فلسطین کے مسئلے کا حل اب زیادہ دور نہیں

فلسطین کے مسئلے کا حل اب زیادہ دور نہیں
تحریر: رفیع صحرائی
آخرکار دنیا نے ایک بار پھر اپنے ضمیر کی صدا کو سن کر اس پر لبیک کہہ دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک بار پھر دنیا کو یاد دلایا ہے کہ فلسطینی عوام کی آزادی کا سوال محض ایک خطے یا چند قوموں کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ ’’ دو ریاستی حل‘‘ پر قرارداد کی بھاری اکثریت سے منظوری اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ عالمی رائے عامہ اب اسرائیلی قبضے کو مزید برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں۔ اس سلسلے میں قرارداد کے حق میں 142 ممالک کی حمایت ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ جنرل اسمبلی میں 142ممالک کا ’’ دو ریاستی حل‘‘ کے حق میں اٹھا ہوا ہاتھ صرف ایک قرارداد کی منظوری نہیں بلکہ یہ ایک عہد ہے۔ یہ اس خواب کی بازگشت ہے جو فلسطینی بچے پتھروں کی بارش اور بموں کے سائے میں بھی دیکھتے ہیں۔ فلسطین کی آزادی کا یہ خواب اس راہ میں شہید ہونے والا ہر فلسطینی اپنی اگلی نسل کی آنکھوں میں سجا کر رخصت ہوتا ہے۔
جنرل اسمبلی میں اس قرارداد کی منظوری اس بات کا اعلان بھی ہے کہ اسرائیل اور اس کے چند حواریوں کے سوا دنیا کی بھاری اکثریت انصاف اور حقِ خودارادیت کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ قرارداد ایک ایسی روشنی ہے جو اندھیروں کے چھٹ جانے کی نوید سنا رہی ہے۔ فلسطینی عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے اب اقوامِ عالم کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا یہ روشنی شعلہ بنے گی یا بجھتا ہوا چراغ ثابت ہو گی۔
پاکستان کا ہمیشہ سے یہ اصولی موقف رہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا امن فلسطین کے بغیر ادھورا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کی حمایت کو اپنی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول قرار دیا ہے۔ اب بھی اسلام آباد نے قرارداد کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اس کے حق میں ووٹ دے کر اپنی پالیسی کو دہرایا ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر بڑا اہم ہے کہ کیا صرف بیانات اور ووٹ ہی کافی ہیں؟ یا پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کو عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ معاشی اور سفارتی دبا کے ذریعے اسرائیل کو تنہا کرنے کی حکمتِ عملی بھی اختیار کرنی ہو گی؟
اس سلسلے میں عرب دنیا کا بدلتا ہوا رویہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ متحدہ عرب امارات اور قطر کے باہمی تنا کے پس منظر میں اسرائیل سفیر کی طلبی اور احتجاجی مراسلے کی ترسیل و ناراضی کے اظہار پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اسرائیل کو دبئی ایئر شو میں شرکت سے روک دینا بھی علامتی سہی مگر ایک طاقت ور پیغام ہے۔ یہ پیغام اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو باسر کراتا ہے کہ عرب دنیا اب اپنے تعلقات اور معاہدوں میں فلسطین کے معاملے کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتی۔
مسئلہ فلسطین کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل اور امریکہ کی مخالفت ہے۔ واشنگٹن کی غیرمشروط حمایت کے بغیر اسرائیل اتنی دیدہ دلیری سے بین الاقوامی قراردادوں کو روند نہیں سکتا۔ اس مقام پر اب عالمی ضمیر اور طاقت ور ریاستوں کی ذمہ داری سب سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یقیناً قرارداد کی منظوری ایک اہم سنگِ میل ہے مگر اصل چیلنج اس قرارداد پر عمل کرانا ہے۔ فلسطینی عوام گزشتہ سات دہائیوں سی قراردادوں، وعدوں اور بیانات کی طویل فہرست کے ساتھ جی رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ان کے گھروں پر بم برس رہے ہیں اور ان کی زمین پر آج بھی غاصبانہ قبضہ برقرار ہے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ فلسطین پر عالمی دبا بڑھایا جائے۔ طاقت کے مقابلے میں انصاف کے ساتھ کھڑا ہوا جائے۔ اگر عالمی طاقتیں سنجیدگی اور ایمانداری کے ساتھ ’’ دو ریاستی حل قرارداد‘‘ پر عمل کرانے کے لیے عملی قدم اٹھائیں تو یہ یقیناً کہ فلسطین کے مسئلے کا حل اب زیادہ دور نہیں۔ لیکن اگر دنیا نے ایک بار پھر دوغلی پالیسی اختیار کی تو یہ قرارداد بھی تاریخ کی کچرے دان میں جا گرے گی۔





