ColumnQadir Khan

برطانیہ میں دائیں بازو کا تشدد اور اینٹی فاشسٹ ردعمل ( دوسرا حصہ )

برطانیہ میں دائیں بازو کا تشدد اور اینٹی فاشسٹ ردعمل ( دوسرا حصہ )

پیامبر
قادر خان یوسف زئی
انگلش چینل کے ذریعے غیر قانونی مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بھی اس ناراضی کو ہوا دی۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اسائلم کی درخواستوں میں بے مثال اضافہ ہوا، جو عوام کے لیے صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ ان کی روزمرہ زندگی پر اثر انداز ہونے والا حقیقت تھی۔ لوگوں کو لگتا تھا کہ ان کے وسائل پر دبائو بڑھ رہا ہے اور ان کی شناخت خطرے میں ہے۔ ٹامی رابنسن نے اس ریلی کو ’’ فری سپیچ فیسٹیول‘‘ قرار دیا، جو اس احساس کی عکاسی کرتا تھا کہ عام لوگوں کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا، خاص طور پر ایکس، ٹیلیگرام اور فیس بک گروپس جیسے کہ’’ ایپنگ سیز نو‘‘ نے اس ریلی کو منظم کرنے اور لاکھوں لوگوں تک پیغام پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس ریلی کی ایک قابل ذکر خصوصیت بین الاقوامی شخصیات کی شمولیت تھی۔ ایلون مسک کا ویڈیو خطاب، جس میں انہوں نے ’’ فائٹ بیک اور ڈائی‘‘ جیسا شدید نعرہ دیا اور برطانوی پارلیمان کی تحلیل کا مطالبہ کیا، نے اس تحریک کو عالمی سطح پر توجہ دلائی۔ اسی طرح فرانس کے دائیں بازو کے سیاستدان ایرک زیمور اور جرمنی کی آلٹرنیٹو فار جرمنی پارٹی کے پیٹر بائسٹرون کی موجودگی نے اسے ایک بین الاقوامی تحریک کا رنگ دیا۔ یہ صرف برطانیہ کا مقامی مسئلہ نہیں تھا بلکہ یورپ بھر میں پھیلے ہوئے دائیں بازو کے رجحانات کا حصہ تھا۔ لیکن یہ ریلی پرامن نہیں رہی۔ مظاہرین نے پولیس اور پانچ ہزار اینٹی فاشسٹ مظاہرین پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 26پولیس اہلکار زخمی ہوئے، جن میں سے چار کی حالت سنگین تھی۔ پچیس افراد کو گرفتار کیا گیا، اور پولیس نے اعلان کیا کہ مزید مجرموں کی شناخت ہو چکی ہے۔ بوتلیں، فلیئرز اور دیگر اشیاء پولیس پر پھینکی گئیں، جو اس بات کا ثبوت تھا کہ جذبات اتنے بلند ہو چکے تھے کہ پرامن احتجاج اب تصادم میں بدل چکا تھا۔
اس صورتحال کا سیاسی پس منظر بھی اتنا ہی اہم ہے۔ نائجل فاراج کی ریفارم یو کے پارٹی رائے عامہ کے جائزوں میں 35فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ سرفہرست ہے، جو کہ 2024ء کے انتخابات سے دگنا ہے۔ یہ تبدیلی برطانوی سیاست میں ایک زلزلے کے مترادف ہے، کیونکہ یہ روایتی دو پارٹیوں کے نظام کو چیلنج کر رہی ہے۔ ریفارم یو کے کی مقبولیت صرف وقتی نہیں بلکہ گہری سماجی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے، جہاں لوگ روایتی جماعتوں سے مایوس ہو کر نئے متبادل کی طرف جا رہے ہیں۔ مقامی کونسلز نے عدالتی احکامات کے ذریعے کچھ ہوٹلوں سے پناہ گزینوں کو نکالنے میں کامیابی حاصل کی، جو مقامی مزاحمت کی کامیابی کو ظاہر کرتا ہے۔
دوسری طرف مسلم کمیونٹی پر بڑھتی ہوئی نفرت ایک تشویشناک حقیقت ہے۔ ٹیل ماما تنظیم کے مطابق 2024ء میں اینٹی مسلم واقعات میں 43 یصد اضافہ ہوا، اور کل 6313واقعات ریکارڈ کیے گئے، جو کہ 2022ء کے مقابلے میں 165فیصد زیادہ ہیں۔ خاص طور پر ’’ دھمکی آمیز رویے‘‘ میں 715فیصد اضافہ دیکھا گیا، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ حملے زیادہ خطرناک ہو رہے ہیں۔ سڑکوں پر ہونے والے واقعات میں 120فیصد اضافہ ہوا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ نفرت اب صرف آن لائن تک محدود نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں بھی اثرانداز ہورہی ہے۔
آن لائن نفرت کی رپورٹس میں 7اکتوبر 2023ء کے بعد سے 1619فیصد اضافہ دیکھا گیا، جو مشرق وسطیٰ کے تنازع سے جڑا ہوا ہے لیکن اس کے اثرات برطانوی مسلمانوں پر پڑ رہے ہیں۔ ٹیل ماما نے ایکس کو اینٹی مسلم نفرت کے لیے ’’ سب سے زہریلا‘‘ پلیٹ فارم قرار دیا۔ اس کے علاوہ، مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی اینٹی مسلم تصاویر کا بڑھتا ہوا استعمال ایک نیا خطرہ ہے، جو نفرت کو مزید منظم اور موثر بنا رہا ہے۔
