Column

سیلاب متاثرین کیلئے خصوصی ریلیف پیکیج

اداریہ
سیلاب متاثرین کیلئے خصوصی ریلیف پیکیج
پاکستان اس وقت تباہ کن سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ ہزاروں خاندان اپنے گھر، فصلیں، مال مویشی، روزگار اور یہاں تک کہ اپنے پیارے بھی کھو چکے۔ ایسی نازک صورت حال میں وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے سیلاب متاثرین کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان مثبت قدم ہے، یہ امر ہمدرد اور فلاحی ریاست کی سوچ کا بھی عکاس ہے۔ وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں سیلاب متاثرین کے اگست کے بجلی کے گھریلو بل معاف کرنے کا اعلان کیا اور ان بلوں کی ادائیگی وفاقی حکومت کی جانب سے کرنے کا وعدہ کیا۔ ایسے اقدامات، اگر بروقت اور دیانت داری کے ساتھ کیے جائیں، تو متاثرین کی مشکلات میں خاصی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے مختصر خطاب میں اس امر کو واضح کیا کہ یہ کوئی احسان نہیں بلکہ سیلاب متاثرین کا حق ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جن گھریلو صارفین نے اگست کے بل پہلے ہی ادا کر دئیے ہیں، یہ رقم اُن کے اگلے مہینے کے بلوں میں ایڈجسٹ کردی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی کمرشل، صنعتی اور زرعی صارفین کے بل فی الحال موخر کر دئیے گئے ہیں اور ان کے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے بعد مزید ریلیف دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ حکومت نے وقتی طور پر نہیں بلکہ مکمل بحالی تک متاثرین کی مدد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ وزیراعظم کی اس بات نے دلوں کو چھو لیا کہ ’’ ہم اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک سیلاب سے متاثرہ ہر فرد دوبارہ آباد نہیں ہوجاتا‘‘۔ یہ اقدامات یقیناً قابلِ تعریف ہیں، اس ریلیف پیکیج کو صرف زبانی دعویٰ نہ رہنے دیا جائے بلکہ اس کے نفاذ کے لیے سخت مانیٹرنگ، شفافیت اور جواب دہی کا نظام متعارف کروایا جائے۔ متاثرہ علاقوں میں اکثر بجلی کی فراہمی معطل ہوتی ہے، لہٰذا سب سے پہلے بجلی کی جلد بحالی اور نقصانات کا تخمینہ درست طریقے سے لگانے کے لیے مقامی حکومتوں، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کو مربوط حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ اس کے ساتھ عوام کو آگاہی دینا بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے واجبات کی واپسی کے لیے کہاں رجوع کریں اور کیا دستاویزات درکار ہوں گی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم پاکستان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے ہنگامی عرب۔اسلامک سربراہی اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔ یہ اجلاس نہ صرف فلسطین کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں اہم ہے بلکہ پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر اپنے مسائل اجاگر کرنے کا ایک موقع بھی ہوسکتا ہے۔ اس وقت جہاں غزہ میں اسرائیلی بربریت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے، وہیں OIC جیسے پلیٹ فارمز پر پاکستان کی موجودگی ایک بار پھر مسئلہ کشمیر اور دیگر علاقائی و عالمی انسانی بحرانوں کو اجاگر کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس اجلاس کو نہ صرف فلسطینی عوام سے یکجہتی کے اظہار کے لیے استعمال کرے بلکہ موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات سے نمٹنے میں ترقی پذیر ممالک کو درپیش چیلنجز پر بھی بات کرے۔ گو پاکستان کی معیشت پہلے ہی شدید دبائو میں ہے۔ روپے کی گراوٹ، مہنگائی اور آئی ایم ایف کے سخت مطالبات جیسے مسائل کے باوجود حکومت کا یہ قدم کہ وہ اپنے وسائل سے بجلی کے بلوں کی ادائیگی کرے گی، معاشی لحاظ سے ایک بڑا فیصلہ ہے۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ریاست اگر چاہے تو عوام کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتی ہے، لیکن اس کے لیے حکومت کو اپنے اخراجات میں کٹوتی، کرپشن کی روک تھام اور وسائل کے بہتر استعمال کو ترجیح دینا ہوگی۔ یہ امر بھی ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ یا انتخابی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ اصل مقصد متاثرین کی مشکلات کم کرنا اور انہیں جلد از جلد اپنی معمول کی زندگی کی طرف واپس لانا ہونا چاہیے۔ سیلاب صرف ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ یہ پاکستان کے لیے ایک وارننگ ہے کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں بارشوں کا پیٹرن، درجہ حرارت اور قدرتی آفات کی شدت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں صرف ریلیف پیکیج کافی نہیں بلکہ ہمیں مستقبل کی منصوبہ بندی بھی کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے شہری انفرا اسٹرکچر، نکاسی آب کے نظام، آبی ذخائر اور ڈیمز پر سنجیدگی سے سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ شہری منصوبہ بندی، ہنگامی صورت حال میں فوری ردعمل کی صلاحیت، اور مقامی حکومتوں کی مضبوطی وہ عوامل ہیں جو مستقبل میں ایسی آفات کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ سیلاب جیسے بحرانوں میں صرف حکومت کا کردار کافی نہیں ہوتا۔ سول سوسائٹی، رفاہی ادارے، مذہبی تنظیمیں اور عام شہری بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی و فلاحی تنظیموں کو ریلیف کے عمل میں شامل کرے اور ان کی نگرانی میں شفاف طریقے سے فنڈز تقسیم کیے جائیں۔ وزیراعظم کا حالیہ ریلیف پیکیج اگر مکمل نیک نیتی، شفافیت اور بروقت نفاذ کے ساتھ عمل میں لایا گیا، تو یہ ایک نئی شروعات ہوسکتی ہے۔ متاثرین کی بحالی ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اگر حکومت، عوام، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی برادری ایک صفحے پر آ جائیں، تو نہ صرف ہم اس آزمائش سے کامیابی سے نکل سکتے ہیں بلکہ آئندہ کے لیے ایک مضبوط، باوقار اور فلاحی پاکستان کی بنیاد بھی رکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک اور عوام کو قدرتی آفات سے محفوظ رکھے۔ (آمین)۔

