Column

امریکہ اور اسرائیل کے مقابل اسلامی بلاک کی پہلی اینٹ

از : راؤ بلال
لاہور ، پاکستان

گزشتہ رات پاکستان اور سعودیہ عرب کے درمیان ایک تاریخ ساز دفاعی معاملات میں تعاون اور سلامتی سے متعلق ’باہمی دفاع کے سٹریٹجک معاہدے‘ (جوائنٹ سٹریٹجک ڈیفنس ایگریمننٹ) پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت ’کسی ایک ملک کے خلاف بیرونی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔‘ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے تاریخی حیثیت رکھتا ہے اس معاہدہ کے بعد نا صرف پاکستان براہ راست سعودیہ کا پارٹنر ہوگا بلکہ پاکستان پر عرب اسلامی ممالک کے اعتماد اور بھروسہ کی بھی عکاسی ہے۔
اب اس معاہدہ کے خدوخال اور اسکی ضرورت پر بات کرتے ہیں۔ اپنے ڈیجیٹل چینل پر ایک ویلاگ میں جب میں نے یہ بات کی کہ پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ تمام عرب ممالک کو یہ بات باور کروائے کہ پاکستان کے پاس اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ عرب ممالک کے دفاعی نظام اور انکے وسائل کے استعمال کے ساتھ ایک ایسا ورک فریم بنا سکتا ہے کہ امریکہ کا ایس ایچ او (اسرائیل) دوبارہ کسی عرب ملک پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔اس ویلاگ کہ بعد دفتر کے چند دوست اور چند مستقل ویورز نے تنقید شروع کی کہ پاکستان کسی بھی ایسے معاہدہ کا حصہ نہیں بنے گا اور کوئی عرب ملک پاکستان پر اتنا بھروسہ نہیں کرے گا۔ میں بہرحال اپنے موقف پر ڈٹا رہا اور میں اس بات پر بضد تھا کہ کچھ تو بڑا ہونے جا رہا ہے۔
خیر مجھ نا سمجھ اور نا تجربہ کار صحافی کو کیونکر کوئی سنجیدہ لیتا۔ اسی دن شام میں ایک بار پھر سے میرے جملہ چائے کہ کپ پر بحث کا موضوع بنی تو میں نے ایک بار پھر اپنے ویلاگ کے اگلے حصہ میں کی ہوئی بات دوہرائی کہ تمام عرب ممالک ایک چیز پر امریکہ کا ساتھ دیتے تھے اور وہ یہ تھی کی امریکہ انہیں دفاع فراہم کرتا تھا اور اسکے عوض انسے بھاری مقدار میں تیل کے ذخائر لیتا ہے تو پھر مجھے کہا گیا کہ کچھ لے کر ہی دے رہا نا لیکن میرے اگلہ سوال(دفاع تو ٹوٹ گیا نا جب ایس ایچ او نے قطر پر امریکہ کی آشورواد سے حملہ کیا) یہ کہہ کر شرف قبولیت بخشی کہ بحث کا وقت نہیں ہے کام کرنا ہے۔ اب میں یہ نہیں کہتا کہ اب سمجھ داروں کے پاس میری بات کا جواب نہیں تھا۔
بحرحال تمام عرب اسلامی مملک اس پریشر میں اپنی زندگی گزارتے تھے کہ امریکہ اور اسرائیل وہ واحد ممالک ہیں جو دنیا میں سوپر پاؤر ہیں اور کسی اسلامی ملک تو کیا غیراسلامی ملک میں بھی یہ ہمت نہیں کہ انکا مقابلہ کر سکے اور جب پاکستان کا ذکر کیا جاتا تھا تو پاکستان کو خطہ میں بھارت کی موجودگی میں نسبتاً کمزور ملک دیکھیا جاتا تھا اور یہ بتایا جاتا تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو خود خانہ جنگی کا شکار۔ ایک ایسا ملک ہے جسکی نا معیشت مستحکم ہے اور نا اس ملک میں سیاسی استحکام ہے۔ اب اس میں کسکا قصور ہے میں نام نہیں لینا چاہتا لیکن ایک اشارہ ہے کہ وہی لوگ تھے جو پاکستان کے ڈیفالٹ ہو جائے اور آج کل ایک نئی خواہش امڈ آئی ہے کہ پاکستان میں سری لنکا،نیپال یا بنگلہ دیش جیسے حالات ہو جائیں۔
امریکہ کا تسلط عرب ممالک پر آج کا نہیں ہے اسکی اصل بنیاد صدام حسین کو کویت میں شہید کرنے سے رکھی گئی اور آہستہ آہستہ تمام اسلامی لیڈرز جن کی طرف مسلم ممالک کسی بھی حالت میں دیکھ سکتے تھے شہید کرنا شروع کر دیا اور پاکستان میں ایسے حالات پیدا کرکے رکھے پاکستان اپنے اندورنی معاملات میں ہی پڑا رہے۔امریکہ نے سعودیہ عرب سمیت تمام متعدد عرب ممالک میں اپنی فوجیں داخل کر دیں اور ان تمام ممالک کو دفاع کہ نام پر یہ چورن بیچا کہ ہم آپکا دفاع کر رہے ہیں اور یہ لوگ یہ چورن نیمبو چھڑک کر کھاتے رہے کہ امریکہ ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔
ان تمام کی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ امریکہ اپنے ایس ایچ او کے ذریعہ اپنے دفاعی پارٹنر قطر پر حملہ کروا دے گا۔ امریکہ نے قطر کو تمام تر جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس کر کے رکھا لیکن ہولڈ اپنے ہاتھ میں رکھا اور قطر کو بندوق بغیر گولیوں کے پکڑا کر رکھی کہ صرف ڈرانے کہ کام آسکے جب میدان جنگ میں چلانے کی باری آئے تو بندوق میں سے صرف آوازیں نکلیں گولی نا نکلے۔
