Column

سیلاب نقصانات کا تخمینہ لگانے کا حکم

سیلاب نقصانات کا تخمینہ لگانے کا حکم
وزیراعظم شہباز شریف کی حالیہ مصروفیات، بیانات اور اقدامات ملک کو درپیش اندرونی چیلنجز سے نمٹنے، معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور خارجہ پالیسی کو فعال و موثر انداز میں آگے بڑھانے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس، دورہ جات اور بین الاقوامی ملاقاتیں نہ صرف حکومتی سنجیدگی کو ظاہر کرتی بلکہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ پاکستان بدلتے عالمی منظر نامے میں خود کو فعال ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ملک میں حالیہ بارشوں اور سیلابی تباہ کاریوں نے ایک بار پھر ہمارے بنیادی انفرا سٹرکچر، زراعت اور لائیو سٹاک کے شعبوں کی کمزوری کو اجاگر کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس معاملے پر بروقت اور سنجیدہ ردعمل دیتے ہوئے متعلقہ اداروں، صوبائی حکومتوں اور وفاقی محکموں کو واضح ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ جانی و مالی نقصانات، فصلوں کی تباہی اور مویشیوں کے نقصان کا جامع اور حقیقت پسندانہ تخمینہ تیار کریں۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ وزیراعظم نے سپارکو (SUPARCO)جیسے ادارے سے سیٹلائٹ اسسمنٹ کی مدد لینے کی ہدایت کی ہے، جو موجودہ ڈیجیٹل دور میں ایک جدید اور موثر طریقہ کار ہے۔ انہوں نے یہ بھی تاکید کی کہ متاثرہ علاقوں میں موزوں فصلوں کی دوبارہ کاشت اور زرعی بحالی کے لیے سائنسی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ اس کے ساتھ، سڑکوں اور ذرائع مواصلات کی فوری مرمت اور بحالی کو بھی اولین ترجیح دینے کی ہدایت دی گئی، جو متاثرہ علاقوں کو دوبارہ قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے نہایت اہم ہے۔ یہ اقدامات اگر بروقت اور شفاف انداز میں مکمل کیے جائیں تو متاثرہ عوام کے لیے نہ صرف ریلیف کا باعث بنیں گے بلکہ یہ حکومت پر عوامی اعتماد کو بھی بحال کریں گے۔ اسلام آباد میں ’’ مشرق ڈیجیٹل ریٹیل بینک’’ کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کا خطاب ملکی معیشت کو ڈیجیٹل دنیا سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کی نمائندگی کرتا ہے۔ وزیراعظم نے درست نشان دہی کی کہ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، اور انہی نوجوانوں کو ڈیجیٹل مہارتوں، فنانسنگ سہولتوں اور کاروباری مواقع کی فراہمی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ڈیجیٹل بینکاری کا فروغ نہ صرف مالیاتی شفافیت کو یقینی بنائے گا بلکہ پاکستان کی غیر رسمی معیشت کو بھی رسمی دھارے میں لانے میں مدد دے گا۔ یہ اقدام بینکنگ نظام کی رسائی کو ملک کے دور دراز علاقوں تک بڑھا سکتا ہے، جہاں روایتی بینکاری کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ وزیراعظم نے متحدہ عرب امارات کے تعاون کو سراہا اور یہ بھی واضح کیا کہ یو اے ای کا پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی میں کردار ہمیشہ مثبت رہا ہے۔ یہ بیان اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان اب عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے تعاون سے اپنی معیشت کو جدید، شفاف اور پائیدار بنانے کے لیے عملی اقدامات کر رہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا حالیہ قطر کا دورہ، دوحہ میں ہونے والی عرب-اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت اور قطر کے امیر، ایران کے صدر اور دیگر علاقائی رہنمائوں سے ملاقاتیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں بگڑتی ہوئی صورت حال کو سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے اور اپنے اثرورسوخ کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کا خواہاں ہے۔ قطر پر اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے وزیراعظم نے واضح پیغام دیا کہ پاکستان نہ صرف قطر کی خودمختاری کی حمایت کرتا ہے بلکہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کے لیے قطر کی کوششوں کی حمایت کرکے ایک ذمے دار اسلامی ریاست کا کردار ادا کیا ہے۔ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے ملاقات میں بھی دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔ یہ ملاقات نہ صرف دو طرفہ تعلقات کے لیے اہم تھی بلکہ خطے میں بڑھتے ہوئے تنائو کے تناظر میں پاکستان اور ایران کے درمیان رابطوں کا تسلسل برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔ وزیراعظم سے چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل نوید اشرف کی ملاقات میں پاک بحریہ کے کردار پر گفتگو ہوئی۔ وزیراعظم نے پاکستان کی بحری سرحدوں کی حفاظت اور خطے میں بحری توازن کو برقرار رکھنے میں بحریہ کے کردار کو سراہا۔ ان کا یہ بیان پاکستان کی دفاعی تیاریوں اور ادارہ جاتی مضبوطی کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ مجموعی طور پر، وزیراعظم کی حالیہ سرگرمیاں ایک مربوط قومی حکمت عملی کا پتا دیتی ہیں جس میں داخلی استحکام، معیشت کی بحالی، ڈیجیٹل ترقی، خارجہ پالیسی میں توازن اور دفاعی تیاری جیسے پہلوئوں پر یکساں توجہ دی گئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ سیلاب زدگان کی بحالی، ڈیجیٹل فنانسنگ کے فروغ اور امت مسلمہ کے لیے موثر آواز بننے جیسے مقاصد پر مستقل مزاجی سے عمل کرے۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو صرف بیانات نہیں، بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے عالمی برادری، عوام اور نوجوانوں کا اعتماد جیتنا ہوگا۔
پاکستان مخالف بھارتی پروپیگنڈا بے نقاب
حالیہ دنوں منظرعام پر آنے والا ’’لیک شدہ بھارتی کلاسیفائیڈ دستاویز’’ نہ صرف خطے میں امن کے دعووں کی نفی کرتا ہے بلکہ بھارت کی طویل المدتی پاکستان مخالف حکمت عملی کی ایک اور واضح مثال بھی پیش کرتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، اس خفیہ دستاویز میں پاکستان کے خلاف سازشوں، خاص طور پر سیاسی افراتفری پھیلانے، سوشل میڈیا پر منفی مہم چلانے اور مخصوص گروہوں کو مالی امداد فراہم کرنے کے واضح نکات درج ہیں۔ دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ بھارت نے نہ صرف پختون تحفظ موومنٹ (PTM)بلکہ یونائیٹڈ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی (UKPNP)جیسے عناصر کو بھی مبینہ طور پر فنڈنگ فراہم کی۔ ان اقدامات کا مقصد پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے بدامنی اور بے یقینی کی کیفیت پیدا کرنا ہے۔ حیران کن طور پر، دستاویز میں اس بات کا بھی اعتراف موجود ہے کہ PTM پر زیادہ فنڈز خرچ کیے گئے جبکہ آزاد کشمیر میں محدود وسائل کے باوجود نیٹ ورک کو فعال کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ یہ سب اس وقت سامنے آیا جب بھارت نے جنیوا میں ایک بین الاقوامی اجلاس کے دوران پاکستان مخالف پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے رہنما اصول ترتیب دیے۔ اس اجلاس میں یہ ہدایات بھی دی گئیں کہ عوامی شکایات، بالخصوص بجلی کے بلوں، معاشی مسائل اور حکومتی اقدامات کو بنیاد بناکر عوام کو اشتعال دلایا جائے اور ان جذبات کو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلایا جائے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ کہ پروپیگنڈا مواد کو مقامی سطح پر اس انداز میں تیار کرنے کی ہدایت دی گئی کہ وہ عوامی ردعمل کا عکس لگے اور اس میں ریاست مخالف عناصر کی شمولیت چھپی رہے۔ اس میں تصویری شواہد، ویڈیوز، تحریری درخواستیں اور بیانات اکٹھا کرکے انہیں عالمی فورمز پر پیش کرنے کی حکمت عملی بھی شامل ہے۔ دستاویز میں کشمیری عوام کو پاکستان سے بدظن کرنے کے لیے یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان کشمیر کی ندیوں سے بجلی بناتا ہے، لیکن کشمیریوں کو سہولتیں نہیں دیتا۔ اس نکتے کو بنیاد بنا کر کشمیریوں میں احساس محرومی پیدا کرنے کی مہم کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ بھارت کی اس چالاکی سے بھری منصوبہ بندی کا مقصد نہ صرف پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام، بلکہ اندرونی طور پر پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا بھی تھا۔ مزید برآں، فنڈنگ کے طریقہ کار کو خفیہ رکھنے کی بھی ہدایات دی گئیں، تاکہ ان سرگرمیوں پر براہ راست بھارت کا سایہ نہ پڑے۔ تاہم، لیک ہونے والی اس دستاویز کے بعد بہت سی چیزیں بے نقاب ہوچکی ہیں جن پر پاکستانی ادارے سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ اس معاملے کی سنگینی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ بھارت کا یہ رویہ نہ صرف ایک ہمسایہ ملک کی خودمختاری کے خلاف ہے، بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو عالمی سطح پر بھرپور انداز میں اٹھائے، لیک ہونے والے مواد کی مکمل تفتیش کرے اور ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جو بھارت کے مذموم عزائم کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ داخلی اتحاد، سوشل میڈیا پر موثر بیانیہ اور بین الاقوامی سفارتی سطح پر راست اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

جواب دیں

Back to top button