اپنے پائوں پر کلہاڑا

اپنے پائوں پر کلہاڑا
کالم : صورتحال
تحریر: سیدہ عنبرین
دو برس سے جاری اسرائیلی دہشتگردی کے خاتمے کیلئے، قیام اسرائیل کیلئے بنائے گئے امریکی و اسرائیلی منصوبے کو امن منصوبے کا نام دیا گیا حالانکہ یہ فلسطین ہڑپ کرنے کا منصوبہ تھا، بیشتر مسلم ممالک ان مذاکرات کے حق میں تھے، وہ یقیناً نیک نیت تھے کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کے خون سے کھیلی جانیوالی ہولی ختم ہو، اس منصوبے پر اگر مذاکرات کسی انجام کو پہنچ جاتے تو یہ امریکہ اور اسرائیل کی جیت ہوتی، اس میں مسلمانوں اور فلسطینیوں کیلئے فتح کا کوئی پہلو نہ ہوتا، لاکھوں افراد کی شہادت کے بعد اس منصوبے کو قبول کرنے سے بہتر ہوتا کہ آج سے پچاس برس قبل ہی سر جوڑ کر بیٹھ جاتے اور اس قسم کا حل قبول کر لیتے، پچاس برس موقف رہا کہ فلسطین اہل فلسطین کا ہے یہودیوں کا نہیں، رفتہ رفتہ اس موقف میں تبدیلی آنے لگی اور مسلم ممالک ہی ملکر فلسطینیوں کو سمجھانے لگے کہ اس خطہ ارض کو بانٹ لیں۔
اس منصوبے کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ملک طاقت کے زور پر کسی علاقے پر قبضہ کر لے اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنا قبضہ مضبوط کر لے، مقامی افراد کو کچلنے پر قادر ہو جائے تو کچھ عرصہ بعد اس کی طاقت سے مرعوب ہو کر اسے اس خطہ ارض میں حصہ دے دیا جائے۔
امن منصوبے پر مذاکرات کے دوران قطر پر اسرائیل حملے کے بعد مسلم اور غیر مسلم دنیا سے اس کی مذمت شروع ہوئی۔ خیال کیا جارہا تھا کہ اس انتہائی قدم کا منہ توڑ جواب دیا جائیگا، جواب دینے سے قبل تمام مسلم ممالک سے مشاورت ضروری سمجھی گئی، لیکن قطر اجلاس کا نتیجہ ہمیشہ کی طرح اس قسم کی ایمرجنسی میں بلائے گئے اجلاسوں کی طرح صفر نکلا، قطر سے صفر نکلنے کے بعد مسلمانوں کی پوزیشن کو جو دھچکا پہنچا ہے۔ مسلم دنیا بھی اس پر غور کرنے کے قابل نہیں ہوئی کیفیت وہی ہے جو کسی کی موت کا منتظر دیکھنے کے بعد ہوتی ہے۔ حالانکہ ابھی فرشتہ اجل نہیں آیا، اس نے صرف عندیہ دیا ہے کہ وہ کسی بھی وقت کسی بھی سر پر سوار ہو سکتا ہے۔
مسلم دنیا کو اس تراشیدہ کہانی سے نکل آنا چاہیے کہ اسرائیلی جہاز کہاں سے فضا سے بلند ہوئے، انہوں نے فضا میں کس سے مزید ایندھن حاصل کیا، وہ کسی مسلم ملک کی سرحد عبور کر کے قطر پر یلغار کر گئے یا کئی سو کلو میٹر دور سے میزائل فائر کر کے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے، اس بات پر بھی خوش ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کہ حماس کی حقیقی قیادت حملے میں محفوظ رہی، جب راکٹ یا میزائل اس عمارت تک پہنچ گئے تو حملہ آور نے اپنا ہدف حاصل کر لیا، اگر اس میں کچھ جانیں محفوظ رہی ہیں تو بات صرف اتنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے ان کے سانس ابھی باقی تھے۔
حملے کی تفصیلات سامنے آنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذاکرات میں شریک افراد سیل فون استعمال کر رہے تھے۔ ان کے سگنلز حملہ آور جہازوں کو راستہ ڈھونڈنے میں معاون ثابت ہوئے، مذاکرات کے دوران نماز کا وقت ہوا تو شرکا نے اپنے فون وہیں چھوڑ دئیے اور نماز کی ادائیگی کیلئے کچھ فاصلے پر چلے گئے، اس طرح وہ ہلاکت سے بچ گئے۔ حملہ آوروں کا نشانہ پرفیکٹ تھا، یاد رہے موبائل فون کے سگنلز کے ذریعے موت کو تلاش کرنا یا اس تک پہنچ جانا کوئی نئی ٹیکنالوجی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے، اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ایرانی قیادت کو متعدد بار نشانہ بنایا گیا، مگر قطر مذاکرات میں یہ بے احتیاطی ہو گئی، کسی نے اس جانب دھیان نہ دیا۔
