جہاں خدمت وہاں الخدمت فائونڈیشن

جہاں خدمت وہاں الخدمت فائونڈیشن
کالم : فرید رزاقی
کچھ دن پہلے مجھے پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کے وفد کے ساتھ جنوبی پنجاب کے ان علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا جہاں حالیہ سیلاب نے سب کچھ اجاڑ کر رکھ دیا تھا۔ ہم جلال پور پیروالا اور علی پور گئے اور وہاں وہ مناظر دیکھے جنہیں لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ میرے ساتھ فرخ شہباز وڑائچ، مدثر شیخ، ساجد خان، حافظ ذوہیب طیب، سومی بابو اور نورالہدیٰ جیسے احباب تھے۔ ہم سب نے یہ محسوس کیا کہ اگر بروقت انتظامات کیے جاتے تو یہ تباہی اس قدر خوفناک نہ ہوتی۔
یہ وہ علاقے تھے جہاں کل تک ہرے بھرے کھیت لہلہاتے تھے اور جہاں سے پورے ملک کے لیے اناج اگتا تھا۔ وہی کسان جو دوسروں کے دسترخوان آباد رکھتے تھے، آج خود بھوک اور پیاس کے مارے در بدر تھے۔ کل تک جو ہاتھ زمین کو سونا بناتے تھے، آج خالی پیالے لیے مدد کے طلب گار تھے۔ بچوں کی آنکھوں میں خوف اور عورتوں کے چہروں پر مایوسی رقم تھی، جبکہ بزرگ اپنی ٹوٹی جھونپڑیوں کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ یہ سب دیکھ کر دل کٹ کر رہ جاتا تھا۔
میں سوچتا رہا کہ اس قوم نے اپنے محسنوں کو کس حال میں چھوڑ دیا ہے۔ یہ کسان اور یہ عوام اب صرف ہمدردی نہیں بلکہ عملی اقدامات کے مستحق ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ انہیں کم از کم ایک سال کے لیے مفت بجلی فراہم کرے اور بلاسود قرضے دے تاکہ وہ دوبارہ اپنے کھیت آباد کر سکیں۔ ایک جامع ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جائے جو حقیقی معنوں میں ان کی ضروریات پوری کرے۔ جس طرح ماضی میں شہباز شریف نے سائنسی بنیادوں پر فلڈ اسیسمنٹ کر کے نقصانات کا تخمینہ لگایا تھا، آج بھی اسی طرح شفافیت کے ساتھ کام ہونا چاہیے۔ پورے علاقے کو آفت زدہ قرار دے کر ہر قسم کے ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے۔ کسانوں کو بیج اور کھاد پر سبسڈی فراہم کی جائے تاکہ وہ دوبارہ کھڑے ہو سکیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امداد کو امانت سمجھ کر براہِ راست مستحقین تک پہنچایا جائے۔
اس تباہی کے مناظر میں ایک روشنی کی کرن بھی دکھائی دی، اور وہ تھی الخدمت فائونڈیشن۔ جب ہم نے جلال پور پیر والا کی الخدمت خیمہ بستی کا دورہ کیا تو وہاں زندگی کی رمق نظر آئی۔ تقریباً تین سو خیمے لگے ہوئے تھے۔ مردوں اور عورتوں کے لیے الگ واش رومز بنائے جا رہے تھے۔ ایک بڑا اسٹیٹ آف دی آرٹ کچن اور موبائل کچنز متاثرین کے لیے کھانا تیار کر کے دور دور تک پہنچا رہے تھے۔ ایک موبائل ہیلتھ یونٹ موجود تھا جس میں کوالیفائیڈ ڈاکٹرز خدمات انجام دے رہے تھے، یہاں تک کہ الٹراسائونڈ اور ایکسرے کی سہولت بھی دستیاب تھی۔ اس کے ساتھ الخدمت کے موبائل واٹر فلٹریشن پلانٹس متاثرہ عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کر رہے تھے، جو اس تباہی میں کسی نعمت سے کم نہ تھا۔
خیمہ بستی میں بچوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ ان کے لیے ایک ٹینٹ اسکول قائم کیا گیا تاکہ تعلیم کا سلسلہ نہ ٹوٹے، جبکہ ان کی مسکراہٹ واپس لانے کے لیے ایک پلے لینڈ بھی بنایا گیا۔ یہ منظر دیکھ کر دل کو تسلی ملی کہ کسی نے ان معصوموں کے خوابوں کو زندہ رکھنے کا سوچا۔ الخدمت کے رضاکاروں کی پیشہ ورانہ تربیت اور پورے ملک میں پھیلا ہوا نیٹ ورک اس بات کا ثبوت تھا کہ یہ محض وقتی امداد نہیں بلکہ ایک مربوط نظام ہے۔
اکرام الحق سبحانی، صدر الخدمت وسطی پنجاب اور سربراہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ، نے ہمیں بتایا کہ یہ کام ان کے نزدیک ایک فرض ہے۔ ان کے رضاکار نہ صرف پاکستان کے ریسکیو اداروں سے ٹریننگ یافتہ ہیں بلکہ اقوامِ متحدہ سمیت دیگر اداروں کے تربیتی پروگراموں سے بھی گزرے ہیں۔ اسی لیے ان کا ریلیف آپریشن موثر اور منظم نظر آتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ الخدمت امداد کو بطورِ امانت سمجھ کر پہنچاتی ہے اور شفافیت کو اولین ترجیح دیتی ہے۔
البتہ وہاں ایک تلخ حقیقت بھی سامنے آئی کہ عوام الناس کو بھی میچورٹی دکھانی چاہیے۔ بعض اوقات لوگ جعلی بہانے بنا کر کشتی یا سامان لے جاتے ہیں اور جب وہاں پہنچتے ہیں تو سچ کچھ اور نکلتا ہے۔ اس طرح کی دھوکے بازی نہ صرف امدادی عمل کو متاثر کرتی ہے بلکہ دوسرے مستحقین کا حق بھی مار دیتی ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیجیے، کیونکہ اس رویے سے مستحق لوگ ہمیشہ کے لیے امداد سے محروم رہ سکتے ہیں۔
میری رائے ہے کہ اگر حکومت، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور الخدمت جیسی این جی اوز ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر شفافیت، تربیت یافتہ رضاکاروں اور عوامی شعور کے ساتھ کام کریں تو ریلیف کی فراہمی کئی گنا موثر ہو سکتی ہے۔ جو لوگ ذاتی طور پر سامان دینا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اپنی نیت کے ساتھ طریقہ کار کو بھی درست رکھیں اور امداد معتبر اداروں کے ذریعے پہنچائیں۔
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے دل سے محسوس کیا کہ پاکستان میں جہاں خدمت ہے، وہاں الخدمت کی روشنی نمایاں ہے۔ مگر چونکہ تباہی اتنی بڑی ہے کہ اسے چند اداروں کی کوششوں تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ کام تبھی مکمل ہوگا جب حکومت، تنظیمیں اور عوام سب مل کر ایمانداری، شعور اور سنجیدگی کے ساتھ کردار ادا کریں۔ تبھی وہ دن لوٹیں گے جب کھیت دوبارہ لہلہائیں گے، بچے ہنسیں گے اور یہی کسان ایک بار پھر اپنے خونِ پسینے سے قوم کا پیٹ بھریں گے۔





