Column

خشک زمینوں کا زہریلا پھول: افیون کی نئی جنت

’’ خشک زمینوں کا زہریلا پھول: افیون کی نئی جنت‘‘
خواجہ عابد حسین
حالیہ برسوں میں بلوچستان، جو پہلے سے ہی عسکریت پسندی اور قانون کی کمزور عمل داری کا شکار ہے، اب ایک نئے اور خطرناک چیلنج کا سامنا کر رہا ہے، افیون کی بڑے پیمانے پر کاشت۔ طالبان کے افغانستان میں افیون کی کاشت پر پابندی عائد کرنے کے بعد، سیکڑوں افغان کسان پاکستان کے بلوچستان علاقے میں آ کر خشک زمینوں پر بھی کاشت شروع کر چکے ہیں۔ سیٹلائٹ تصاویر سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف دو چھوٹے علاقوں میں 8100ہیکٹر زمین پر پوپی ( پوست) کی کاشت ہو رہی ہے، جو کہ افغانستان کے دو تہائی صوبوں میں موجود کل رقبے سے بھی زیادہ ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف منشیات کے عالمی کاروبار کو متاثر کرے گی، بلکہ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس منافع سے دہشت گرد تنظیموں کو فنڈنگ ہوسکتی ہے، جن میں دولت اسلامیہ (ISIS)اور بلوچستان لبریشن آرمی (BLA)جیسے گروہ شامل ہیں۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ کچھ مقامی قبائلی اور سرحدی ملیشیا کو منشیات کے ان کاروبار سے ’’ ٹیکس‘‘ دیا جا رہا ہے، جس سے یہ شبہ اور بھی تقویت پکڑتا ہے کہ ریاستی اداروں کی مبینہ خاموشی یا شمولیت بھی ہو سکتی ہے۔ یہ المیہ ہے کہ پاکستان نے 2001ء میں خود کو ’’ پوپی فری‘‘ قرار دیا تھا، مگر آج ہم افغانستان سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔ افغان ماہر ڈیوڈ منس فیلڈ نے کہا ہے: ’’ بلوچستان کو نیا افغانستان کہا جا رہا ہے۔ یہاں قانون کی حکمرانی کمزور ہے، اور مختلف مسلح گروہ سرگرم ہیں‘‘۔ اگر اس افیون کی صنعت نے بلوچستان میں مضبوط جڑیں پکڑ لیں، تو نہ صرف یورپ تک منشیات کی رسد بڑھے گی، بلکہ پاکستان میں دہشت گردی، منی لانڈرنگ، اور عسکریت پسندی کو بھی فروغ ملے گا۔ حکومتِ بلوچستان کی جانب سے اس معاملے پر ایک ہنگامی بحث بھی ہوئی، جس میں اپوزیشن رکن زاہد ریکی نے کہا: ’’ یہ فصل ہماری نسل نو کو تباہ کر رہی ہے، اس پر فوری کنٹرول ناگزیر ہے‘‘۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا محض بیانات سے اس بڑھتے ہوئے خطرے پر قابو پایا جا سکے گا؟ کیا ہماری سرحدی نگرانی، قانون نافذ کرنے والے ادارے، اور مقامی انتظامیہ اس جانب کوئی ٹھوس حکمت عملی اپنائیں گے؟ یہ وقت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس مسئلے کو صرف ایک ’’ کانٹا‘‘ کے طور پر نہ دیکھیں، بلکہ اسے قومی سلامتی کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر سمجھیں۔ بین الاقوامی ماہرین کی مدد سے اس کاشت کو فوری طور پر روکا جائے، اور جو جگہیں اس زہر کی لپیٹ میں آ چکی ہیں، وہاں متبادل فصلوں اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
ورنہ یہ ’’ خشک زمینوں کا زہریلا پھول‘‘ ہماری آنے والی نسلوں کا استقبال کرے گا، نہ صرف نشے کی صورت میں، بلکہ دہشت گردی اور بدامنی کی شکل میں بھی۔

جواب دیں

Back to top button