ColumnQadir Khan

برطانیہ میں دائیں بازو کا تشدد اور اینٹی فاشسٹ ردعمل ( پہلا حصہ )

برطانیہ میں دائیں بازو کا تشدد اور اینٹی فاشسٹ ردعمل ( پہلا حصہ )
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
برطانیہ آج ایک ایسے تاریخی موڑ پر کھڑا ہے جہاں سماجی، سیاسی اور ثقافتی تنائو نہ صرف اس ملک کے مستقبل کی سمت طے کر رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک گہری بحث کو جنم دے رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں برطانیہ میں ہونے والی ہنگامہ آرائی، احتجاجات اور بدامنی محض چند واقعات کا نتیجہ نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے جمع ہونے والے مسائل کا عکاس ہے۔ یہ مسائل معاشی عدم مساوات، سماجی تبدیلیوں کے خوف، شناختی بحران اور عالمی کاری کے اثرات کا ایک پیچیدہ امتزاج ہیں، جو اب کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ اس صورتحال کی جڑیں ساتھ پورٹ میں پیش آنے والے ایک المناک واقعے سے ملتی ہیں، جہاں تین معصوم بچیوں کے قتل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور ایک ایسی آگ بھڑکائی جو تیزی سے پھیل گئی۔
30 جولائی 2024ء کو سائوتھ پورٹ میں ٹیلر سوئفٹ کے موضوع پر منعقد ایک ڈانس ورکشاپ کے دوران تین کمسن بچیوں کا قتل نہ صرف ایک دل دہلا دینے والا سانحہ تھا بلکہ اس نے برطانوی معاشرے میں موجود گہرے زخموں کو کھول دیا۔ یہ واقعہ اپنی نوعیت میں خوفناک تھا، لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اس سانحے سے کہیں بڑھ کر تھا۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی معلومات کا طوفان آیا جس نے دعویٰ کیا کہ حملہ آور ایک مسلمان پناہ گزین تھا۔ تاہم حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ مشتبہ شخص برطانوی نژاد تھا اور کارڈف میں پیدا ہوا تھا۔ لیکن اس جھوٹ نے ایک ایسی نفرت کی لہر کو ہوا دی کہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ ایکس، ٹیلیگرام اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز پر یہ افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور اس نے دائیں بازو کے گروہوں کو ایک موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں۔
یہ جھوٹی خبریں کوئی اتفاقیہ غلطی نہیں تھیں بلکہ ایک منظم مہم کا حصہ تھیں۔ دائیں بازو کے اثر و رسوخ رکھنے والے اکائونٹس اور رہنمائوں نے اس بیانیے کو تقویت دی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے 27شہروں اور قصبوں میں پرتشدد احتجاجات پھوٹ پڑے۔ یہ احتجاجات محض خود بخود نہیں ابھرے تھے بلکہ ان کی پشت پر ایک منظم کوشش تھی جو برسوں سے چھپے ہوئے سماجی تنائو کو ابھار رہی تھی۔ روتھرہام میں مظاہرین نے ایک ہولیڈے ان ایکسپریس ہوٹل کو آگ لگا دی جہاں پناہ گزین مقیم تھے۔ اس حملے میں ہوٹل کے اندر موجود لوگ خوفزدہ ہو کر پھنس گئے۔ اسی طرح ٹیم ورتھ میں فسادیوں نے کھڑکیاں توڑیں اور پولیس اہلکاروں پر حملے کیے۔ یہ واقعات اس امر کی واضح نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ کوئی بے قابو ردعمل نہیں تھا بلکہ ہدف بنائے گئے منظم حملے تھے جو خاص طور پر پناہ گزینوں اور مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنا رہے تھے۔
