Column

ظالم اسرائیل کیخلاف اسلامی دُنیا متحد

ظالم اسرائیل کیخلاف اسلامی دُنیا متحد
دوحہ میں ہونے والا ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس اس امر کا ثبوت ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے، جب خون ناحق بہایا جائے، جب انسانی اقدار کو روند ڈالا جائے، تو مسلمان ممالک اپنی سیاسی، مذہبی اور انسانی ذمے داریوں کے تحت متحد ہوسکتے ہیں۔ اس اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ محض ایک دستاویز نہیں، بلکہ اسرائیل کی بربریت، عالمی بے حسی اور اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی کے خلاف امت مسلمہ کی اجتماعی مزاحمت کا تاریخی اعلان ہے۔ اجلاس کا محرک وہ مذموم واقعہ تھا، جس میں اسرائیل نے دوحہ میں موجود حماس کے مذاکرات کاروں کو نشانہ بناکر نہ صرف قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی، بلکہ عالمی سفارتی آداب اور جنگی قوانین کی بھی کھلی دھجیاں اڑائیں۔ قطر، جو ایک ثالث کے طور پر مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کے لیے مخلصانہ کوششیں کررہا تھا، خود اسرائیلی جارحیت کا شکار بنا۔ یہ حملہ دراصل اُس غیراعلانیہ پیغام کا عملی اظہار تھا جو اسرائیل اپنے مخالفین کو برسوں سے دیتا آیا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ اسرائیل کی یہ کارروائی صرف ایک ملک پر حملہ نہیں بلکہ بین الاقوامی ثالثی، امن کوششوں اور سفارتی عمل پر بھی حملہ ہے۔ دوحہ اجلاس میں اس حملے کی شدید مذمت کی گئی اور قطر سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کو جوابی ردعمل دینے کے لیے مکمل تعاون کا یقین دلایا گیا۔ یہ مسلم دنیا کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔ دوحہ اجلاس میں تمام مقررین کی گفتگو کا مرکزی نکتہ غزہ میں جاری نسل کشی اور اسرائیل کے جنگی جرائم تھے۔ فلسطینیوں پر بمباری، بنیادی انسانی ضروریات سے محرومی، اسپتالوں اور اسکولوں کی تباہی اور نہتے شہریوں کا قتل، یہ معمولی جرائم نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف سنگین اقدامات ہیں۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمدالثانی کی تقریر میں وہ درد نمایاں تھا جو ایک ثالث، ایک ہمسایہ اور ایک مسلمان کی حیثیت سے قطر محسوس کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم میں تمام حدیں پار کردی ہیں اور ’’گریٹر اسرائیل’’ کا خواب عالمی امن کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ ان کا یہ بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہ امر صرف غزہ کی بات نہیں بلکہ پورے خطے کو درپیش ممکنہ تباہی کی نشان دہی کرتا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں اسرائیلی جنگی جرائم کی مذمت، اسلحہ کی فراہمی بند کرنے کی اپیل اور اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات پر نظرثانی کی سفارش ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط، مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، عراق کے وزیراعظم محمد شیاع السودانی اور فلسطینی صدر محمود عباس، سب نے اسرائیلی مظالم کے خلاف کھل کر آواز بلند کی۔ اب وقت ہے کہ اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کیے جائیں اور عالمی سطح پر سفارتی محاذ پر جارحانہ حکمت عملی اپنائی جائے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی تقریر حسب روایت دوٹوک اور جرأت مندانہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کو کھلی جارحیت پر جواب دہ ٹھہرایا جائے۔ اردوان کا یہ بیان کہ ’’ اگر اسرائیل کی ہٹ دھرمی نہ روکی گئی تو غزہ اور پوری دنیا کا امن تباہ ہوجائے گا’’ دراصل عالمی برادری کو خبردار کرنے کے مترادف ہے۔ ترکی ہمیشہ سے فلسطینی کاز کا حامی رہا ہے، لیکن اب دیگر مسلمان ممالک کو بھی اسی طرح واضح اور دوٹوک موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ جذباتی تقریریں اور قراردادیں کافی نہیں، اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے مشترکہ معاشی، سفارتی اور قانونی حکمت عملی ناگزیر ہوچکی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں نہ صرف اسرائیلی حملے کی مذمت کی بلکہ فلسطینی عوام سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس دل دہلا دینے والے واقعے کا ذکر کیا جس میں ایک دس سالہ فلسطینی بچہ خوراک کے لیے کئی کلومیٹر پیدل چلا اور شہید کردیا گیا۔ ان کا یہ بیان کہ ’’اگر ہم نے اتحاد نہ کیا تو اسرائیل انسانیت کے خلاف اسی طرح اقدامات کرتا رہے گا’’، پوری مسلم دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ وزیراعظم نے عرب ٹاسک فورس کی تشکیل اور اسرائیل کے خلاف فوری اقدامات کا مطالبہ بھی کیا۔ یہ ایک عملی تجویز ہے، جسے اجلاس کے بعد بین الاقوامی فورمز پر لے جایا جانا چاہیے۔ قریباً تمام رہنمائوں نے اس بات پر زور دیا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے فلسطین کا حل ضروری ہے۔ 1967ء کی سرحدوں کے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام، جس کا دارالحکومت القدس ہو، ہی وہ راستہ ہے جس سے خونریزی کا خاتمہ ممکن ہے۔ یہ موقف صرف اصولی نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ بھی ہے، کیونکہ موجودہ صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔ دوحہ اجلاس میں کئی رہنمائوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ عالمی برادری، بالخصوص مغربی دنیا، اسرائیلی جارحیت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک اسرائیل کو اسلحہ فراہم کررہے ہیں، مالی امداد دے رہے ہیں اور ہر فورم پر اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ اس رویے نے اقوام متحدہ جیسے اداروں کی ساکھ کو بھی مجروح کیا ہے۔ عالمی برادری کی اس منافقانہ پالیسی کو اب بے نقاب کرنا ہوگا۔ مسلم دنیا کو مشترکہ لابی کی شکل میں اقوام متحدہ، انٹرنیشنل کرمنل کورٹ اور دیگر عالمی فورمز پر اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف مقدمات دائر کرنے چاہئیں۔ دوحہ اجلاس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مسلم دنیا اب مزید خاموش نہیں رہے گی، اب وقت ہے کہ:اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات پر فوری نظرثانی کی جائے۔ اسلحے کی فراہمی بند کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ ڈالا جائے۔ عرب ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جو فلسطینیوں کی مدد کرے۔ اقوام متحدہ اور عالمی عدالتوں میں اسرائیل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ یہ اقدامات اگر سنجیدگی سے کیے جائیں تو دوحہ اجلاس تاریخ میں ایک موڑ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وہ موڑ جب مسلم دنیا بیدار ہوئی، متحد ہوئی اور ظالم کے سامنے دیوار بن گئی۔ دوحہ اجلاس نے ہمیں یہ سکھایا کہ جب دلوں میں درد ہو، ضمیر زندہ ہو اور قیادت مخلص ہو، تو امت مسلمہ ظلم کے خلاف متحد ہوسکتی ہے۔
بھارت کھیل کو تو آلودہ نہ کرے
پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان گزشتہ اتوار کو ایشیا کپ کے سلسلے کا ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلا گیا، جس میں بھارت نے پاکستان کو 7وکٹوں سے شکست دے کر جیت اپنے نام کی۔ بھارت کی جانب سے کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا، لیکن اس کو آلودہ کرنے کے لیے سالہا سال سے ہر مذموم ہتھکنڈا آزمایا جارہا ہے، پاک بھارت مقابلوں کو دُنیا بھر کے شائقین جوش و خروش کے ساتھ دیکھتے ہیں، کانٹے دار مقابلے دیکھنے میں آتے ہیں، جن سے سب ہی محظوظ ہوتے ہیں۔ ہار جیت کھیل کا حصّہ ہوتی ہے، جو ٹیم اچھا کھیلتی ہے، جیت اُس کا مقدر بنتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ مقابلے میں قومی کھلاڑی اچھا کھیل پیش نہ کر سکے اور قابل قدر مجموعہ ترتیب نہ دے سکے، اس وجہ سے شکست اُن کا مقدر بنی، لیکن اس میچ کے کھیل بھارت کی جانب سے اسپورٹس مین اسپرٹ کی جو دھجیاں اُڑائی گئی ہیں، وہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ دُنیا بھر کے غیر جانبدار حلقے بھارت کے اس اقدام کی مذمت کر رہے ہیں۔ میچ ریفری نے ٹاس کے وقت پاکستان کے کپتان سلمان علی آغا کو بھارتی ہم منصب سے ہاتھ نہ ملانے کی ہدایت کی۔ اسی طرح میچ کے اختتام کے بعد بھارتی کھلاڑیوں نے پاکستان کے کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے سے اجتناب کرتے ہوئے ڈریسنگ روم کا رُخ اختیار کیا اور اپنے ڈریسنگ روم کو بند کرلیا۔ اس واقعے سے کھیل کی ساکھ پر بُری طرح ضرب پڑی۔ پاکستان نے اس معاملے کو انتہائی بھرپور طور پر اُٹھایا ہے۔ میچ ریفری کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان ایشیا کپ کے اپنے باقی مقابلوں میں حصّہ نہیں لے گا۔ مودی حکومت جب سے بھارت میں برسراقتدار آئی ہے، وہ کھیلوں کو اپنی گندی سیاست میں گھسیٹ رہی ہے۔ کھیل میں ہار جیت کے بعد دونوں ٹیموں کے کھلاڑی خیر سگالی طور پر ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو جیت پر مبارک باد دیتے ہیں۔ مودی کی مذموم حکمت عملی نے کرکٹ ایسے کھیل کو آلودہ کردیا ہے۔ مودی کے دور میں بھارت بدترین بن چکا ہے، جہاں اقلیتوں کے لیے اسے جہنم قرار دیا جانے لگا ہے، وہیں ہندو انتہا پسند اکثریت کی جانب سے بدترین ظلم و ستم کی بے شمار نظیریں بھی سامنے آرہی ہیں۔ بھارت کی جانب سے اسپورٹس مین اسپرٹ کی خلاف ورزی پر آئی سی سی کو سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔ اس مذموم اقدام پر ناصرف میچ ریفری کے خلاف بلکہ بھارت کے خلاف بھی سخت ایکشن لیا جائے۔

جواب دیں

Back to top button