شذرہ
جنگی جنون بھارت کو لے ڈوبے گا
بھارت میں مودی سرکار کا جنگی جنون ایک بار پھر شدت اختیار کرچکا ہے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق انڈین ایئرفورس نے وزارت دفاع کو 114نئے رافیل طیاروں کی خریداری کی تجویز دی ہے، جس پر قریباً دو کھرب روپے لاگت آئے گی۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب مودی حکومت داخلی سیاسی بحران کا شکار ہے اور آپریشن سندور کی ناکامی کے بعد اسے اپنی عوامی مقبولیت بچانے کے لیے ایک نیا بیانیہ درکار ہے۔ بھارتی میڈیا، خصوصاً اخبار ’’ دی ٹریبیون’’ کے مطابق، مودی حکومت نے دفاعی ٹینڈر کے بجائے براہِ راست فرانسیسی رافیل کمپنی ڈیسالٹ ایوی ایشن سے معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ طیارے ’’میڈ ان انڈیا’’ اسکیم کے تحت بھارت میں تیار کیے جائیں گے اور ان میں 60فیصد تک مقامی مواد شامل ہوگا۔ ساتھ ہی ان طیاروں کے انجن بنانے کے لیے سافران کمپنی نے حیدرآباد میں ایک مرکز قائم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس دفاعی معاہدے کا پس منظر پاکستان کے ہاتھوں 6رافیل طیاروں کی تباہی ہے، جو بھارت کے لیے ایک سنگین دھچکا تھا۔ یہ صورت حال اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت کا دفاعی نظام دعووں کے برعکس نہ صرف کمزور ہے بلکہ جنگی مہم جوئی کے بجائے اسے اپنی اندرونی اصلاحات پر توجہ دینی چاہیے۔ مودی سرکار کی یہ حکمت عملی نہ صرف خطے میں اسلحے کی دوڑ کو ہوا دے رہی ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔ بھارت کا یہ جنگی جنون ایک دن اُسے لے ڈوبے گا۔ اربوں روپے کے ہتھیار خریدنے کے بجائے بھارت کو چاہیے کہ وہ غربت، بے روزگاری اور انسانی حقوق کی پامالی جیسے اہم مسائل کی طرف توجہ دے۔ دفاعی اخراجات میں اندھا دھند اضافہ بھارت جیسے ملک کی معیشت کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے رافیل طیاروں کی خریداری دراصل ان ناکامیوں کا اعتراف ہے، جنہیں وہ پہلے جھٹلاتے رہے۔ اگر ان کے جدید رافیل واقعی اتنے ہی ناقابلِ شکست ہوتے، تو مزید 114طیاروں کی فوری ضرورت کیوں پیش آتی؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ پچھلے معاہدے اور دفاعی پالیسیوں میں سنجیدہ خامیاں موجود تھیں۔ پاکستان کو اس صورت حال میں ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنی سفارتی پوزیشن مضبوط رکھنی چاہیے اور عالمی برادری کو بھارت کے اسلحہ جمع کرنے کے جنون سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی اداروں کو چاہیے کہ وہ خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے والی بھارتی پالیسیوں پر نظر رکھیں اور جنگی سازوسامان کے انبار لگانے کی دوڑ کو روکیں۔ آخر میں، مودی حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ حقیقی طاقت اسلحہ سے نہیں بلکہ عوام کی خوشحالی، تعلیم، صحت اور معاشی ترقی سے حاصل ہوتی ہے۔ جنگی جنون کی راہ ترک کرکے امن اور خطے میں استحکام کے لیے اقدامات کرنا ہی بھارت سمیت پورے جنوبی ایشیا کے حق میں بہتر ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button