نیتن یاہو نے دنیا کو آئینہ دکھادیا

نیتن یاہو نے دنیا کو آئینہ دکھادیا
امتیاز احمد شاد
اسرائیل نے دنیا کو براہِ راست نہیں بلکہ بالواسطہ طور پر اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے، اور یہ کنٹرول تین بڑے ستونوں پر کھڑا ہے۔ علم و ٹیکنالوجی، معیشت و مالیات، اور سیاسی و میڈیا لابیز۔ ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود اسرائیل جدید موبائل ٹیکنالوجی، سائبر سکیورٹی، میڈیکل ریسرچ اور زرعی ایجادات کے ذریعے دنیا کو اپنے علم پر انحصار کرنے پر مجبور کر چکا ہے۔ ڈرپ اریگیشن، جینیاتی انجینئرنگ اور ہائی ٹیک گرین ہائوسز نے خوراک کی عالمی منڈیوں پر اس کا اثر بڑھا دیا ہے، جبکہ دفاعی صنعت اور جدید ہتھیاروں کی فراہمی نے اسے اسٹریٹجک اہمیت دی ہے۔ دوسری طرف مغربی میڈیا، ہالی وڈ اور مالیاتی اداروں میں یہودی لابی کے اثر نے عالمی بیانیے اور پالیسی سازی کو اسرائیل کے حق میں موڑ رکھا ہے۔ خصوصاً امریکہ اور یورپ میں طاقتور لابیز ( جیسے اے آئی پی اے سی) کے ذریعے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین سمیت عالمی سیاست کے اہم مسائل پر اسرائیل کا موقف اکثر غالب دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح اسرائیل نے چھوٹے رقبے اور محدود آبادی کے باوجود اپنی ذہانت، سائنسی ترقی اور حکمت عملی کے ذریعے دنیا کے معاشی، سیاسی اور فکری دھارے پر نمایاں کنٹرول قائم کر لیا ہے۔
حالیہ دنوں میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک بیان دیا جس نے پوری دنیا میں بحث چھیڑ دی۔ ان کا کہنا تھا، جس کسی کے پاس بھی موبائل فون ہے، اس کے ہاتھ میں اسرائیل کا ایک ٹکڑا ہے۔ آپ ٹماٹر کھاتے ہیں؟ وہ بھی اسرائیل سے آتے ہیں۔ یہ بیان محض ایک سیاسی جملہ نہیں بلکہ اسرائیل کی سائنسی، ٹیکنالوجیکل اور زرعی ترقی کی حقیقتوں کو اجاگر کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات مبالغہ آرائی ہے یا واقعی دنیا کی معیشت اور روزمرہ زندگی میں اسرائیل نے اتنا گہرا اثر ڈال دیا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امت مسلمہ کی علمی و تحقیقی پسماندگی اس کے مقابلے میں کہاں کھڑی ہے؟ اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ پاکستان کے ایک چھوٹے صوبے کے برابر بھی نہیں، لیکن عالمی سطح پر یہ ٹیکنالوجی کی طاقت مانا جاتا ہے۔ دنیا میں استعمال ہونے والی جدید سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی، کمپیوٹر چِپس اور سافٹ ویئر میں اسرائیلی کمپنیوں اور انجینئروں کا نمایاں کردار ہے۔ انٹیلی، مائیکرو سافٹ اور ایپل جیسی بڑی کمپنیوں کی ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ ٹیمیں اسرائیل میں کام کر رہی ہیں۔ آج کی ڈیجیٹل دنیا میں سائبر سکیورٹی سب سے بڑی ضرورت ہے، اور اسرائیل اس شعبے میں دنیا کے چند بڑے لیڈرز میں شامل ہے۔کینسر ریسرچ، روبوٹک سرجری، اور ادویات کی تیاری میں اسرائیل عالمی سطح پر اہم حیثیت رکھتا ہے۔
