ColumnTajamul Hussain Hashmi

ناکام لوگ، کامیاب لوگ

ناکام لوگ، کامیاب لوگ
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
ہماری تحریر سے کوئی متفق ہو یا نا ہو لیکن جناب رئوف کلاسرا صاحب کہا کرتے ہیں کہ ’’ لوگ ہم سے اپنی بات کی تصدیق چاہتے ہیں اپنی ہاں میں ہاں سننا چاہتے ہیں‘‘۔ گزشتہ چند برس میں خواہ کوئی کتنا ہی طاقتور، بڑا مفکر یا کسی بڑی سیاسی جماعت کا رہنما عام فرد کی زندگی اس کے رویے کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا، پاکستان تحریک انصاف کہتی ہے کہ ہمارے بیانیے سے پورا پاکستان متفق ہے لیکن بات وہی کھڑی ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی۔ ملکی ترقی کیلئے عدل و انصاف ایک واحد پیمانہ ہے جو پورے نظام کو بدل سکتا ہے۔ عارضی زندگی جس کے پیچھے انسان دن رات مال کیلئے ہلکان ہو رہا ہے۔ دنیاوی کامیابی عارضی ہے۔ ہمارے ہاں مال و دولت اکٹھا کرنے کا جنون پہلے ہی اشرافیہ کے سر چڑھا تھا لیکن جب گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی خان جو یحییٰ خان کے قریبی ساتھی تھے انہوں نے میاں شریف کو قائل کیا کہ ایک بیٹے کو سیاست میں لائیں تاکہ کاروبار کو تحفظ مل سکے، تب سے ایوانوں میں کاروباری شخصیات کی یلغار شروع ہوگئی اور کامیابی کے لیے محنت، ایمانداری اور سیاست میں ووٹ جیسے بنیادی اصولوں کو بائی پاس کر دیا گیا، سیاسی لیڈر اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر اقتدار پر براجمان رہے۔ عوامی ووٹ کا تقدس پامال کیا گیا جو ابھی تک جاری ہے۔ اب پوری قوم بھی نیک نیتی سے زیادہ ان کندھوں کی تلاش میں ہے۔ تھوڑی سمجھ بوجھ رکھنے والا بندہ بھی دوچار طاقتورں کے نمبر محفوظ رکھتا ہے۔ وہ بھی سمجھ گیا ہے کہ حق کا حصول اصول سے نہیں کسی تگڑے کی سفارش سے ممکن ہو گا۔ دنیاوی کامیابی اور ناکامی کی وجوہات پر مفکرین نے کتابیں لکھیں، موٹیویشنل سپیکر دن رات ویڈیو بنا رہے ہیں اور علمائے کرام قرآن و سنت کے مطابق رہنمائی دے رہے ہیں لیکن معاشرتی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ چند لمحے خاموش ہوتے ہیں اور پھر اپنے کالے دھندوں میں مگن ہو جاتے ہیں، حکومتوں نے بھی اس پر کبھی توجہ نہ دی، کیونکہ وہ خود انہی گھپلوں، چال بازیوں میں مصروف ہیں۔ جب عام آدمی بے روزگار ہو تو وہ دوسروں کی کامیابی پر تنقید کے علاوہ کیا کرے گا۔ خالی دماغ کو شیطان کا گھر کہا گیا ہے۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم نے معاشرے کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایلیا نور روز ویلٹ کا مشہور قول ہے کہ ’’ عظیم دماغ خیالات پر، اوسط دماغ واقعات پر اور چھوٹے دماغ لوگوں پر بات کرتے ہیں ‘‘۔ لیکن ہمارے ہاں تو پورا معاشرہ تیسری سطح سوچ میں مبتلا ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہر کسی کو زبان دے دی ہے، دنیا بھر کی حکومتیں ناکام ہو گی ہیں، حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ایک سیکنڈ میں پوری دنیا ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ چند روز قابل کرونا ویکسین کے حوالے سے افواہیں چل رہی تھیں کہ اس سے انسانی زندگی پر خطرناک اثرات مرتب ہوئے ہیں، حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔ معاشی تنگ دستی ہی سب برائیوں کی جڑ ہے۔ اس کی وجہ سے عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ قریبی رشتے بھی ایک دوسرے کی قبر کھودنے میں دیر نہیں لگاتے۔ معاشی تنگی بڑھ گئی ہے، حلال، حرام کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔ بد اعتمادی عام ہو چکی ہے، سیاسی جماعتوں کی باہمی لڑائیوں نے معاشرے کی تقسیم کو گہرا کر دیا ہے، طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، لوٹ مار، کرپشن کو سرکاری ملازمین نے اپنا قانونی حق سمجھ لیا ہے اور احتسابی ادارے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں۔ پورے ملک میں سسٹم کی دھوم ہے۔ عدالتوں میں سسٹم پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ حالات اس نہج پر ہیں کہ لوگوں کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تو وہ گلی محلوں میں فساد ہی کریں گے، اپنے ہی لوگوں پر وار کریں گے، دوسروں کے حقوق غضب کریں گے، آئین پامال کریں گے، حالیہ سیلاب نے جہاں گائوں کے گائوں اجاڑ دئیے ہیں وہاں حکمران طبقے کی اصلیت کو بھی عیاں کیا ہے۔ حکومت آئین کی پامالی پر شور تو مچاتی ہے، جلسے جلوس کرتی ہے، احتسابی بیانیہ بناتی ہے لیکن افسوس کہ اصل احتساب حکومت کا ہونا چاہیے کیونکہ حکومتی فیصلوں نے ملکی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی ترقی کے اصولوں کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button