Column

شرجیل انعام میمن اک نظر اولڈ کراچی پر بھی

شرجیل انعام میمن اک نظر اولڈ کراچی پر بھی
پرچارک
تحریر : شکیل سلاوٹ
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب، ہمیشہ ہی ٹرانسپورٹ کے بحران سے دوچار رہا ہے۔ یہاں لاکھوں افراد روزانہ سفر کرتے ہیں مگر مناسب، محفوظ اور باقاعدہ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت ہمیشہ کم رہی۔ حکومت سندھ نے حالیہ برسوں میں ’’ پیپلز بس سروس‘‘ کے ذریعے کئی علاقے اس سہولت میں لائے ہیں، جو ایک خوش آئند قدم ہے ، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کراچی کے کچھ اہم علاقے اب بھی محروم ہیں۔ ان محروم علاقوں میں سب سے نمایاں ٹنہٹی سے گل بائی اور ہاکس بے صحافی کالونی تک کا پورا روٹ ہے۔
ٹنہٹی، لسبیلہ، عثمان آباد، رنچھوڑ لائن، بہم پورہ، جونا مارکیٹ، لی مارکیٹ، میٹھا در، کھاڑا در، آئی سی سی پل اور گل بائی سے لے کر ہاکس بے صحافی کالونی تک کا علاقہ کراچی کے پرانے، تاریخی اور گھنی آبادی والے علاقوں پر مشتمل ہے۔ ان جگہوں پر محنت کش طبقہ بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہے۔ روزانہ ہزاروں مزدور، طلبہ، خواتین اور بزرگ اسی راستے سے سفر کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ان کے لیے کوئی براہِ راست پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہے۔شہری یا تو مہنگی ٹیکسی کا سہارا لیتے ہیں یا پھر رکشہ کا جو کہ بڑی تعداد میں ہیں، اس کے ساتھ کئی گاڑیاں بدل کر منزل تک پہنچتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وقت اور پیسہ دونوں ضائع ہوتے ہیں۔ طلبہ اکثر اپنی کلاسوں کے لیے دیر سے پہنچتے ہیں، مزدور اپنے کام پر تاخیر سے پہنچتے ہیں اور خواتین کو غیر محفوظ سفر برداشت کرنا پڑتا ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی نے ان علاقوں میں ٹریفک کا مسئلہ اور بھی بڑھا دیا ہے۔ جب عوام بسوں سے محروم ہوتے ہیں تو مجبورا موٹر سائیکل یا رکشہ کا سہارا لیتے ہیں، جس سے نہ صرف ٹریفک جام بڑھتا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اگر اسی روٹ پر باقاعدہ بس سروس شروع کی جائے تو ہزاروں موٹر سائیکلیں اور رکشے سڑکوں سے کم ہو جائیں گے، ٹریفک کی روانی بہتر ہوگی اور شہر کی ہوا کچھ صاف ہو سکے گی۔
طلبہ کے مسائل: جامعہ کراچی، ڈائو میڈیکل یونیورسٹی یا دیگر تعلیمی اداروں میں جانے والے طلبہ کو طویل سفر اور اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
ماری پور اور ہاکس بے کے صنعتی اور ماہی گیری کے مراکز میں روزانہ ہزاروں مزدور جاتے ہیں۔ بغیر ٹرانسپورٹ کے ان کی روزی روٹی متاثر ہوتی ہے۔
خواتین اور بزرگ: خواتین کے لیے محفوظ اور آرام دہ ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بزرگ شہری بھی رکشہ یا موٹر سائیکل پر سفر کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
وزیر ٹرانسپورٹ سندھ، شرجیل انعام میمن شہری آپ سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ پیپلز بس سروس نے پہلے ہی عوام کا اعتماد جیتا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اس کامیاب منصوبے کو مزید وسعت دی جائے اور ایسے علاقوں تک پہنچایا جائے جو برسوں سے محروم ہیں۔
براہِ راست بس روٹ کا آغاز: ٹنہٹی سے ہاکس بے تک براہِ راست پبلک بس سروس چلائی جائے، جس کے اہم اسٹاپس درج ذیل ہوں۔
ٹنہٹی، لسبیلہ، عثمان آباد، رنچھوڑ لائن، بیم پورہ، جونا مارکیٹ، لی مارکیٹ، میٹھا در، کھاڑا در، آئی سی سی پل، گل بائی، ماری پور اور ہاکس بے صحافی کالونی تک کم از کم 6سے 8بسیں اس روٹ پر چلائی جائیں تاکہ صبح اور شام کے اوقات میں رش کو سنبھالا جا سکے۔ ہر بڑے اسٹاپ پر باقاعدہ شیڈ اور معلوماتی بورڈ نصب کیے جائیں۔ خواتین اور طلبہ کے لیے خصوصی نشستیں اور رعایتی کرایہ رکھا جائے تاکہ انہیں محفوظ اور آسان سفر مل سکے۔ چھوٹے علاقوں اور گلیوں کے لیے مائیکروبس یا ویگن سروس رکھی جائے جو مرکزی بس اسٹاپ تک عوام کو پہنچا سکے۔
وقت کی بچت اور بروقت اسکول، کالج، دفتر اور کام کی جگہوں پر پہنچنا۔کراچی جیسے میگا سٹی میں پبلک ٹرانسپورٹ کوئی عیاشی نہیں بلکہ بنیادی ضرورت ہے۔ جب تک عوام کو یہ سہولت میسر نہیں ہوگی، شہر کے مسائل بڑھتے رہیں گے۔ ٹنہٹی سے ہاکس بے تک عوام برسوں سے انتظار میں ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی آواز سنی جائے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ شرجیل انعام میمن شہریوں کی اس آواز کو اہمیت دیں گے اور جلد ہی ٹنہٹی تا ہاکس بے بس روٹ کا آغاز کر کے عوام کو ریلیف فراہم کریں گے۔ یہ اقدام نہ صرف عوام کا اعتماد بحال کرے گا بلکہ سندھ حکومت کی عوامی خدمت کی نیت کو بھی مزید نمایاں کرے گا۔

جواب دیں

Back to top button