چائے پانی

چائے پانی
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت زیادہ مہمان نواز تھے۔ اور بغیر مہمان کے کھانا نہیں کھاتے تھے۔ قرآن پاک کی سورہ الحجر کی آیت 51میں اللّٰہ تعالیٰ آپٌ کے مہمانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کہ ’’ اور انہیں ابراہیمٌ کے مہمانوں کا حال سنائو‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معمول تھا کہ کبھی تنہا کھانا نہ کھاتے، بلکہ ہر کھانے کے وقت تلاش کرتے تھے کہ کوئی مہمان آجائے تو اس کے ساتھ کھائیں۔ ایک روز کھانے کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مہمان کی تلاش شروع کی۔ تو ایک اجنبی آدمی ملا۔ جب وہ کھانے پر بیٹھا تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ بسم اللّٰہ کہو، اس نے کہا کہ میں جانتا نہیں، اللّٰہ کون اور کیا ہے ؟ ابراہیم علیہ السلام نے اس کو دسترخوان سے اٹھا دیا، جب وہ باہر چلا گیا۔ تو جبریل امینٌ آئے اور کہا کہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں، کہ ہم نے تو اس کو کفر کے باوجود ساری عمر رزق دیا۔ اور آپٌ نے ایک لقمہ دینے میں بھی بخل کیا۔ یہ سنتے ہی ابراہیم علیہ السلام اس کے پیچھے دوڑے اور اس کو واپس بلایا۔ اس نے کہا کہ جب تک آپٌ اس کی وجہ نہ بتلائیں گے، کہ پہلے کیوں مجھے نکالا تھا اور اب پھر کیوں بلا رہے ہیں۔ میں اس وقت تک آپٌ کے ساتھ نہیں جائوں گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے واقعہ بتلا دیا۔ تو یہی واقعہ اس کے مسلمان ہونے کا سبب بن گیا۔ اس نے کہا کہ وہ رب جس نے یہ حکم بھیجا ہے، بڑا کریم ہے۔ میں اس پر ایمان لاتا ہوں۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ گیا اور مومن ہو کر باقاعدہ بسم اللّٰہ پڑھ کر کھانا کھایا۔۔۔
ایک عورت کا شوہر ہر وقت کسی نہ کسی مہمان کو گھر لے آتا اور اپنی بیوی سے کہتا۔ ان کے لیے کھانے کا انتظام کرو۔ روزانہ وہ مہمان کے لیے کھانا تیار کرتی، آخر کار وہ روز کے معمول سے تنگ آگئی اور ایک دن رسولؐ اللّٰہ کے پاس گئی۔ اور کہنے لگی۔ یا رسولؐ اللّٰہ، میرا شوہر روزانہ کسی مہمان کو گھر لے آتا ہے۔ اور میں کھانے بنا کر تھک جاتی ہوں، کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ میرا شوہر گھر میں مہمان نہ لائے، اس وقت نبی پاکؐ خاموش رہے اور وہ عورت نبی پاکؐ کی خاموشی دیکھ کر گھر واپس آگئی۔ اگلے دن نبیؐ نے اس عورت کے شوہر کو بلایا اور کہا۔ کل میں تمہارا مہمان ہوں، وہ آدمی بہت خوش ہوا اور آکر اپنی بیوی کو بتایا کہ آج نبی پاکؐ ہمارے مہمان بن کے آئیں گے، اس کی بیوی بہت خوش ہوئی اور جلدی سے اچھے اچھے کھانے بنانے لگی، جب نبی پاکؐ اس عورت کے گھر آئے۔ تو نبی پاکؐ نے اس کے شوہر سے کہا۔ جب میں کھانا کھا کر واپس جانے لگوں تو اپنی بیوی سے کہنا۔ میرے گھر سے نکلنے تک پیچھے دیکھتی رہے، اس کی بیوی نے ایسا ہی کیا۔ جب نبی پاکؐ واپس جانے لگے تو اس عورت نے کیا دیکھا کہ رسولؐ کے ساتھ بچھو، سانپ اور کیڑے مکوڑے سب ساتھ جا رہے ہیں، وہ یہ منظر دیکھ کر بے ہوش ہوگئی۔ اگلے دن وہ پھر نبی پاکؐ کے پاس گئی۔ تو نبی پاکؐ نے اس عورت کو بتایا، کہ ’’ مہمان اپنا نصیب خود لے کر آتا ہے، اور جو مہمان کے لیے محنت کی جاتی ہے، اس کے بدلے جب وہ واپس جاتا ہے۔ تو اپنے ساتھ اس گھر سے ساری بلائوں کو لے جاتا ہے‘‘۔