ایک اور حقیقت سے توجہ ہٹانے کیلئے بے کار کی بحثیں چھڑی گئی ہیں تاکہ توجہ قطر میں موجود امریکی فوجی اڈے کی طرف نہ جائے۔ یہ فوجی اڈہ امریکہ کے جدید ترین آلات سے آراستہ اور وسیع ترین فوجی اڈوں میں سے ایک ہے، جہاں ایسے آلات نصب ہیں جو کئی سو کلو میٹر سے اپنی طرف بڑھنے والے ہوائی جہازوں، بحری جہازوں، آبدوزوں، میزائلوں اور راکٹوں کی بروقت خبر رکھتے ہیں، بلکہ انہیں جوابی حملہ کر کے ہدف سے بہت دور تباہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، ذرائع بتاتے ہیں اور پوچھتے ہیں جب اسرائیلی حملہ ہوا تو یہ نظام کیا کر رہا تھا، کیا اس کا سوئچ آف کر دیا گیا تھا۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اسرائیلی جہازوں کو کہیں بہت دور سے پرواز کر کے آنے کی ضرورت نہیں تھی، اس بات کے شواہد سامنے آ رہے ہیں کہ حملہ آور طیاروں نے اسی امریکی اڈے سے پرواز کی اور اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد اسی ہوائی اڈے پر لینڈ کر گئے، مزید برآں حملہ آور طیارے امریکہ کے ہوں یا اسرائیل کے، ان پر یہ نہیں تحریر ہوتا کہ’’ بس کس کمپنی کی ہے‘‘، اس کا روٹ کیا ہے، حملہ آور جہازوں کو فضا میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ تھا کہ انہیں گرانے کیلئے قطری فضائیہ کا کوئی جہاز وہاں آسکتا ہے، پس وہ اطمینان سے آئے اور اطمینان سے واپس چلے گئے، بے اطمینانی تو اس وقت ہوتی جب انہوں نے کئی ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا ہوتا، قطر پر حملے کے وقت فضا میں ایک جدید ترینA۔I تھنڈر بولٹ طیارہ مسلسل موجود رہا، جو دراصل نگرانی کے علاوہ حملہ آور طیاروں کو کور بھی مہیا کر رہا تھا، یہ جہاز امریکی تھا اور اس نے اسی اڈے سے پرواز کی تھی، قطر پر کامیاب حملے اور دوحہ میں اجلاس کے بعد ایک ہومیو پیتھک اعلامیے کے جاری ہونے کے بعد نیتن یاہو کی طرف سے دھمکیوں میں شدت آ گئی ہے، اس نے پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئی کہا ہے کہ جو ملک دہشتگردوں کیلئے پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں ان کی خود مختاری کی کوئی حیثیت نہیں، ہم جہاں دہشتگردوں کو دیکھیں گے وہاں انہیں نشانہ بنائیں گے، پاکستانی وزیر دفاع کا ایک بیان یاد کرنے کی ضرورت ہے۔
اسامہ بن لادن کو جس انداز میں پاکستان سے برآمد کرایا گیا، اس روز اس مفروضے کی بنیاد رکھ دی گئی تھی کہ طاقتور ملک اپنے دشمن کو کسی بھی دوسرے ملک کے اندر گھس کر نشانہ بنا سکتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی دھمکیوں کا رخ ترکیہ اور پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران کی طرف ہے۔
دوحہ اجلاس کے اعلامیے سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مسلمان ملک اس حملے کے بعد بھی کسی ایک نکتے، ایک لائحہ عمل، ایک جیسے ردعمل اور ایک جیسے منہ توڑ جواب دینے پر متفق نہیں ہو سکے، اس کی صرف اور صرف وجہ خوف کا حصار ہے، جس میں گھرے ہر ملک کے سامنے ایک سوال ہے کہ اس کا کیا بنے گا، حالانکہ وقت کا تقاضا ہے کہ مشترکہ سوچ اور لائحہ عمل کے تحت اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے متعدد مرتبہ یہ کہا گیا کہ انہیں اس حملے کا فقط چند منٹ قبل علم ہوا اور دنیا ان کی اس بات پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ قطر کی طرف سے واضح کیا گیا کہ جب حملہ شروع ہوچکا تو اس وقت ٹرمپ کا فون آیا، یہ سچ اپنی جگہ بہت اہم ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے دراصل مسلم امہ اور قطر کو مزید اندھیرے میں رکھ کر اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے۔ مسلمان ممالک اگر اس جھانسے میں آگئے تو پھر انہیں ایک اور بڑے واقعے، ایک بڑے حادثے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔
دوحہ میں کمزور موقف سامنے آنے پر اسرائیل اور امریکہ کو یقین ہو گیا ہے مسلم ممالک کے پلے کچھ نہیں ہے، یہ ترنوالہ ہیں، مسلمان ملکوں نے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی نہیں، کلہاڑا چلا دیا ہے۔





