ججز مراعات پر خواجہ اینڈ خواجہ کا ردعمل

ججز مراعات پر خواجہ اینڈ خواجہ کا ردعمل
میری بات
روہیل اکبر
سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، ہم اور ہمارے حکمران اپنی اصلاح کرنے کے بجائے تنقید در تنقید اپنا اولین فرض منصبی سمجھتے ہیں، یہ جس جماعت میں ہوتے ہیں، اپنے مفادات کی خاطر انہی کے گن گاتے ہیں۔ خواجہ آصف بھی بڑے کھلے دل کے سیاستدان ہیں، انہوں نے اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ خیر میں بات کر رہا تھا سیلابی صورتحال کی جہاں پنجاب ڈوبا ہوا ہے، اس پر تفصیلی بات کرنے سے پہلے وزیر دفاع خواجہ آصف اور مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق نے ریٹائرڈ ججز کی سکیورٹی کیلئے سپریم کورٹ کی جانب سے وزارت داخلہ کو لکھے گئے خط پر اپنے ردعمل کا بڑا سخت اظہار کیا ہے، دو روز قبل رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے چیف جسٹس پاکستان کی منظوری سے وزارت داخلہ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ ملک کی موجودہ سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر ہر ریٹائرڈ جج کو 3پولیس اہلکاروں پر مشتمل سکیورٹی فراہم کی جائے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جو جج انتقال کر چکے ہیں ان کی بیوائوں کو بھی 3 پولیس اہلکاروں کی سکیورٹی مہیا کی جائے تاکہ ان کی حفاظت یقینی بنائی جاسکے۔ سکیورٹی پر مامور اہلکار متعلقہ ڈی پی او کے ماتحت ہوں گے اور ان کی نگرانی بھی وہی کریں گے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے وزارت داخلہ کو لکھے گئے خط کی خبر سامنے آنے کے بعد مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق نے سوشل میڈیا پر خط کی کاپی شیئر کرتے ہوئے لکھا اگر یہ خط درست ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ حکم انصاف، مساوات اور عام آدمی کے تحفظ کے تقاضوں کے منافی ہے۔ سعد رفیق نے اپنی پوسٹ میں لکھا سب کو اچھی طرح معلوم ہو جانا چاہیے کہ سیاستدانوں، جرنیلوں اور ججوں کی لامتناہی خواہشات و مراعات کی تکمیل کا بارِ گراں اٹھاتے اٹھاتے پاکستانیوں کی کمر خمیدہ ہو چکی ہے، یہ غریب ریاست اس ملک کی اشرافیہ کے مزید ناز و ادا اٹھانے کے قابل نہیں رہی، یہ سلسلہ اب کہیں رکنا چاہیے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے سعد رفیق کی پوسٹ پر جواب دیتے ہوئے لکھا ہم سیاستدانوں کے ماڑے دن بھی آتے ہیں، لیکن ججوں کے میٹر چالو رہتے ہیں اور وہ ریٹائرمنٹ کے بعد نویں دکان کھو ل لیندے نے ( نئی دکانیں کھول لیتے ہیں) اور ہم پارلیمنٹ لاجز کے دو کمروں میں عمر گزار لیتے ہیں، جن کی سرکاری خرچے پر مرمت ہوئے بھی 25سال ہو گئے ہیں، جبکہ ہماری تنخواہ دو مہینے پہلے تک پونے 3لاکھ تھی، اب ساڑھے 5لاکھ ہوگئی ہے۔ میڈیا بھی ہمارا حساب کرتا ہے، باقی سب کے ساتھ میڈیا کا unholy allianceہے، ہماری سکیورٹی بھی زیرو جبکہ ججوں کی سکیورٹی کے لئے ٹینک بھی لے دیں تو وہ بھی ایک سے زیادہ مانگیں گے۔