ایک دن ایک غریب مسافر مدینہ آیا اور مسجد نبویؐ میں پہنچا۔ وہ بہت بھوکا تھا اور رسولؐ اللّٰہ سے کھانے کی درخواست کی۔ نبی کریمؐ نے اپنے گھر پیغام بھیجا، لیکن گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ تب نبیؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا۔ ’’ کون ہے جو آج رات اس مسافر کی مہمان نوازی کرے گا ؟‘‘، حضرت ابو طلحہ رضی اللّٰہ عنہ نے فوراً کہا۔ ’’ یا رسولؐ اللّٰہ، ہم کریں گے‘‘، وہ مسافر کو اپنے گھر لے گئے، مگر گھر میں اتنا کھانا نہیں تھا، کہ سب کھا سکیں۔ حضرت ابو طلحہؓ کی بیوی نے کہا۔ ’’ ہم چراغ بجھا دیں گے، اور ایسے ظاہر کریں گے۔ جیسے ہم نے کھا لیا، تاکہ مہمان پیٹ بھر کر کھا سکے‘‘۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، اور مہمان آرام سے کھا کر سو گیا۔ اگلی صبح جب حضرت ابو طلحہ رضی اللّٰہ عنہ نبیؐ کے پاس پہنچے، تو آپؐ نے خوش ہو کر فرمایا۔ ’’ اللّٰہ تعالیٰ تم دونوں سے راضی ہوگیا، اور تمہاری اس مہمان نوازی پر وحی نازل ہوئی ہے‘‘۔ پھر سورہ حشر کی یہ آیت ارشاد فرمائی۔’’ وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، چاہے خود ضرورت مند ہوں‘‘۔
نبی اکرمؐ نے مہمان کی عزت و تکریم کو ایمان کی علامت قرار دیا ہے.آپؐ نے یہ بھی فرمایا۔ ’’ یقینا تیرے مہمان کا تجھ پر بڑا حق ہے‘‘۔
موجودہ زمانے میں ہمارے معاشرے میں ایک کپ چائے یا ایک چھوٹی سی پانی کی بوتل کی مادی قیمت زیادہ نہیں۔ چائے دکان پر سو روپے کی مل جاتی ہے اور پانی کی بوتل پچاس روپے کی۔ لیکن یہی عام سی چیزیں جب خلوص اور عزت کے ساتھ کسی مہمان کو پیش کی جائیں تو ان کی قیمت انمول ہو جاتی ہے۔ مہمان نہ صرف برسوں ان لمحات کو یاد رکھتا ہے، بلکہ اپنے گھر والوں، بچوں، رشتے داروں حتیٰ کہ دوستوں میں بھی تذکرہ کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے دل کو عزت ملی ہوتی ہے۔ کوئی کسی کے کھانے پینے کا بھوکا نہیں۔ ویسے بھی نہ تو کوئی ہر دِن کسی کے ہاں جاتا ہے۔ اور ما سوائے چند بڑے دِل والوں کے نہ ہر کوئی ہر دِن کسی کو کھلانے پلانے کا دل رکھتا بھی ہے۔
اصل مہمان نوازی کبھی قیمتی کھانوں اور بھاری بھرکم دعوتوں میں نہیں چھپی، بلکہ یہ میزبان کے ظرف اور کشادہ دلی کی عکاس ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ اپنی بیٹھک صرف بڑے لوگوں کے لیے کھولتے ہیں۔ ان کے نزدیک وہی مہمان اہم ہیں، جن کے پاس عہدہ، دولت یا شہرت ہو۔ جبکہ کوئی غریب انسان اگر دروازہ کھٹکھٹائے تو اسے یا تو نظرانداز کر دیا جاتا ہے یا حقیر جانا جاتا ہے۔
یہ رویہ دراصل تکبر اور اخلاقی پستی کی علامت ہے۔ بڑے لوگوں کو خوش کر کے وقتی فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں، مگر غریب کی دعا اور دل سے نکلی ہوئی نیک تمنا ایسی دولت ہے جسے کوئی خرید نہیں سکتا۔ اللّٰہ کے نزدیک عزت دار وہی ہے جو دوسروں کو عزت دیتا ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب۔
چائے اور پانی کا اصل تقاضا یہی ہے کہ یہ سب کے لیے برابر ہوں۔ مہمان نوازی میں تفریق دراصل اپنے ظرف کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اصل شان اور اصل بڑائی غریب کو گلے لگانے اور عام انسان کو عزت دینے میں ہے، نہ کہ بڑے لوگوں کے آگی دست بستہ کھڑے ہونے میں ہے۔
مہمان نوازی اعلیٰ انسانی قدر اور معاشرتی اقدار کا مظہر ہے جو محبت، بھائی چارہ اور مثبت سماجی ماحول کو فروغ دیتی ہے۔ اسلام میں مہمان نوازی ایک اہم دینی فریضہ ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے، جسے سنت رسولؐ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مہمان نوازی کے آداب میں پرتپاک استقبال، مہمان کی عزت و احترام، کھانا کھلانا، اس کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا اور جاتے ہوئے دروازے تک الوداع کہنا شامل ہے۔ مہمان نوازی سے معاشرے میں محبت، اتحاد، اور خوشحالی کو فروغ ملتا ہے۔ افسوس کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدریں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں۔ اور مہمان کی آمد کو زحمت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی جگہ دنیاوی مفاد پر مبنی مہمان نوازی فروغ پا رہی ہے۔





