میڈیکل کالجز کے طلبہ کی مشکلات

میڈیکل کالجز کے طلبہ کی مشکلات
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
دنیا میں کہیں ایسا نہیں جہاں طلبا اور طالبات کو حصول تعلیم میں مشکلات کا سامنا ہو، مگر پاکستان واحد ملک ہے جہاں طلبہ کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کسی شہری سے امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جا سکتا لیکن مملکت میں طلبہ اور طالبات کے لئے تعلیم کا حصول مشکل سے مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔ میڈیکل تعلیم کو کنٹرول کرنے والا پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل آئے روز رولز میں ترامیم کرکے طلبہ کو مشکلات میں ڈال رہا ہے۔ حال ہی میں پی ایم ڈی سی نے کسی سفارشی کو بھرتی کرنے کے لئے رجسٹرار کے عہدے کے لئے مجوزہ رولز میں ترمیم کی ہے جس میں ایم بی بی ایس کی بجائے ڈینٹل ڈاکٹر کو مذکورہ عہدے پر بھرتی کرنے کے لئے رولز میں نرمی کی ہے جس کا واحد مقصد کسی سیاسی سفارشی کو اکاموڈیٹ کرنا ہے۔ میڈیکل کالجز کے طلبہ کے ایک گروپ نے اس کالم نگار کو بتایا کہ پی ایم ڈی سی نے پاس ہونے کی شرح میں تبدیلی کر دی ہے جس میں اب پچاس فیصد کی بجائے ستر فیصد نمبر حاصل کرنے ہوں گے۔ اسی طرح حاضری کی شرح ستر فیصد سے بڑھا کر پچاسی فیصد کر دی ہے جس سے طلبہ کو مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔ نئے رولز صرف فرسٹ پروفیشنلز کے طلبہ اور طالبات پر لاگو ہوں گے۔ جبکہ دیگر کلاسز کے طلبہ اور طالبات مذکورہ رولز سے مستثنیٰ ہوں گے۔ ستم ظرفی دیکھئے نئے رولز کا اطلاق صرف پنجاب اور اسلام آباد کے نجی میڈیکل کالجز پر ہوگا جب کہ خیبر میڈیکل کالج، شفا میڈیکل کالج، آرمی میڈیکل کالج وغیرہ کے طلبہ اور طالبات کو نئے رولز سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ طلبہ کے گروپ نے بتایا وہ اس ضمن میں عدلیہ سے رجوع کر رہے ہیں کیونکہ آئین کے مطابق کسی شہری سے امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جا سکتا ۔ البتہ پی ایم ڈی سی کا یہ اقدام اچھا ہے جس میں مستقبل قریب میں نئے میڈیکل کالجز کے قیام پر چند سال کے لئے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس خاکسار نے پی ایم ڈی سی کے کسی ذمہ دار سے بات کرنے کی کوشش کی تو کسی سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے شائد وہ میڈیا کے لوگوں سے بات چیت کرنے سے گریزاں ہیں۔ سوال ہے اگر پی ایم ڈی سی نے پہلے سال کے طلبہ اور طالبات کے لئے حاصل کردہ نمبروں کی شرع اور کالجز میں ان کی حاضری کی شرع بڑھائی ہے تو اس کی وجوہات سے بھی طلبہ اور طالبات کو آگاہ کرنا ضروری تھا۔ اسلام آباد اور پنجاب کے طلبہ پر نمبروں اور حاضری کی شرع پر قدغن جب کہ ملک کے دوسرے صوبوں کے میڈیکل کالجز کے طلبہ اور طالبات کا نئے رولز سے استثنیٰ کہاں کا اصول ہے؟ عجیب تماشہ ہے طاقت ور اداروں کو چھوڑ کر دیگر اداروں پر نئی شرائط عائد کر دی گئیں ہیں۔ جب یہ معاملہ اعلیٰ عدلیہ کے علم میں لایا جائے گا تو یہ بات یقینی ہے چند روز میں نئے رولز کو کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔ پی ایم ڈی سی میں جب کبھی نئی تقرریوں کا وقت آیا سیاسی دبائو پر لوگوں کو ملازمتیں دی گئیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست کو پی ایم ڈی سی کا چیئرمین مقرر کیا گیا جو کئی برس تک مذکورہ عہدے پر رہے۔ ٹھیک ہے آپ طلبہ پر نئی پابندیاں ضرور لگائیں لیکن اس میں امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار میڈیکل کالجز میں نئے داخلوں کے لئے پالیسی بنا گئے تھے جس کے بعد ایم ڈی کیڈ کا امتحان پاس کرنے والے صرف انہی طلبہ اور طالبات کو میڈیکل کالجز میں داخلہ ملتا ہے جو میرٹ پر پورا اترتے ہیں۔ اس طریقہ کار سے میرٹ پر میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے والے اچھے ڈاکٹر ثابت ہو ں گے۔ ہم اس حق میں نہیں ہے پروفیشنل کالجز کے طلبہ اور طالبات کو قانون سے استثنیٰ دے دیا جائے تاہم سب کے ساتھ مساوی سلوک ہونا چاہیے تاکہ کسی کی دل شکنی نہ ہونے پائے۔ میڈیکل تعلیم میں جس قدر شفافیت ضروری ہو کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں پروفشینلز کالجوں سے اچھے ڈاکٹر بن کر نکلیں اور ملک اور بیرون ملک جا کر لوگوں کی خدمت کریں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو سیاسی کی بجائے مثالی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اس ادارے کی وساطت سے ڈاکٹر بننے والوں پر لوگ فخر کر سکیں ۔ چند سال قبل پی ایم ڈی سی میں سیاسی طور پر بھرتی ہونے والے ملازمین کی اسکرننگ کی گئی جس میں بہت سے ملازمین کی ملازمت ختم کرنا پڑی لہذا ضرورت اس امر کی ہے میڈیکل کالجز کو کنٹرول کرنے والے ادارے کی کارکردگی ایسی ہونی چاہیے تاکہ اس ادارے پر کوئی انگلی نہ ٹھا سکے نہ کہ سیاسی بنیادوں پر اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں کرکے ادارے کی ساکھ کو دائو پر لگا دیا جائے۔ پی ایم ڈی سی نے بیرون ملک سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے والوں پر امتحان پاس کرنے کی جو پابندی لگائی ہے اس پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں اچھے ڈاکٹر علاج معالجہ کر سکیں نہ کہ بیرون ملک سے ناجائز ذرائع سے امتحان پاس کرنے والوں کو امتحان پاس کئے بغیر پریکٹس کی اجازت دی جائے۔ ایسے میڈیکل گریجویٹس کو امتحانات کے مرحلوں سے گزار کر ہی ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ وقتوں میں بہت سے طلبہ اور طالبات چین اور سنٹرل ایشیائی ریاستوں سے میڈیکل کی ڈگری لے کر ملک میں واپس آتے ہیں ایسے طلبہ وہی ہوتے ہیں جو ملک میں میڈیکل تعلیم کے حصول کے لئے میرٹ پر پورا نہیں اترتے ہیں لہذا ایسے میڈیکل گریجویٹس کو تحریری امتحان اور باقاعدہ انٹرویوز میں پاس ہونے کے بعد پریکٹس کی اجازت ہونی چاہیے۔ ہم بات کر رہے تھے میڈیکل کالجز کے ان طلبا اور طالبات کی جو فرسٹ پروفیشنل میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان پر جو نئی شرائط لگائی گئی ہیں پی ایم ڈی سی کو ان نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ انفرادی طور پر فرسٹ پروفیشنل کے طلبہ پر نمبروں اور حاضری کی شرط قرین انصاف نہیں۔ جن کالجوں کو نئی شرائط سے استثنیٰ دیا گیا ہے یا پھر انہیں بھی نئے رولز کے اندر لانے کی ضرورت ہے۔