اس تاریک تصویر کے باوجود مسلم کمیونٹی نے سیاسی میدان میں نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ 2024ء کے انتخابات میں ریکارڈ 25مسلمان ارکان پارلیمان منتخب ہوئے، جو کہ 2019ء کے مقابلے میں ایک بڑی کامیابی ہے۔ ان میں آزاد امیدوار بھی شامل تھے جنہوں نے فلسطین کے حق میں مہم چلائی۔ لیسٹر، بلیک برن، ڈیو سبری اور برمنگھم جیسے علاقوں میں آزاد امیدواروں کی جیت نے ایک نئی سیاسی لہر کو جنم دیا۔ ”دی مسلم ووٹ” تحریک نے، جو غزہ میں جنگ بندی کے لیے سیاستدانوں کی ناکامی کے احتجاج میں بنائی گئی تھی، مسلم کمیونٹی کی سیاسی طاقت کو اجاگر کیا۔
لیبر پارٹی کو مسلم اکثریتی علاقوں میں 2024ء کے انتخابات میں تین لاکھ ووٹوں کا نقصان ہوا، اور ان کا ووٹ شیئر 65فیصد سے گر کر 36فیصد ہو گیا۔ یہ تبدیلی ظاہر کرتی ہے کہ مسلم کمیونٹی اب روایتی جماعتی وفاداریوں سے ہٹ کر مسائل کی بنیاد پر ووٹنگ کر رہی ہے۔ یہ سیاسی بیداری نہ صرف مسلم کمیونٹی کے لیے بلکہ پورے برطانوی سیاسی منظرنامے کے لیے ایک اہم تبدیلی ہے۔
اس تنازع میں چارلی کرک کے قتل نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔ اس امریکی قدامت پسند کارکن کی موت دائیں بازو کی تحریک کے لیے ایک ریلی پوائنٹ بن گئی۔ ٹامی رابنسن نے 13ستمبر کے مظاہرے میں اسے خراج تحسین پیش کیا، اور ایلون مسک نے بھی اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بائیں بازو ’’ قتل کا جشن‘‘ منا رہا ہے۔ یہ بیانات امریکی اور برطانوی دائیں بازو کے درمیان گہرے تعلقات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایلون مسک کا کردار اس پورے معاملے میں غیر معمولی ہے۔ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک اور ایکس کے مالک ہونے کی حیثیت سے ان کا برطانوی سیاست میں براہ راست مداخلت کرنا ایک نئی قسم کا چیلنج ہے۔ ان کا پارلیمان کی تحلیل کا مطالبہ اور ’’ فائٹ بیک اور ڈائی‘‘ کا نعرہ نہ صرف اس تحریک کو عالمی توجہ دلا رہا ہے بلکہ قومی خودمختاری کی سوال کو بھی اٹھا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ایک غیر ملکی شخصیت کا اس طرح اثر انداز ہونا جمہوری عمل کے لیے نئے سوالات کھڑے کرتا ہے۔ برطانیہ اس وقت ایک نازک موڑ پر ہے۔ ایک طرف دائیں بازو کی تحریک ہے، جو 13ستمبر کے مظاہرے جیسے بڑے اجتماعات کے ذریعے اپنی طاقت دکھا رہی ہے، اور دوسری طرف مسلم کمیونٹی کی سیاسی بیداری ہے، جو 25ارکان پارلیمان اور آزاد امیدواروں کی کامیابی سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ دونوں قوتیں برطانوی معاشرے کے مستقبل کی سمت طے کر رہی ہیں۔ اگر یہ تعامل تعمیری ہوا تو یہ ایک مضبوط اور متنوع معاشرے کا باعث بن سکتا ہے، لیکن اگر یہ تصادم کی شکل اختیار کر گیا تو ملک کو گہری تقسیم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
معاشی حالات، بڑھتی ہوئی قیمتیں، رہائش کا بحران اور ملازمت کے مواقع کی کمی عوام میں مایوسی پیدا کر رہی ہے، جو سیاسی انتہا پسندی کو ہوا دیتی ہے۔ اگر ان مسائل کو حل نہ کیا گیا تو یہ تنائو مزید بڑھے گا۔ میڈیا کی ذمہ داری بھی ناقابل انکار ہے۔ متوازن رپورٹنگ نفرت کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے، جبکہ سنسیشنل کوریج صورتحال کو مزید خراب کرتی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی جھوٹی معلومات اور نفرت انگیز مواد کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ ٹیل ماما نے ایکس کو اینٹی مسلم نفرت کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیا، لیکن یہ پلیٹ فارم مسلم کمیونٹی کو اپنی آواز اٹھانے کا موقع بھی دیتا ہے۔ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے جو نفرت اور اتحاد دونوں کو فروغ دے سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button