یہ تو تھے خواجہ اینڈ خواجہ کے خیالات ججوں کی مراعات کے حوالے سے، اب آتے ہیں پانی کی تباہ کاریوں پر، کہ پاکستان کے تین بڑے دریائوں چناب، ستلج اور راوی میں دہائیوں کے بدترین سیلاب نے پنجاب میں تباہی مچا رکھی ہے، اس کی وجوہات کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں اور ماہرین ہائیڈرولوجسٹ ’’ واٹر ویپنائزیشن‘‘ کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہندوستان کے پاس پاکستان کے دریائوں، خاص طور پر مغربی دریائوں جیسے چناب، سندھ اور جہلم میں پانی کے بہائو کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ سندھ واٹر ٹریٹی نے ہمیشہ بھارت کو جہلم، چناب یا انڈس پر کسی بھی آبی ذخائر کی تعمیر سے روکا ہے۔ دریائے چناب میں سیلاب ہماچل پردیش اور بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں گزشتہ کئی ہفتے سے ہونے والی غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں آیا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جتنے بھی متنازعہ ڈیم بنائے ہیں جن میں بشمول بگلیہار اور سلال، رن آف دی ریور پراجیکٹس ہیں، جو پانی کی بڑی مقدار کو روک نہیں سکتے۔
پاکستان اور ہندوستان دونوں میں آبی ذخائر عام طور پر اگست کے دوسرے اور آخری ہفتے کے درمیان بھر جاتے ہیں، جس کے بعد پیدا ہونے والا اضافی پانی خود بخود سپل ویز کے ذریعے چھوڑ دیا جاتا ہے، کیونکہ کسی بھی ڈیم ریگولیٹر کے لیے یہ احمقانہ ہو گا کہ وہ ڈیم کی گنجائش تک بھرنے سے پہلے آبی ذخائر سے پانی چھوڑے۔ مثال کے طور پر دریائے سندھ پر پاکستان کا تربیلا ڈیم اگست کے وسط کے بعد اپنی صلاحیت سے بھر جاتا ہے، جس سے آپریٹرز کو اضافی پانی چھوڑنا پڑتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں ہر ڈیم کے ساتھ یہی عمل ہوتا ہے، پاکستان کے مغربی دریائوں میں پانی کے بہائو کو نمایاں طور پر متاثر کرنے کے لیے بھارت کو بڑے ڈیم بنانے یا ڈائیورژن انفراسٹرکچر بنانے میں کم از کم 10سے 15سال اور کھربوں ڈالر لگیں گے۔ اس وقت بھارت خود دریائے راوی کے پانی کو مکمل طور پر استعمال نہیں کر سکتا اور ہچکچاہٹ کے باوجود کم از کم ایک ملین ایکڑ فٹ سالانہ پاکستان کو چھوڑنے پر مجبور ہے، اگرچہ بھارت نے ستلج اور چناب میں سیلاب کی آمد کے بارے میں معلومات شیئر کرنے میں تاخیر کی ہے، لیکن وہ جان بوجھ کر اپنے پنجاب اور ہماچل کے علاقوں کو تباہ کیے بغیر پاکستان میں بڑی مقدار میں پانی نہیں چھوڑ سکتا۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی سیلاب سے نمٹنے کی حکمت عملیوں کا بھی جائزہ لیں۔ 2010ء اور 2022ء کے تباہ کن سیلابوں کے بعد ہم پاکستانیوں نے ایسے نقصانات کو کم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟، اس لیے وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے سیلاب کی پیش گوئی کے نظام کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی ماہرین اس سے جامع منصوبہ بندی کریں اور حکومتیں جنگلات کی کٹائی کو روکیں تاکہ گلیشیئر پگھلنے کی رفتار کم ہو اور موسمیاتی آفات کو کم کیا جا سکے اور خاص کر جنوبی ایشیائی ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق چیلنجوں کا حل تلاش کرنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے نہ کہ ہم نئی دکانداری کھول کر اپنا منجن بیچنا شروع کر دیں۔





