Column

قبر

قبر
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
ڈاکٹر مصطفیٰ محمود سوال کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد تم قبر میں ہزاروں سال تک کیا کرو گے؟، پھر وہ بتاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی میں دنیاوی گھر بنانے کے لیے محنت کرتا ہے۔ مگر وہ گھر آخرکار ورثاء کا ہو جاتا ہے۔۔ کہتے ہیں کہ میں نے دنیا میں اپنا گھر بنانے کے لیے ساری زندگی جان توڑ محنت کی لیکن یہ گھر تو میرے ورثاء کا ہوجائے گا، اصل میں تو میری ساری محنت اپنے لیے ہے ہی نہیں سارے فائدے تو اور لوگ اٹھائیں گے۔۔ تو میں نے سوچا کہ بس بہت ہوگیا ہے، مجھے اپنا گھر بنانا ہے جہاں صرف میں ہی ہوں گا اور ایک طویل عرصہ گزارنا ہے۔۔ ڈاکٹر نے خود کو اور سب کو سمجھایا کہ ابھی تم گھر میں آرام سے ہو، کھا پی رہے ہو، پہن رہے ہو، خاندان کے درمیان ہو، پھر بھی اکثر شکوہ اور بے چینی ہوتی ہے۔۔ یہ تو مرنے کے تھوڑی دیر بعد دفن کرنے لے جائیں گے پھر قبر میں دفن کرنے کے تھوڑی دیر بعد قبرستان سے چلے جائیں گے۔ پھر آپ اپنی قبر کی تنہائی میں رہیں گے۔ اگر ہماری ساری کوششیں اور اعمال صرف دنیا کی ضروریات کے لیے ہوں تو مرنے کے بعد ہمارے نام کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ اس لیے زندگی میں ہمیں اپنے اعمال کو ایسی ترجیحات دینی چاہئیں جو نہ صرف دُنیا کی زندگی بلکہ آخرت کے لیے بھی سرمایہ بنیں۔ جن سے مرنے کے بعد تا قیامت رہنے والے گھر یعنی قبر اور پھر قیامت کے بعد ہمیشہ رہنے والے گھر کو بھی سنواریں۔ تسبیح، ذکر، قرآن، نماز، روزہ، صدقہ، درودِ رسول اور نیک اعمال سے قبر و آخرت کو سنواریں۔۔ موت، ایک غیر متوقع اور اٹل حقیقت ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ وہ خود 54سال کے ہو کر سوچتے ہیں۔ جب وقت آئے گا، تو سب لوگ پیچھے رہ جائیں گے اور تم اکیلا ہو جائو گے۔ تمہارے بچے، خاندان اور دوست جلد ہی تمہیں بھول جائیں گے۔ موت کے بعد جو حقیقت سامنے آئے گی وہ تمہاری ذاتی تنہائی ہے۔ ہزاروں، لاکھوں سال کی ایک لمبی مدت جس کا حساب اور انجام صرف تمہارے اعمال طے کریں گے۔ اس وجہ سے موت کے قریب پہنچ کر اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط کرنا اور اپنے اعمال کو آخرت کے لیے جمع کرنا ضروری ہے۔۔ قبر کو ڈاکٹر مصطفیٰ محمود نے ایک حقیقی، طویل اور تنہا ٹھہرائو کہا ہے۔ اس تنہائی کو بہتر بنانے کے لیے وہ ایک عملی تصور بتاتے ہیں۔ اپنے ہر عمل کو قبر میں بھیجنے کا طریقہ۔ مثلاً ہر استغفار، تسبیح اور ذکر کو یہ تصور کر کے ادا کرو کہ وہ تمہاری قبر میں تمہارا ساتھی بن کر رہے ہیں۔ رکوع، سجدہ اور تلاوت قرآن کو قبر میں ذخیرہ سمجھ کر جمع کرو۔۔ تسبیحات سے قبر کے کونوں کو بھر دو۔ قرآن کی کثرت کو اپنے سر کے قریب آرام دہ بستر سمجھو ۔ درود کو وہاں کی محفلوں کا حصہ تصور کرو؛ صدقہ اور نیک اعمال کو قبر کے لیے روشنیاں، کپڑے اور نعمتیں سمجھو۔۔ یہ تصوراتی تیاری قبر کی زندگی کو دنیا کی زندگی سے بھی زیادہ خوبصورت بنانے کی کوشش ہے۔ بدبو، دیمک، سخت پتھر اور عذاب کے بجائے نور، صحبت اور آرام۔ ڈاکٹر صاحب کی نصیحت یہ ہے کہ اپنا قبر والا گھر اپنا بینک اکائونٹ سمجھو۔۔ وہاں زیادہ سے زیادہ ڈپازٹ کرو، یعنی اپنے روزمرہ کے اعمال کو آخرت کے لیے جمع کرو، اور اپنی عبادات و ذکر کا خاص خیال رکھو۔۔ تم جب زمین کے نیچے ہزاروں سال گزارو گے تو تمہارے ساتھ وہ اعمال اور اعمال کے ثمرات ہوں گے جو تم نے اس دنیا میں اپنے لیے جمع کئے۔
غالب کا شعر ہے کہ۔۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا۔۔۔
مطلب، غالب کائنات کو ایک شیشہ ساز کی نازک کاری گری سے تشبیہ دیتے ہیں۔ جیسے شیشہ بہت نازک ہوتا ہے اور ذرا سی بے احتیاطی سے ٹوٹ سکتا ہے، ویسے ہی یہ سارا جہان، انسان کی زندگی اور نظامِ کائنات بہت نازک اور باریک ہے۔ اس لیے یہاں بہت احتیاط اور سکون کے ساتھ جینا چاہیے۔ یہ شعر زندگی کی ناپائیداری کو بیان کرتا ہے اور انسان کو اس کے اندر اپنی بے بسی کا احساس دلاتا ہے۔
دنیا کی زندگی جسمانی اور محدود ہوتی ہے، جبکہ قبر دنیا اور آخرت کے درمیان ایک عبوری عالم ہے جسے عالمِ برزخ کہتے ہیں، جہاں موت کے بعد روح کو جسم سے جدا ہونے کے بعد قیام کرنا ہوتا ہے اور قیامت کے دن تک انتظار کرنا ہوتا ہے۔ قبر کی زندگی دنیاوی زندگی سے بہت طویل ہوتی ہے اور اس میں روح کو آرام یا تکلیف محسوس ہو سکتی ہے، جبکہ آخرت میں اعمال کے حساب سے جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوتا ہے۔ دنیا کی زندگی یہ جسمانی اور مادی زندگی ہے جو ایک مخصوص مدت کے لیے دی جاتی ہے۔ موت کے بعد یہ زندگی ختم ہو جاتی ہے اور جسم روح سے جدا ہو جاتا ہے۔ عالمِ برزخ میں روحیں قیام کرتی ہیں اور موت سے لے کر قیامت کے دن تک کی مدت اس میں شامل ہوتی ہے۔ روحیں اس عالم میں آرام یا تکلیف محسوس کرتی ہیں، جس کا تعلق ان کے دنیاوی اعمال سے ہوتا ہے۔ قبر کی زندگی دنیاوی زندگی کے مقابلے میں بہت طویل ہے۔ دنیاوی زندگی ختم ہو جاتی ہے، جبکہ عالمِ برزخ کا اختتام قیامت کے دن ہوگا۔ موت کے بعد انسان کو بروز قیامت زندہ کر کے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ وہاں اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا اور اس حساب کے مطابق اسے جنت یا جہنم ملے گی۔

جواب دیں

Back to top button