اگست 2024ء تک ان فسادات کے نتیجے میں 1280سے زائد افراد گرفتار ہوئے اور تقریباً 800مقدمات درج کیے گئے۔ یہ پیمانہ اتنا بڑا تھا کہ اس نے برطانوی معاشرے میں موجود گہری تقسیم کو بے نقاب کر دیا۔ یہ فسادات صرف چند دنوں تک محدود نہیں رہے بلکہ ایک مستقل پیٹرن بن گئے جو پورے ملک میں پھیلتا چلا گیا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم کیئر اسٹارمر کی نئی حکومت نے سخت اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے ’’ نیشنل وائلنٹ ڈس آرڈر پروگرام‘‘ کے تحت چھ ہزار خصوصی پولیس افسران تعینات کیے، چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اور کرمنل بیہیویئر آرڈرز نافذ کیے۔ اس کے علاوہ فوری انصاف کا نظام متعارف کرایا گیا، جس کے تحت کئی فسادیوں کو گرفتاری کے چند دنوں بعد تین سال تک کی سزائیں سنائی گئیں۔ یہ اقدامات فوری طور پر تو موثر ثابت ہوئے، لیکن ان سے وہ بنیادی مسائل حل نہیں ہوئے جو ان فسادات کی جڑ میں تھے۔ حکومت نے مسلم عبادت گاہوں کے لیے ہنگامی سکیورٹی کے انتظامات کیے، جو اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ احتجاجات خاص طور پر مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنا رہے تھے۔ لیکن یہ اقدامات وقتی طور پر صورتحال کو قابو میں لانے کے لیے تو کافی تھے، مگر طویل مدتی مسائل جیسے کہ امیگریشن پالیسی، معاشی عدم مساوات اور سماجی تقسیم کو حل کرنے کے لیے مزید جامع حکمت عملی کی ضرورت تھی۔
دائیں بازو کے تشدد کے ردعمل میں ایک مضبوط اینٹی فاشسٹ تحریک بھی ابھری، جو برطانوی معاشرے کی ایک اور جہت کو ظاہر کرتی ہے۔ سات اگست 2024ء کو درجنوں شہروں میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکلے، جن میں ٹریڈ یونینز، عام شہری اور مسلم کمیونٹی کے افراد شامل تھے۔ یہ مظاہرے اکثر دائیں بازو کے اجتماعات سے کئی گنا بڑے تھے اور انہوں نے تاریخی نعرہ ’’ نو پاساراں! ‘‘ کو زندہ کیا، جو 1936ء کی کیبل اسٹریٹ کی مشہور اینٹی فاشسٹ تحریک کی یاد دلاتا ہے۔ یہ مظاہرے صرف ایک ردعمل نہیں تھے بلکہ برطانیہ کے کثیر ثقافتی تشخص کی حفاظت کی ایک مضبوط کوشش تھی۔ یہ مقابلہ محض دو گروہوں کے درمیان نہیں تھا بلکہ یہ برطانوی معاشرے کی دو متضاد سوچوں کا تصادم تھا۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو امیگریشن کو ملک کے لیے خطرہ سمجھتے تھے اور دوسری طرف وہ جو ایک متنوع اور جامع معاشرے کے حامی تھے۔ یہ اختلافات نہ صرف سیاسی تھے بلکہ ان کی جڑیں برطانوی شناخت کی بنیادی تعریف سے جڑی ہوئی تھیں۔ کیا برطانیہ ایک ایسی قوم ہے جو تنوع کو قبول کرتی ہے یا وہ اپنی تاریخی شناخت کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہتی ہے؟ یہ سوال اس وقت برطانیہ کے ہر شہری کے ذہن میں ہے۔
برطانیہ میں احتجاج کا سب سے بڑا مظاہرہ13ستمبر 2025ء کو لندن میں ’’ یونائیٹ دی کنگڈم‘‘ ریلی کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ ٹامی رابنسن کے زیر اہتمام اس مظاہرے میں ایک لاکھ دس ہزار سے ایک لاکھ پچاس ہزار افراد نے شرکت کی۔ یہ گزشتہ کئی دہائیوں میں برطانیہ کا سب سے بڑا دائیں بازو کا مظاہرہ تھا، جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ تحریک کتنی گہری جڑیں پکڑ چکی ہے۔ اس ریلی کی وجوہ صرف سائوتھ پورٹ کا سانحہ یا امیگریشن پالیسی کے خلاف غصہ نہیں تھیں بلکہ یہ برسوں سے جمع ہونے والے عوامی جذبات کا نتیجہ تھیں۔ خاص طور پر پناہ گزینوں کو ہوٹلوں میں رکھنے کی حکومتی پالیسی کے خلاف غم و غصہ، جب کئی پناہ گزینوں پر جنسی حملوں کے الزامات لگے، مزید شدت اختیار کر گیا۔
( جاری ہے )

جواب دیں

Back to top button