Columnمحمد مبشر انوار

دو ریاستی حل مگر۔۔۔

دو ریاستی حل مگر۔۔۔
محمد مبشر انوار
فلسطین میں جاری نسل کشی کو قریبا دو برس ہونے کو ہیں مگر تاحال دنیا اس بے جوڑ جنگ میں فلسطینیوں کو مظلوم تسلیم کرنے کے باوجود ،اس نسل کشی کو رکوانے میںمکمل طور پر ناکام ہے اور بظاہر مستقبل قریب میں اس کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے گو کہ کل کے نیویارک اعلامیے میں دنیا کے 142ممالک نے فلسطین کو ’’ ایک ریاست ‘‘ تسلیم کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے لیکن بدقسمتی سے امریکہ ایک بار پھر اس کی مخالفت میں ووٹ دے کر ،اپنے چہرہ بے نقاب کرچکا ہے۔ ایسی صورتحال میں ،جب دنیا کے 142ممالک فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے پر تیار ہیں،اس کے باوجود امریکہ کا اس قرارداد کی مخالفت کرنا درحقیقت امریکی سوچ کو آشکار کرتا ہے کہ اس کے نزدیک،انسانی جانوں کی اہمیت فقط اس وقت ہے جب تک وہ جانیں مغربی یا غیر مسلم افراد کی ہیں،وگرنہ امریکہ کی بلا سے کہ کون کہاں مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے،اس سے امریکہ کو چنداں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔یہ خون خواہ فلسطین ،بھارت ،میانمار،شام،لیبیا،تیونس یا سوڈان کہیں بھی بہایا جائے،امریکی اقدامات کہیں بھی سرعت میں بروئے کار آتے نظر نہیں آتے بلکہ حیلے بہانوں امریکی کوشش یہی دکھائی دیتی ہے کہ جتنا وقت ظالموں کو دیا جا سکتا ہے،دیا جائے تا کہ وہ مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلتے رہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مسلم ریاستیں اور ان کا دفاع تک تو امریکیوں یا غیر مسلموں کے ہاتھ ہے اور وہ چاہ کر بھی،ویسے مسلم ریاستوں کی چاہت اتنی ہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح امریکی خوشنودی حاصل کرکے،اسرائیل یہ نسل کشی بند کر دے اور انہیں میدان جنگ میں نہ ہی اترنا پڑے،فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر ظالم کا ہاتھ روکنے سے قاصر ہیں۔اس مقصد کے لئے عرب ریاستوں کی جانب سے صدر ٹرمپ کے ساتھ نہ صرف بڑے بڑے سرمایہ کاری کے منصوبے بنے بلکہ دفاع کے نام پر بھی امریکہ سے اسلحہ کی خرید کے معاہدے کئے گئے تو امریکی صدر کو خوش کرنے کے لئے انتہائی خطیر تحفے،بھی اس کی نذر کئے گئے کہ پس پردہ مقصد صرف یہی تھا کہ اولا فلسطین میں جنگ بندی ہو اور دوئم ان کے ذاتی اقتدار یا ریاستی مفادات و دفاع کا تحفظ ہو سکے ۔ صد افسوس کہ امریکی ان تمام حقائق کو جاننے کے باوجود،عرب ریاستوں بلکہ مسلم ریاستوں کو خوفزدہ کرنے کے درپے ہے اور مسلسل اسرائیل کی پشت پناہی جاری رکھے ہوئے ہے،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل کسی عالمی قانون کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کبھی ایک مسلم ریاست تو کبھی دوسری مسلم ریاست پر جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اولا ایران کے ساتھ پنجہ آزمائی ،پھر لبنان و شام اور اب رہی سہی کسر قطر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے کی ہے جبکہ قطر وہ ملک ہے جو مذاکرات کے لئے ہمہ وقت میسر ہے اور اپنی سی کوشش کر رہا ہے کہ معاملات سنبھل جائیں لیکن اسرائیل پر ان تمام کاوشوں کا کوئی اثر ہی نہیں اور وہ جہاں ،جب اور جس ملک پر چاہے،حماس رہنماؤں کے تعاقب میںجارحیت کر دیتا ہے ۔