روشنیوں کا شہر، سیاست کی تاریکیوں میں

روشنیوں کا شہر، سیاست کی تاریکیوں میں
حرف جاوید
تحریر: جاوید اقبال
کراچی، وہی شہر جسے کبھی ’’ روشنیوں کا شہر‘‘ کہا جاتا تھا، آج اندھیروں، دھول اور کچرے کے ڈھیروں میں اپنی پہچان ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔ کبھی ساحلوں کی نرمی اور سمندر کی ٹھنڈی ہوا کے لیے مشہور، کبھی اپنی گہماگہمی اور تجارتی سرگرمیوں کے سبب معاشی شہ رگ کہلانے والا یہ شہر اب ایک المیہ کہانی کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ افسوس کہ یہ المیہ کسی بیرونی دشمن کی سازش یا قدرتی آفت کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے اپنے حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کی آپسی رسہ کشی، الزام تراشی اور بے حسی کا نتیجہ ہے۔
بارشیں آتی ہیں تو سڑکیں ندیوں کا منظر پیش کرتی ہیں، گاڑیاں کشتیوں کا روپ دھار لیتی ہیں اور شہری اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہی کمر تک پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ چند دن گزرتے ہیں، سورج نکلتا ہے، پانی خشک ہوتا ہے اور وہی سڑکیں ریگستان کا نقشہ پیش کرنے لگتی ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی شاہراہوں پر ایسی گرد اُڑتی ہے کہ جیسے کسی صحرا میں ہوا چل رہی ہو۔ کوئی سوچے کہ یہ منظر کراچی کا ہے یا کسی ویران قصبے کا؟۔
کراچی کے شہری ہر بار بارش کے ساتھ امید باندھتے ہیں کہ شاید اس بار کچھ مختلف ہوگا، مگر نتیجہ ہمیشہ ایک جیسا نکلتا ہے۔ اس ناکامی کی ذمہ داری کون لیتا ہے؟ حالیہ دنوں میں میئر کراچی کی پریس کانفرنس اور اس کے بعد پیدا ہونے والے جوابی بیانات نے اس المیے کو مزید اجاگر کیا۔ ایک طرف میئر مرتضیٰ وہاب نے کھلے انداز میں الزام لگایا ہے کہ جماعتِ اسلامی کے ٹائون چیئرمین اپنے اپنے علاقوں میں کام نہیں کر رہے۔ بلکہ ان کا اصرار ہے کہ جماعتِ اسلامی کے مقامی نمائندے اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام ہیں، جس کا برا اثر شہریوں کی روزمرہ زندگی پر پڑ رہا ہے۔
دوسری طرف جماعتِ اسلامی کراچی کے نائب امیر اور اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈوکیٹ نے میئر کے بیان کو سخت الفاظ میں مسترد کیا اور بھرپور جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ چاہے میئر کتنا ہی شور مچائیں، جماعتِ اسلامی اپنے ٹائونوں میں عوامی خدمت جاری رکھے گی۔
تیسری جانب ایم کیو ایم نے بھی میئر کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور بعض اراکین نے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میئر کی انتظامی نااہلی شہر کے بار بار ڈوبنے کی بنیادی وجہ ہے اور وہ اپنی کارکردگی پر جواب دہ ہیں ۔ یوں شہر کی تین بڑی سیاسی قوتیں بیک وقت ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھاتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہر طرف الزام تراشیاں ہیں، تینوں قوتیں عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں، اور اصل کیچڑ بارش کے بعد سڑکوں اور شہریوں کے کپڑوں پر نظر آتا ہے۔
یہ سیاسی دنگل اتنا بڑھ گیا ہے کہ عوام کے اصل مسائل پسِ پشت چلے گئے ہیں۔ کراچی کے مسائل محض بارش یا کچرے تک محدود نہیں، بلکہ یہ شہر پانی کی قلت، ٹرانسپورٹ کے فقدان، اسٹریٹ کرائم اور صحت و تعلیم کی زبوں حالی کا مجموعی نوحہ بن چکا ہے۔ آج بھی لاکھوں شہری پانی کے ٹینکرز پر انحصار کرتے ہیں، ٹرانسپورٹ کا نظام اتنا ناکام ہے کہ بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے والے مناظر کسی ترقی پذیر نہیں بلکہ پسماندہ دیہات کی جھلک دکھاتے ہیں۔
یہ صورتِ حال شہری اعتماد کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہ ٹیکس جو کراچی کے شہری ادا کرتے ہیں، کہاں جا رہا ہے؟ اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کا حساب کون دے گا؟ کیا یہ رقوم واقعی ترقیاتی منصوبوں میں صرف ہو رہی ہیں یا کسی ’’ سسٹم‘‘ کی نذر ہو جاتی ہیں؟ یہ جملہ بازی نہ صرف شکوک و شبہات بڑھاتی ہے بلکہ شفافیت کے مطالبے کو بھی تشویش میں بدل دیتی ہے۔
