Column

پانی میں ڈوبے خواب اور سیلاب کا کرب

پانی میں ڈوبے خواب اور سیلاب کا کرب
محمد نور الہدیٰ
پلکیں ہیں بھیگی کسی کی
رخسار ہے نم کسی کا
گزشتہ روز سیلاب سے متاثرہ ملتان ڈویژن کے مختلف اضلاع کا دورہ کیا جہاں دکھ اور غم کی المناک داستانیں سننے کو ملی۔ بہت سے حقائق دیکھے، سیلاب کی وجہ سے اجڑے ہوئے گھروندے، ٹوٹے ہوئے گھر دیکھے، مکینوں کو روتے دیکھا، ان کے آنسووں نے مجھے بھی غمگین کر دیا۔ انہیں دلاسہ دیا، کچھ ضرورت کی چیزیں مہیا کیں۔ میرے ہمراہ جانے والے دیرینہ دوست حافظ زوہیب طیب نے ایک ایک خیمہ میں جا کر کیش رقوم دیں کہ متاثرین اپنی ضرورت پر خرچ کر سکیں۔ پھر اس نے معصوم بچے دیکھے تو افسوس کیا کہ ان کیلئے کچھ لا نہیں سکا۔ حافظ زوہیب طیب نے موقع پر ہی الخدمت فائونڈیشن کے ایک رضاکار کو پیسے دئیے اور بچوں کیلئے جوس، بسکٹ ٹافیاں، چپس اور فروٹ منگوا کر ان میں تقسیم کئے۔۔۔۔ میرے غم خوار دوست ساجد خان نے ہر کیمپ میں جا کر مرد حضرات میں سوٹ تقسیم کئے۔ ایک معصوم بچہ کی نظریں ساجد خان کے ہاتھ میں پکڑی پانی کی بوتل پر ٹھہر گئیں، تو ساجد کو محسوس ہوا کہ اسے ضرورت ہے۔ ساجد خان نے اسے اپنے ہاتھوں سے پانی پلایا جسے اس نے ایسے حلق میں اتارا جیسے وہ صدیوں کا پیاسا ہو۔ تاحد نگاہ دکھائی دینے والے سیلاب کے حالات یہ تھے کہ ہمارے ساتھ جانے والے ہمدم دوست فرخ شہباز وڑائچ کشتی پر بیٹھ کر سیلاب میں پھنسے لوگوں کی کوریج اور مدد کیلئے ان کے گھروں کی طرف گئے۔ ہر طرف پانی ہی پانی کی وجہ سے واپسی پر وہ راستہ کھو دئیے۔ کئی گھنٹے گزر گئے، رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں پریشانی ہوئی کہ کسی حادثے کا شکار نہ ہو گئے ہوں۔ موبائل سگنلز ندارد، رابطے کی کوئی سبیل نہیں۔ تلاش کیلئے ’’الخدمت‘‘ کے رضاکار بھی پانی میں اترے اور دوسری کشتی میں ان کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ بہت ڈھونڈا، مگر نہ ملے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ بالآخر شام ڈھلے فرخ شہباز واپس پہنچے تو ہماری جان میں جان آئی۔ وہ بتا رہے تھے کہ گھر 10سے 12 فٹ تک ڈوبے پڑے ہیں۔ لوگ بہت پریشان ہیں’’ "سمندری چوروں‘‘ کی وجہ سے، پانی میں ڈوبے ہونے کے باوجود کچھ گھرانے باہر آنے پر تیار نہیں تھی، جو آنا چاہتے تھے، وہ اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ مویشیوں کو بھی کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ مگر ان کے انخلا کیلئے پرائیویٹ کشتیوں والے ہزاروں میں تو بات ہی نہیں سنتے تھے، لاکھوں میں بھی بارگینگ کے ذریعے انخلا کرانے پر راضی ہوتے تھے۔ ان حالات میں نجی کشتی مافیا والے ناجائز فائدہ اٹھا رہا تھا۔ صورتحال نہایت گھمبیر تھی۔ الخدمت والے بتا رہے تھے کہ ان حالات میں بھی بعض سیلاب متاثرین ہم سے کشتی لے کر ٹھوس بہانہ بنا کر گھر کی طرف جاتے ہیں تو کشتی کے جیسے مالک بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اپنی مرضی سے واپس آتے ہیں، جبکہ اس بہانے کا وجود بھی نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر وہ گئے تھے۔ دوسری جانب اس عمل کی وجہ سے ریلیف سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی تھیں، کہ دوسرے لوگ ریسکیو کے انتظار میں بیٹھے رہتے تھے، کیونکہ ڈیزاسٹر بہت بڑا تھا اور اس ڈیزاسٹر کے حساب سے وسائل کم تھے۔