قطر پر جارحیت کے جواب میں او آئی سی کے لئے ایک بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے کہ مسلم ریاستیں کس طرح اپنے دفاع کو یقینی بنا سکتی ہیں اور اس جارحیت کا جواب کس طرح دیتی ہیں؟ایران نے اپنی سالمیت و خودمختاری کے جواب میں جو بن پڑا کیالیکن کیا قطر سے ویسے جواب کی توقع کی جاسکتی ہے؟دکھ تو اس بات کا ہے کہ قطر میں ’’ سینٹ کام ‘‘ کا دفتر ،جہاں امریکی دس ہزار فوجی موجود ہیں،کے باوجود اسرائیل نے دھڑلے سے کارروائی کی لیکن نہ تو ان فوجیوں نے کوئی جوابی کارروائی کی اور نہ ہی قطر اپنے مہمانوں کی حفاظت کرپایا۔
اس وقت ایک طرف نیویارک اعلامیے کی بازگشت اس وقت فضائوں میں ہے تو دوسر ی طرف تادم تحریراو آئی سی سربراہی اجلاس بھی جاری ہے،جس میں توقع ہے کہ مسلم ممالک کچھ نہ کچھ اشک شوئی کے لئے ہی سہی،جوابی کارروائی کا اعلان کریں گے تاہم اس پر مزید کچھ کہنے سے قبل ایک گذشتہ تحریر بعنوان’’ ناجائز ریاست‘‘ نومبر 2018کا ایک اقتباس قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں ’’ دوسری جنگ عظیم کے دوران اور خاتمے تک ،بنی اسرائیل نے ہولو کاسٹ کا ایک ایسا ڈرامہ رچایا ،جس پر آج بھی نہ تو تحقیق کی اجازت ہے اور نہ لب کشائی کی،جس نے انہیں بالآخر برطانوی سامراج سے واپس اپنے وطن فلسطین ،جو بنی اسرائیل کا اصل و طن گردانا جاتا ہے،پہنچا دیا۔برطانوی سامراج نے ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے،بنی اسرائیل کو فلسطین میں بسا کر ایک طرف انہیں زیر بار کیا تو دوسری طرف عرب کی مسلم ریاستوں کے سینے میں مستقل خنجر پیوست کردیا۔ دنیا بھر میں ایسی ریاست کی مثال کبھی نہیں دیکھی گئی اور نہ ہی دیکھی جا سکتی ہے کہ ایک ایسی قوم جس کی زیادہ سے زیادہ تعداد ساٹھ سے ستر لاکھ کے درمیان ہو،کو ایک ریاست میں ایسے داخل کیا گیا ہوکہ پورے خطے کے امن کو داؤ پر لگا دیا جائے۔بنی اسرائیل ایک طرف تو اللہ کی چہیتی امت تھی ہی مگر اپنے مکر و فریب سے غیر مسلم دنیا کی بھی ضرورت بن گئی ،ایک چھوٹے سے خطے کی خواہاں قوم نے بعد ازاں جس طرح فلسطینی سرزمین کو ہڑپ کرنا شروع کیا،مہذب دنیا کا انتہائی شرمناک باب ہے۔ 1947ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق56:43کے تقسیم کے فارمولے سے انکار پر ،عرب اسرائیل کی جو جنگ لڑی گئی،اس میں اسرائیل نے غیرمسلم دنیا کی بھر پور امداد و تعاون کے باعث،فلسطینی علاقوں کو فتح کر لیا،جبکہ رہی سہی کسر 1967ء میں پوری کر دی،آج فلسطینی ایک محدود سے حصے پر ،اسرائیل کے ظلم و ستم،جبرو استبداد کے سائے میں رہائش پذیر ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار آئے روز ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر صم بکم کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں،نہتے فلسطینی اپنے حقوق کی خاطر ، کیل کانٹے سے لیس اسرائیلی فوجیوں کا سامناکرنے پر دہشت گرد قرار دئیے جاتے ہیں مگر نہتے بچوں ،بوڑھوں، عورتوںاور مریضوں پر آتش و آہن برسانے والے اسرائیلی فوجی مظلوم دکھائے جاتے ہیں۔ پاکستان کی عرب دنیا سے الفت و محبت و عقیدت ایک مسلمہ حقیقت ہے اور ساری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے نزدیک سعودی عرب بالخصوص انتہائی مقدس مقام رکھتا ہے ،اس لئے پاکستانی عوام کو بالعموم یہی تاثر دیا جاتا رہا کہ چونکہ اسرائیلی ریاست کا قیام باقی عرب ریاستوں کو قبول نہیں ،اس لئے ہمیں اسرائیلی ریاست منظور نہیں ۔ در حقیقت یہ سوچ انتہائی غلط اور حقائق کے منافی ہے کہ ہم ایک ریاست کو صرف اس وجہ سے تسلیم نہیں کرتے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اسرائیل کو زبردستی خطہ زمین دے کر اس کی خواہشات کے سامنے سر جھکایا گیا ہے،وہ طریقہ کاربذات خود درست نہیں کہ اس دوران دنیا بھر میں جہاں بھی ممالک آزاد ہوئی ہیں،اس کے پیچھے تحاریک آزادی کی طویل داستانیں موجود ہیں۔ ایسا نہیں کہ ایک قوم کی بلیک میلنگ کے سامنے سر نگوں ہو کر،دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کے ایک حصہ کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے،ان کے عقائد کی بے حرمتی کی جائے،ان کے جان و مال کو گولہ و بارود کی نوک پر رکھا جائے،ان کے بنیادی حقوق کو سلب کر لیا جائے،ان کی مقدس عبادت گاہ پر قبضہ کر لیا جائے،مہذب دنیا کے یہ اطوار قطعاً نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں تسلیم کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس! کہ مہذب دنیا کے پیروکار اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں سے انحراف پر اترے،ساری دنیا میں مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیںاور غیر مسلم ریاستوں میں ریاستی دہشت گردوں کو ان کے قتل عام کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ یہ ریاستی دہشت گرد خواہ فلسطین کے ہوں یا ہندوستان کے،میانمار کے ہوں یا دنیا کے کسی بھی حصے سے،انہیں نہ کسی کی پرواہ ہے اور نہ ڈر،وہ کھلے بندوں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلتے نظر آتے ہیں۔ بنی اسرائیل کے ماضی سے واقف ہونے کے باعث،بابائے قوم نے’’ ناجائز‘‘ اسرائیلی ریاست کے اس جبراً قیام کی اصولی مخالفت کی تھی،پاکستان کی حکومتوں کو اسرائیل تسلیم کرنے سے پہلے اس کے ناجائز قیام کو ہمیشہ مد نظر رکھنا ہو گا‘‘۔
نیویارک اعلامیہ ،اس اصولی موقف کی واضح تردید کرتا دکھائی دے رہا ہے کہ اس اعلامیے کی آڑ میں درحقیقت دنیا سے ایک ناجائز ریاست کو منظور کروایا جارہا ہے،امریکی مخالفت محض ایک ڈرامہ ہے کہ جو کام امریکہ بذریعہ’’ ابراہم اکارڈ‘‘ کرنا چاہتا تھا،وہ نیویارک اعلامیئے کی بدولت زیادہ سہولت و آسانی سے ہورہا ہے۔ اصل مقصد تو گھی نکالنے سے تھا جو ٹیڑھی کر کے نکالنے کی کوشش جاری ہے اور بہرطور نظر یہی آ رہا ہے کہ 142ممالک کا ’’ دوریاستی حل‘‘ تسلیم کرنے سے امریکی مقصد بہرطور پورا ہو رہا ہی اور مسلم دنیا کی اکثریت کے لئے یہ کڑوی گولی نگلنا زیادہ سہل ہو گیا ہے، بالخصوص پاکستان کے حوالے سے ارباب اختیار کے لئے منہ چھپانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ رہی بات کہ کیا اس کے بعد فلسطینیوں پر مظالم رک جائیں گے یا دیگر مسلم ریاستیں کے سر پر لٹکتی تلوار اتر جائے گی، تو فقط اتنا عرض کئے دیتا ہوں کہ نہ اسرائیل آج کسی کو خاطر میں لارہا ہے اور نہ ہی کل اس کے لئے یہ ممکن ہو گا کہ وہ اپنے پڑوسیوں ،بالخصوص مسلم ریاستوں کا وجود برداشت کرے بلکہ وہ ’’ گرٹیر اسرائیل‘‘ کے لئے مزید طاقتور ہو کر حملہ آور ہو گا اور دوسری بات دو ریاستی حل کے باوجود ایک ’’ ناجائز ریاست ‘‘ سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی ،اور اسرائیل اس کے باوجود ایک ناجائز ریاست ہی تصور ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button