کچرے کے ڈھیر گلیوں اور سڑکوں پر پھیلتے ہیں، مگر جماعتیں آپس میں بیانات کی جنگ لڑتی ہیں۔ اسٹریٹ کرائم نے شہریوں کا سکون چھین لیا ہے، مگر ہر پارٹی اپنے مخالف کو ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام کا اعتماد سیاست اور جمہوریت دونوں سے اٹھتا جا رہا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ ایک طرف شہری ٹیکسوں کی بھرمار سہتے ہیں، اور دوسری طرف بنیادی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں۔ عوام اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، لیکن ان کی صدائیں سیاسی نعروں کے شور میں دب جاتی ہیں۔
کراچی کی سیاست ہمیشہ اقتدار کے گرد گھومتی رہی ہے۔ ایم کیو ایم کبھی اس شہر کی واحد آواز سمجھی جاتی تھی، مگر اندرونی تقسیم در تقسیم نے اس کی سیاسی قوت توڑ دی۔ جماعت اسلامی نے بارہا عوامی مینڈیٹ کا دعویٰ کیا مگر عملی کارکردگی نہ دکھا سکی۔ حالیہ انتخابات میں میئر کراچی کا انتخاب بھی تنازعات اور شور شرابے سے عبارت رہا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ تینوں فریق اپنے حصے کی کرسی بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی نہیں سوچتا کہ اقتدار کا اصل مقصد عوام کی خدمت ہونا چاہیے۔ یہ رسہ کشی صرف کراچی کو مزید کھنڈر بنا رہی ہے۔ کراچی کے عوام حیرت انگیز طور پر صبر کرنے والے لوگ ہیں۔ وہ ہر مشکل برداشت کر لیتے ہیں، چاہے وہ بارش کے بعد کی تباہی ہو یا ٹرانسپورٹ کی اذیت ناک صورتحال۔ مگر یہ صبر کب تک قائم رہے گا؟ لوگ سوال کرتے ہیں کہ آخر ہمارے شہر کے ساتھ یہ سلوک کیوں؟ اگر لاہور میں بارش ہو تو چند گھنٹوں میں پانی نکال دیا جاتا ہے، اسلام آباد میں ایک سڑک ٹوٹ جائے تو مرمت شروع ہو جاتی ہے، مگر کراچی میں دہائیوں سے مسائل جوں کے توں ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا کراچی کو اس کی کھوئی ہوئی پہچان واپس مل سکتی ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے، مگر شرط یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی الزام تراشی بند کریں اور مل جل کر عملی اقدامات کریں۔ اس شہر کو بڑے پیمانے پر ماسٹر پلان کی ضرورت ہے، جس میں ٹرانسپورٹ، ڈرینیج سسٹم، کچرا کنڈیاں، صاف پانی کی فراہمی اور روزگار کے مواقع کو اولین ترجیح دی جائے۔
سیاست کا مقصد عوام کی بہتری ہوتا ہے، مگر جب سیاست جنگِ بیانات کا ذریعہ بن جائے تو وہ اپنے اصل مقصد سے دور ہو جاتی ہے۔ میئر کا کام صرف بیان دینا نہیں بلکہ انتظامی کارکردگی دکھانا ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کا کام صرف اپنے مخالف کو کچلنا نہیں بلکہ اپنے نمائندوں کی ٹھوس کارکردگی یقینی بنانا ہے۔ سیف الدین ایڈوکیٹ کے سوالات اگر درست ہیں تو ان کا جواب شفاف بینچ مارکس اور مالیاتی آڈٹ کے ذریعے دیا جانا چاہیے، نہ کہ زبانی الزام تراشی سے معاملہ کو طول دیا جائے۔
سیاسی جماعتوں کی اخلاقی ذمے داری یہ ہے کہ وہ عوام کے دکھ کو بیانیے سے آگے بڑھ کر حل کریں۔ اگر ٹائون چیئرمین کارکردگی دکھا رہے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں، اور اگر ناکام ہیں تو ان کے خلاف شفاف تفتیش ہو۔ یہی طریقہ اعتماد بحال کرے گا اور الزام تراشی کے چراغ گل کر دے گا۔
کراچی کی عظمت محض یادیں نہیں، یہ حقیقی امکانات کا شہر ہے۔ بندرگاہوں کی موجودگی، مختلف شعبوں میں کاروباری قوت، اور اس کا ثقافتی امتزاج اسے دوسرے شہروں سے ممتاز بناتا ہے۔ اس عظمت کو واپس لانے کے لیے سیاسی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا۔ الزام تراشیوں کی سیاست کو وقتی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے معیاری کارکردگی میں تبدیل کر کے ہی شہر کو وہ مقام دلایا جا سکتا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ اگر آج بھی فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم رہ کر عوامی مسائل کو پسِ پشت رکھتے ہیں تو کراچی کی نسلیں آئندہ بھی اسی مٹی، دھول اور اندھیروں میں گھری یادوں کے ساتھ زندہ رہیں گی۔ اگر میئر، جماعتِ اسلامی اور ایم کیو ایم اپنی شناخت کو عوامی فلاح کے ساتھ جوڑ لیں تو یہ شہر دوبارہ روشنیوں کا مرکز بن سکتا ہے، مگر اس کے لیے سیاسی انا اور بیان بازی کو خیر باد کہنا ہوگا۔