جب نیتن یاہو یہ کہتا ہیں کہ ’’ موبائل فون میں اسرائیل کا ٹکڑا ہے‘‘، تو یہ بالکل مبالغہ نہیں۔ کیونکہ بیشتر جدید موبائل ٹیکنالوجیز میں اسرائیلی اختراعات براہِ راست یا بالواسطہ طور پر شامل ہیں۔ اسرائیل کا زیادہ تر علاقہ بنجر اور صحرائی ہے۔ پانی کی قلت یہاں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن انہوں نے اسی چیلنج کو اپنی طاقت بنا رکھا ہے۔ ڈرپ اریگیشن سسٹم پانی کے قطرے قطرے کو پودوں تک پہنچانے والا جدید نظام اسرائیل کی ایجاد ہے، جو آج دنیا کے سو سے زائد ممالک میں استعمال ہو رہا ہے۔ ہائی ٹیک گرین ہاوسز ناموافق موسم کے باوجود جدید گرین ہائوس ٹیکنالوجی کی بدولت اسرائیل پھل اور سبزیاں دنیا بھر کو ایکسپورٹ کرتا ہے۔ اسرائیل نے جینیاتی انجینئرنگ اور ریسرچ کے ذریعے ایسی سبزیوں اور پھلوں کی اقسام متعارف کرائی ہیں جو زیادہ پیداوار دیتی ہیں اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو نے فخر سے کہا کہ آپ کے ٹماٹر بھی ہم سے آتے ہیں۔ یہ تمام ترقی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگر کوئی قوم علم اور تحقیق کو اپنا شعار بنائے، تو وہ صحرا میں بھی ہریالی پیدا کر سکتی ہے۔ اب ذرا امت مسلمہ کی طرف دیکھیے۔ قرآن مجید میں بار بار غور و فکر، علم حاصل کرنے اور تحقیق کی دعوت دی گئی ہے، لیکن عملی طور پر ہم دنیا کے پسماندہ ترین خطوں میں شمار ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کی سائنسی ریسرچ میں مسلم دنیا کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ہم مسلم ممالک کی شائع شدہ ریسرچ پیپرز کا تناسب دیکھیں تو یہ دنیا کا بمشکل پانچ فیصد ہے۔
ہمارے بیشتر ممالک اپنی دفاعی اور معاشی ضروریات کے لیے مغربی یا غیر مسلم ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ہمارے پاس زرخیز زمینیں اور دریاں کے جال ہیں، ہماری زرعی پیداوار جدید ٹیکنالوجی کے فقدان کی وجہ سے ہم حقیر بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ صورتحال امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ وسائل رکھنے کے باوجود ترقی کے اس سفر میں کیوں پیچھے رہ گئی ہے۔ اسرائیل اپنی جی ڈی پی کا بڑا حصہ تعلیم اور ریسرچ پر خرچ کرتا ہے جب کہ ہم تعلیمی ادارے بند کر کے فخر کرتے ہیں کہ ہم نے اتنی بچت کر لی۔ نیتن یاہو کا بیان دراصل امت مسلمہ کے لیے ایک چیلنج ہے۔ یہ صرف اسرائیل کی تعریف نہیں بلکہ ہماری کمزوریوں کا پردہ بھی چاک کرتا ہے۔ اگر اسرائیل ٹیکنالوجی میں دنیا کو لیڈ کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟ اگر وہ صحرا میں زراعت کے معجزے دکھا سکتے ہیں تو ہم اپنی زرخیز زمینوں سے بھرپور فائدہ کیوں نہیں اٹھا پاتے؟ اگر وہ چھوٹے سے ملک کے باوجود عالمی سیاست و معیشت پر اثرانداز ہو سکتے ہیں تو ہم ڈیڑھ ارب مسلمان کیوں کمزور اور غیر موثر ہیں؟ اگر امت مسلمہ واقعی دنیا میں باعزت مقام حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے صرف نعرے اور جذبات پر نہیں بلکہ علم و تحقیق پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ جو قومیں مخلص اور وژن رکھنے والی قیادت پیدا کرتی ہیں، وہی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔
نیتن یاہو کا بیان ایک حقیقت کا عکاس ہے۔ چاہے ہمیں اچھا لگے یا برا، اسرائیل آج ٹیکنالوجی اور زراعت کے میدان میں دنیا کی طاقتور قوموں میں شامل ہے۔ اس کے مقابلے میں امت مسلمہ خوابِ غفلت میں ہے۔ یہ لمحہ ہے کہ ہم اپنے حال پر غور کریں اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل طے کریں۔ اگر ہم نے علم، ریسرچ اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں قدم نہ رکھا تو ہم مزید پیچھے رہ جائیں گے۔ لیکن اگر ہم نے عزم کر لیا تو ہمارے پاس وسائل بھی ہیں اور صلاحیت بھی کہ ہم دوبارہ دنیا کی قیادت کر سکیں۔





