ColumnImtiaz Aasi

کالعدم ٹی ٹی پی اور علی امین گنڈا پور

کالعدم ٹی ٹی پی اور علی امین گنڈا پور
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ایک اردو معاصر کی خبر میں کہا گیا کہ حکومت نے وزیراعلیٰ خیبر کے پی کے علی امین گنڈا پور کا بغیر ویزا اور پاسپورٹ افغانستان جانے کا نوٹس لیا ہے۔ بلاشبہ کسی بھی شہری کا بغیر ویزا اور پاسپورٹ دوسرے ملک جانا قابل گرفت ہے۔ خبر کے مطابق وزیراعلی کھلے عام کالعدم ٹی ٹی پی ( تحریک طالبان پاکستان) کی حمایت کرکے پاکستانی عوام کی تائید کے حق دار نہیں رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کو دہشت گردوں اور پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ تحریک انصاف کو افغان دہشت گردوں کی بارے میں ہمدردانہ موقف کے تناظر میں افغان حکام سے رابطے کے بارے میں اپنے ایجنڈے اور موقف کی وضاحت پیش کرنا ہوگی وغیرہ۔ دراصل فاٹا کی آزاد حیثیت کے خاتمے سے بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے۔ جب تک قبائلی علاقہ جات فاٹا ریگولیشن کے تحت رہے کم از کم دہشت گردی نہیں ہوتی تھی، لیکن فاٹا کو کے پی کے کا حصہ بنانے کے بعد وہاں کے رہنے والوں نے افغان طالبان کے اشتراک سے مملکت کے اندر دہشت گردی شروع کر دی۔ یہ بات درست ہے انگریز سرکار نے فاٹا کے لوگوں کو آزاد حیثیت دی، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں وہاں کے رہنے والے کسی قانون سے بالاتر تھے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا فاٹا کے علاقوں میں دہشت گردوں نے پناہ گاہیں بنا رکھی تھیں، جنہیں پاک فوج نے ختم کرنے میں جان کے نذرانے دیئے تب جا کر دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ ہوا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا افغان جنگ سے قبل فاٹا میں امن و امان کی صورت حال تسلی بخش تھی، افغان جنگ میں امریکہ کا فرنٹ مین بننے کی ریاست پاکستان آج تک قیمت ادا کر رہی ہے۔ روسی جارحیت کے وقت کم از کم چالیس لاکھ افغان پناہ گزیں پاکستان آئے، جس کے بعد اب تک ان کی آمد کا سلسلہ بند نہیں ہو سکا ہے۔ افغانستان میں امن قائم ہونے کے باوجود مہاجرین وطن واپس جانے کو تیار نہیں، حالانکہ انہیں طالبان حکومت کے قیام کے بعد وطن واپس چلے جانا چاہیے تھا۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی خواہش ہے فاٹا کی آزاد حیثیت بحال کی جائے، تاکہ وہ ایک مرتبہ پھر اپنی پناہ گاہیں بنا سکیں جو ممکن نہیں رہا ہے۔
سوال ہے افغان جنگ کے دوران مجاہدین کو تربیت کسی نے دی اور کس مقصد کے لئے دی ؟۔ بانی پی ٹی آئی پر الزام لگایا جاتا ہے وہ افغانستان جانے والے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو واپس لایا۔ کیا ٹی ٹی پی والوں کو واپس لانے کا فیصلہ عمران خان نے تنہا کیا تھا یا اس میں کسی اور کا بھی عمل دخل تھا؟، ایک اردو معاصر نے اپنے چیف ایڈیٹر کی پی ٹی آئی دور میں گرفتاری کا بدلہ لینے کے لئے عمران خان کے خلاف اخبار میں ایک مہم چلا رکھی ہے۔ ہر روز نت نئے کارٹون اور چھوٹی سے چھوٹی خبر کو اخبار کی لیڈ اسٹوری یا پھر سپر لیڈ بنا کر شائع کرنا اخبار کا روز مرہ کا معمول بن گیا ہے۔ جہاں تک فاٹا کی آزاد حیثیت کی واپسی کی بات ہے وہ ممکن نہیں رہا ہے، البتہ کالعدم ٹی ٹی پی سے معاملات بات چیت کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان ایئرفورس نے افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر حملے کر کے دیکھ لیا دہشت گردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے، لہذا صوبے میں امن و امان قائم بات چیت کے ذریعے قائم ہو سکتا ہے۔ جہاں تک افغانستان کی بات ہے سمندر نہ ہونے سے افغانستان پاکستان کی ہمیشہ Liabilityرہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی روابط اور سفارتی تعلقات ہیں، لہذا پاکستان طالبان حکومت سے باہم مل کر ہی دہشت گردی پر قابو پا سکتا ہے۔ ایک بات واضح ہے افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی دونوں نے امریکی، اتحادی افواج کا مقابلہ کرکے انہیں واپس جانے پر مجبور کیا، جس کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کا ایک دوسرے سے جدا ہونے کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ علیحدہ بات ہے طالبان حکومت کا ہمیشہ موقف رہا ہے وہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دے گی، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ افغانستان کو بھی سوچنا چاہیے پاکستان اور افغانستان دونوں مسلمان ملک ہیں۔ گو پاکستان اور افغانستان کی ثقافت الگ الگ ہے، لیکن دونوں اللہ اور اس کے رسولؐ کے ماننے والے ہیں۔ اگرچہ کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے وفاقی حکومت کو وزیراعلیٰ علی امین سے مل کر مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر علی امین گنڈا پور تنہا افغانستان جانے کی بات کرتا ہے تو اس طرح کی نوبت کیوں آئی ہے۔ وفاقی حکومت کو وزیراعلیٰ علی امین کو اعتماد میں لینا چاہیے اور سفارت کاری سے دونوں ملکوں کے مسائل کا شافی حل نکالنا ہوگا۔ افغانستان کو پاکستان کی ان خدمات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے، چار عشروں سے زیادہ عرصہ سی افغان پناہ گزیں یہاں قیام کئے ہوئے ہیں۔ ایران نے ایک افغان مہاجر کو کیمپ سے باہر نہیں نکلنے دیا، مگر پاکستان میں افغان پناہ گزین آزادی سے رہ رہے ہیں، ان کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ویسے بھی کسی ملک کو دوسرے ملک کو کسی نظام کی تبدیلی کے لئے دبائو نہیں ڈالا جا سکتا۔ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے جس کا قیام اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔
امریکہ تو افغانستان سے چلا گیا، دونوں ملکوں کے درمیان ایسا رخنہ ڈال گیا جسے درست کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کو سر جوڑ کر اپنے اپنے مسائل کا کوئی مستقل حل نکلانا چاہیے۔ افغانستان سے آنے والوں کو بغیر ویزے غیر قانونی طور پر پاکستان کی طرف نقل مکانی نہیں کرنی چاہیے۔ دنیا کا کوئی ملک کسی غیر ملکی کو اپنے ہاں غیر قانونی طور پر قیام کی اجازت نہیں دیتا، افغان پناہ گزیں عشروں سے یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ایک وقت تھا جب پاکستان سمیت دنیا بھر سے لوگ جشن کابل میں شرکت کے لئے افغانستان جایا کرتے تھے، افغانستان پر بھی برا وقت آیا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اب افغان طالبان کی عبور ی حکومت ہے، افغان مہاجرین کو بھی اپنے وطن واپس جانے میں لیت و لعل نہیں کرنا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button