
جگائے گا کون؟
افغان طالبان، خان اور پاکستان
تحریر: سی ایم رضوان
یہ بات تو طے ہے کہ اب افغانستان عالمی طاقتوں کے کھیل کا نشانہ نہیں اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی سازش رچی جا رہی ہے۔ البتہ اس کی اپنی پالیسیوں اور طالبان کی اندرونی موجودہ صورت حال خود افغانستان اور پڑوسی ممالک خاص طور پر پاکستان کو دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنا رہی ہے اور اس امر کی واحد ذمہ داری افغان طالبان کی موجودہ عبوری حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس کی جاری پالیسیز ان کے ابتدائی وعدوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد ان طالبان حکمرانوں نے اُن ماہرین اور سیاستدانوں کو مایوس کیا ہے جنہوں نے کبھی انہیں’’ طالبان 2.0‘‘ کا نام دیا تھا اور انہیں 1990ء کی دہائی کے طالبان سے مختلف قرار دیا تھا۔ اس حوالے سے ہمارے ایک صنعتکار دوست خالد مغل کا خیال ہے کہ جب طالبان نے اگست 2021ء میں کابل کا کنٹرول سنبھالا تھا تو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ حالات اب 1990ء کی دہائی سے مختلف ہوں گے۔ انہوں نے ایک روڈ میپ کا بھی اعلان کیا تھا جس میں عام معافی کا اعلان، جامع اسلامی حکومت، شریعت میں خواتین کے حقوق کے احترام، آزادی صحافت کو یقینی بنانے کا اعلان کیا گیا جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ افغان سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعمیری تعلقات برقرار رکھنے اور تعلیم و تعمیر نو میں تعاون کرنے کا بھی عہد کیا تھا تاہم ان تمام دعوں کی قلعی جلد ہی کھل گئی۔ عبوری حکومت طالبان کے زیرِ تسلط ایک سیٹ اپ بن گئی جہاں خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم اور کام کرنے سے روک دیا گیا، پریس پر پابندیاں لگائی گئیں، انتہا پسند گروہوں کو کھلی چھوٹ دی گئی یہی وجہ ہے کہ اب افغانستان سفارتی طور پر تنہائی کا شکار ہوگیا ہے جہاں اس کے بین الاقوامی تعلقات انسانی امداد اور نقل مکانی پر کنٹرول تک محدود ہیں۔ اس کے باوجود دنیا تقسیم کا شکار ہے جہاں وہ طالبان کے ساتھ صرف انسانی مقاصد کے لئے اور افغانستان سے نقل مکانی کرنے والوں ( جوکہ زیادہ تر مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں) کو روکنے کے لئے تعلقات رکھتے ہیں۔ طالبان حکومت کے عہدیدار امیر متقی کو تو اسلام آباد کا دورہ کرنے کی بھی اجازت نہیں جہاں وہ کئی بار سرکاری دورے پر آ چکے ہیں۔ ان کا نئی دہلی کا دورہ بھی متوقع ہے لیکن واشنگٹن اور اسلام آباد دونوں اس کے مخالف ہیں جبکہ اس سے بھی حیران کُن بات ان کا ایس سی او اجلاس میں شرکت سے محروم رہ جانا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں کئی تشریحات گردش کر رہی ہیں جن میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے حوالے سے لے کر یہ تجاویز شامل ہیں کہ یہ اقدام طالبان کے خلاف ایک تعزیری کارروائی ہے کیونکہ وہ چین اور پاکستان سے افغان سرزمین سے سرگرم دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دیگر کا خیال ہے کہ طالبان حکومت کا تکبر اصل وجہ تھا۔ یہ اس تناظر میں کہا جارہا ہے کیونکہ افغانستان کی حکومت نے حال ہی میں آمو دریا طاس میں تیل کی تلاش اور نکالنے کا 25سالہ معاہدہ ختم کر دیا ہے جو اس سے قبل چینی فرم سنکیانگ سنٹرل ایشیا پٹرولیم اینڈ گیس کمپنی کو دیا گیا تھا جو کہ مقامی طور پر افچین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ طالبان نے سفارتی اور جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کے لئے افغانستان کے قدرتی وسائل، معدنیات، زراعت اور پانی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے مگر ان اثاثوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے افغانستان کو بین الاقوامی اصولوں کے ساتھ مطابقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے طالبان نے اپنے اندرونِ خانہ نظام کو 1990ء کے دقیانوسی نظام کے مطابق کر دیا ہے۔ دوسرا یہ کہ چین نے سی پیک سے افغانستان کو خارج کر دیا ہے اور وہ اب بھی اپنے علاقائی عزائم کو آسان بنانے کی کوشش کرتے ہوئے نئے دو طرفہ جغرافیائی اقتصادی راستے تلاش کر رہا ہے لیکن اس طرح کے تعاون کو عملی جامہ پہنانے کے لئے طالبان کو پہلے خود کو اپنی ہمسایہ ممالک اور وسیع تر علاقائی ممالک کے لئے قابلِ اعتماد ثابت کرنا ہوگا۔ طالبان کے کچھ رہنماں کو اس بات کا ادراک ہے کہ عالمی برادری کے ساتھ بامعنی روابط کا قیام صرف اقتصادی اور تجارتی شراکت داری سے ممکن نہیں جبکہ اس کے لئے سماجی اور سیاسی تبدیلی کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا طالبان قیادت بالخصوص ملا ہیبت اللہ میں اس حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے یا کیا وہ اسے سمجھنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ البتہ یہ بات طے ہے کہ جب تک وہ حالات سے موافق نہیں ہوتے تب تک افغانستان تنہائی کا شکار رہے گا اور مصائب میں پھنسا رہے گا۔ نیز اس پر دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات بھی لگتے رہیں گے۔ افغان حکومت کی انہی پالیسیوں اور مختلف طالبان گروپوں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا شاخسانہ ہے کہ گزشتہ کئی سال سے فتنہ الخوارج اور فتنہ الہند کے ہاتھوں بھارت کی سرپرستی میں پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث جو لوگ افغان سرزمین کو جس طرح استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان کی جانب سے کابل انتظامیہ کو بارہا اس جانب متوجہ کئے جانے کے باوجود افغانستان کی طالبان حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اس حوالے سے اب تمام حدیں پار ہو چکی ہیں اس لئے اردو محاورے کے مطابق ’’ تنگ آمد بہ جنگ آمد‘‘ کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ نہ رہا تو بالآخر وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز نہایت دو ٹوک انداز میں افغانستان کی عبوری طالبان انتظامیہ کو پیغام دیا ہے کہ وہ خارجیوں اور پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کر لے۔ گزشتہ روز فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ہمراہ بنوں کے دورے کے موقع پر جہاں انہوں نے دہشتگردی کے نتیجے میں زخمی ہونے والے سکیورٹی اہلکار کی عیادت کی وہاں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت بھی کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کو واضح طور پر پیغام دینا چاہتا ہوں کہ دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کر لے، اگر افغان حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے تو ایمانداری اور سچائی کے ساتھ تعلقات قائم کرے، جس کے لئے ہم پہلے سے تیار ہیں۔ تاہم اگر افغان حکومت کو دہشتگردوں کا ساتھ دینا ہے اور ان کی پشت پناہی کرنی ہے تو پھر ہمیں بھی افغانستان کی قائم مقام حکومت سے کوئی سروکار نہیں، افواج پاکستان فیلڈ مارشل کی سربراہی میں ہر صورت ان دہشتگردوں کا خاتمہ کریں گی، وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں امن ہو گا تو ترقی اور خوشحالی ہو گی اور اگر خدانخواستہ امن تباہ ہو گیا تو نہ ملک میں ترقی ہو گی اور نہ ہی خوشحالی، وزیراعظم نے ایک اور بات بھی واضح کی تھی کہ پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کا جلد انخلاء انتہائی اہم ہے۔ پاکستانی قوم دہشتگردی کے معاملے پر سیاست اور گمراہ کن بیانیے کو مکمل طور پر رد کرتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی سلامتی اس کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کی واپسی کے بعد وہاں جنگجوئوں نے بھارت کی سرپرستی میں پاکستان کے دو صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن کو تباہ کرنے کے لئے سرگرمیاں شروع کر دیں، اس مذموم مقصد کے حصول کے کئے جہاں بھارت کے سفارتخانے اور قونصل خانوں میں موجود را کے حکام ان خارجیوں کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں، ان کو دہشتگردی کی تربیت دینے کیلئے افغان سرزمین پر مبینہ کیمپ چلا رہے ہیں، وہیں افغانستان کی طالبان عبوری انتظامیہ بھی ان دہشتگردوں کو سہولیات بہم پہنچا رہی ہے جس میں نہ صرف را کی نگرانی میں دہشتگردی کیمپوں کا قیام اور ان کی سہولت کاری، امریکی افواج کے چھوڑے ہوئے جدید اسلحہ کی ترسیل اور افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں جملہ سہولیات یعنی حملوں کے بعد واپس افغان سرزمین میں پناہ گاہوں میں جا کر چھپ جانے جیسی آسانیاں بھی شامل ہیں اس پر ستم یہ کہ پاکستان جب بھی افغان انتظامیہ سے اس حوالے سے شکایت کرتا ہے تو عبوری طالبان حکومت صاف مکر جاتی ہے، حالانکہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس ان معاملات میں مکمل معلومات موجود ہیں، اس لئے اب دو ٹوک انداز میں ان دہشتگردی واقعات میں بھارتی ایجنسیوں اور افغانستان کی عبوری طالبان انتظامیہ کی تقویت کے دعوے کئے جا رہے ہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ افغان طالبان انتظامیہ جھوٹ بول بول کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی راہ پر گامزن ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اب کی بار جس انداز میں افغان انتظامیہ کو’’ آر یا پار‘‘ کی طرز کا پیغام دیا ہے، اس کے بعد گیند کابل حکومت کے کورٹ میں جا گری ہے اور اب یہ فیصلہ اس نے کرنا ہے کہ بقول وزیر اعظم شہباز شریف اگر افغان حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے تو ایمانداری اور سچائی کے ساتھ تعلقات قائم کرے، تاہم وہ دہشتگردوں کا ساتھ دینا چاہتی ہے تو ہمیں بھی افغانستان کی قائم مقام حکومت سے کوئی سروکار نہیں، یہاں ایک اور بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان کے اندر سے بھی بعض عناصر افغانستان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے مطالبات پر زور دے رہے ہیں یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے چند سال پہلے افغانستان سے ہزاروں دہشت گردوں کو واپس لا کر صوبے میں بسایا ( جس کے پیچھے مخصوص مقاصد کار فرما تھے، جو اب واضح ہو چکے ہیں) دوسری جانب اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر نے ایک بار پھر پاکستان سے افغان مہاجرین کے قیام کی مدت میں توسیع کا مطالبہ کیا ہے، یہ سوچے بغیر کہ گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ مدت تک ان مہاجرین کے قیام سے پاکستان کو کن نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس لئے اب بس ہونی چاہیے اور ان مہاجرین کو ہر صورت واپسی کا راستہ دکھانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے ایک مقبول سیاستدان طالبان خان بھی افغان مہاجرین کے انخلاء کی مخالفت کے ساتھ ساتھ یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ حکومت پاکستان کو طالبان کے خلاف اقدامات سے باز آ جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے آج تک نہ تو اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف بول سکے ہیں اور نہ ہی انہیں کبھی بھارت پر تنقید کی توفیق ہوئی ہے البتہ پاکستانی ریاست کے خلاف بیان بازی ان کی سیاست کا خاصا ہے جو کہ سراسر وطن دشمنی ہے۔





