے ذریعے رد کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی کتاب پر دنیا بھر میں ہونے والے غیر جانبدار تبصروں میں ان کے موقف کی وسیع پیمانے پر تائید دیکھنے میں آئی۔ اس کتاب کی اشاعت کے فوری بعد اس میں بیان کیے گئے موقف کی عالمی سطح پر جو تائید ہوئی، اسی قسم کی تائید اسرائیل کے غزہ میں برپا کیے جانے والے بد ترین مظالم اور طاقت کے غیر ضروری استعمال پر امریکہ کی سرد مہری ظاہر ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر سے ابھر کر سامنے آئی ہے ۔
جان ، جے، مرشائمرا اور سٹیفن ایم والٹ نے اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا، دانشور حلقوں کی طرف سے اس کی وسیع پیمانے پر تائید کے باوجود، اسرائیل اور امریکہ کے رویے نہ پہلے تبدیل ہوئے اور نہ مستقبل قریب میں تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں۔ فی الحال جو کچھ نظر آرہا ہے وہ یہی ہے کہ دوحہ کانفرنس میں شرکت کرنے اور وہاں سے حسب روایت ایک متفقہ اعلامیہ جاری کرنے والے ملکوں کو اسرائیلی من مانیاں پہلے کی طرح صبر سے برداشت کر نا ہوں گی۔ دوحہ کانفرنس کے فوری بعد سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ طے پایا ہے۔ اسرائیل ، امریکہ گٹھ جوڑ کے سامنے ، کچھ پاکستانی دانشور اس معاہدے کو انتہائی امید افزا قرار دے رہے ہیں لیکن اس حوالے سے ابھی بہت کچھ دیکھنا، سوچنا اور سمجھنا باقی ہے۔

جواب دیں

Back to top button