گزشتہ ہفتہ اسرائیل کے قطر پر حملہ کے بعد تمام عرب ممالک نے عرب اسلامی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا اور اس سمٹ میں پاکستان نے بھی شرکت کی۔اور پاکستان کے وزیراعظم اور فیلڈ مارشلء کو خاصہ پروٹوکول دیا گیا۔ پاکستان میں موجود کئی صحافی جنکا چیتا آجکل اقتدار سے باہر ہے ایکس اور یوٹیوب پر یہ انکشاف کرتے نظر آئے کہ شاید پاکستان کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔حیرانگی سے ذیادہ ایسے لوگوں پر افسوس ہوتا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم وفد کے ہمراہ قطر پہنچے تو بیشتر اسلامی ممالک کے سربراہان نے پاکستانی وفد کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔ اس سمٹ کے موقع پر پاکستان کے وزیراعظم اور سعودی فرماروا کے درمیان سمٹ سے الگ دو ملاقاتیں ہوئی اور سعودی فرماروا کی جانب سے پاکستان کے وزیراعظم کو سعودی عرب کے فوری دورے کی دعوت دی گئی۔ جسے وزیراعظم نے قبول کیا اور سعودی عرب وفد کے ہمراہ روانہ ہوگئے۔
وزیراعظم پاکستان سعودی حدود میں داخل ہوئے تو ایک ایسا منظر دیکھنے کو ملا جسکا تصور کسی نہ نہیں کیا تھا۔ پاکستان کے وزیراعظم کے استقبال کے ایف15-طیارے موجود تھے اور سعودی حدود میں داخل ہوتے طیاروں نے پاکستانی وفد کے جہاز کو اپنے حصار میں لے لیا۔ وزیر اعظم پاکستان کے کنگ خالد ائیر پورٹ، ریاض پہنچنے پر ریاض کے نائب گورنر محمد بن عبد الرحمن بن عبد العزیز، پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی، پاکستان کے سعودی عرب میں سفیر احمد فاروق اور اعلیٰ سفارتی حکام نے وزیراعظم اور پاکستانی وفد کا پرتپاک استقبال کیا، وزیرِ اعظم کی ریاض آمد پر پورے شہر میں سبز ہلالی پرچم لہرائے گئے۔اس موقع پر وزیرِ اعظم کو 21 توپوں کی سلامی اور سعودی عرب کی افواج کے چاک و چوبند دستے نے سلامی پیش کی۔ وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے لیے سعودی شاہی دیوان قصر یمامہ پہنچے جہاں وزیرِ اعظم کا سعودی شاہی پروٹوکول کے ساتھ گھڑ سواروں نے استقبال کیا۔ وزیراعظم کو سعودی مسلح افواج کے دستوں نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔
جب پاکستان کے وزیر اعظم کو ایسا پروٹوکول ملا تو سب ششدر رہ گئے کہ ایسا کیا ہونے جارہا ہے۔ پاکستان کو حرمین شریفین کے دفاع کی ذمہ داری مل گئی۔ پاکستان اور سعودیہ کا یہ معاہدہ تمام ممالک بشمول بھارت کے لیے حیرت کا باعث تھا۔ بھارتی صفحوں میں ایک پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔ پاکستان کو یہ معاہدہ اسلیے بھی ملا کہ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے اور امریکی ایس ایچ او پاکستان پر حملہ کرنے سے پہلے ایک سو بار سوچے گا۔ اور جب پاکستان کو ایٹمی طاقت ہونے پر اتنی عزت مل رہی تو اس موقع پر پاکستان کو ایٹمی ملک بنانے کا خواب دیکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو، اس خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے والے ڈاکٹر عبدالقریر خان اور انکی ٹیم اور ایٹمی دھماکہ کرنے والے میاں نواز شریف کا پوری قوم کو شکریہ ادا کرنا چاہیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنکی وجہ سے ہمیشہ سے پاکستان کا دفاع مضبوط رہا۔کوئی بھی ملک خواہ وہ امریکہ کا ایس ایچ او یہ کیوں نا ہو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے سے پہلے کئی بار سوچتا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کا یہ دفاعی اشتراک دراصل خطے میں طاقت کے نئے توازن کا اعلان ہے۔ یہ معاہدہ صرف کاغذی نہیں بلکہ ایک عملی یقین دہانی ہے کہ اگر امت مسلمہ پر کوئی وار ہوگا تو پاکستان اس کے دفاع میں سب سے آگے کھڑا ہوگا۔ آج کا دن پاکستان کی سفارتکاری، دفاعی صلاحیت اور عوامی قربانیوں کی جیت کا دن ہے۔ یہ لمحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خواب، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی محنت اور میاں نواز شریف کے جرات مندانہ فیصلے نے پاکستان کو اس مقام تک پہنچایا جہاں آج پوری دنیا پاکستان کو ایک ناقابلِ تسخیر دفاعی قوت تسلیم کر رہی ہے۔

جواب دیں

Back to top button