دوسری جانب ملتان ڈویژن میں ہی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر حکومتی کابینہ بھی سیلاب متاثرین کے درمیان گزشتہ ایک ہفتے سے مسلسل موجود ہے۔ سینئر وزیر مریم اورنگزیب، وزیر تعلیم رانا سکندر حیات، ہیلتھ منسٹر خواجہ سلمان رفیق اور دیگر ممبران اسمبلی رات گئے تک ریسکیو اور ریلیف آپریشن اپنی نگرانی میں کروا رہے ہیں۔ حکومتی سطح پر متاثرہ عوام کا دکھ اس قدر محسوس کیا جا رہا ہے کہ مریم اورنگزیب سیلاب متاثرین کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتی ہیں اور سارا دن ان کے ساتھ گزارتی ہیں۔ دیگر وزراء اور ممبران اسمبلی اپنے ہاتھوں سے متاثرین میں کھانا تقسیم کر رہے ہیں۔ وگرنہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں گھروں میں ایک گلاس پانی بھی ذاتی ملازم ہی پلاتے ہیں۔۔۔ جبکہ اے سی کے بغیر زندگی گزارنے کا یہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔۔۔۔ لیکن یہاں وہ متاثرین کے دکھ درد میں ذاتی حیثیت میں اس قدر شریک ہیں کہ 44ڈگری درجہ حرارت کے باوجود خیموں میں متاثرہ لوگوں کے درمیان رہ کر خدمت کرتے ہوئے انہیں نہ دن کا ہوش ہے نہ رات کا۔۔۔ مریم نواز نے ممبران اسمبلی اور وزراء کو ایسی جگہ پر رکنے کا حکم دے کر کے یہ باور کرایا کہ عوام کے درمیان رہ کر ان کے دکھ درد بانٹنا ہی اصل خدمت ہے۔ حکومتی کابینہ کے ہر وقت موقع پر موجود رہنے کی وجہ سے ضلعی انتظامیہ پوری طرح متحرک ہے اور ریلیف آپریشن میں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑی جا رہی۔ صوبائی کابینہ کے 24گھنٹے فیلڈ میں موجود رہنے کی وجہ سے ضلعی بیوروکریسی کی گردن کے سریا میں خم آیا اور وہ صحیح معنوں میں کام کرنے پر مجبور ہوئے تو متاثرین کو بھی بہت اطمینان ہوا۔ وگرنہ میں نے وہ علاقے بھی دیکھے جہاں حکومت بذات خود موجود نہ ہونے کی وجہ سے متاثرین کو مسائل درپیش آ رہے ہیں۔ مریم نواز خود بھی اس صورتحال کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹ طلب کر رہی ہیں اور مختلف خیمہ بستیوں میں جا جا کر لوگوں سے مل کر ان کا حوصلہ بڑھا اور آنسو پونچھ رہی ہیں۔ کوئی بھی وزیر اعلیٰ میلے کپڑوں، پسینے میں ڈوبے ہوئوں کو کبھی گلے نہیں لگاتا، مگر میں نے لوگوں کو مریم نواز کے سر پر دست شفقت رکھتے بھی دیکھا ہے اور وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود بزرگوں، بچوں کو گلے لگا کر داد رسی کرتے بھی دیکھا ہے۔ میں نے حکومتی کابینہ کو کوتاہی پر ضلعی انتظامیہ پر برستے بھی دیکھا۔ پھر یہیں پر بس نہیں ہوا بلکہ حکومتی سطح پر متاثرین کیلئے خصوصی پیکیج کے اعلانات بھی نہایت حوصلہ افزاء ہیں۔ گو کہ یہ پیکیج ان کے مکمل نقصانات کا مداوا تو نہیں کر سکے گا، لیکن ان کا کچھ بوجھ ضرور کم ہوگا۔ ان اقدامات سے یہ نتیجہ بھی اخذ ہوا کہ حکومت اگر ڈیزاسٹر میں متاثرہ مقامات پر ایسے ہی توجہ دے اور عوام کے غم میں براہ راست شریک ہو، تو متاثرین کے نقصان کا آدھا دکھ کم ہو جاتا ہے۔
میں ان تمام عوامل کا بغور مشاہدہ بھی کر رہا تھا اور بہت کچھ محسوس کر رہا تھا۔ سیلاب متاثرین کیلئے بنائی گئی خیمہ بستیوں کو وزٹ کرنے پر میں نے متاثرین کے جو مجموعی مسائل محسوس کئے وہ یہ تھے کہ: سمندری چوروں کی وجہ سے پانی میں ڈوبے ہونے کے باوجود لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ متاثرہ علاقوں اور خیموں کے اندر بلا کی گرمی ہے جس سے متاثرین پریشان اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ بچوں کو مصروف رکھنے کیلئے سرگرمیوں کی شرح یا تو ہے ہی نہیں، اگر موجود ہے تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ خیمہ مکینوں کی تعداد کے حساب سے واش رومز کی تعداد بہت کم ہے۔ جبکہ غسل خانے تو سرے سے موجود ہی نہیں۔ پینے کو پانی وافر مقدار میں دستیاب نہیں۔ خواتین کو پوشیدہ ایشوز اور ڈیلیوری کے مسائل سے نمٹنے کیلئے شدید مشکلات درپیش ہیں اور ان کے پاس مطلوبہ لوازمات ؍ سامان میسر نہیں۔ خیمہ مکینوں کو طبی مسائل کا سامنا ہے اور ڈاکٹرز کی کمی درپیش ہے۔ موبائل ہیلتھ یونٹس یا تو موجود نہیں، اگر ہیں تو خیمہ مکینوں کی تعداد کے اعتبار سے انتہائی کم ہیں۔ متاثرین کو کھانا اور پانی وغیرہ ایک خاص لمٹ میں رہ کر دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ سیر نہیں ہو پاتے۔ متاثرہ مویشیوں کیلئے چارہ متواتر میسر نہیں آ پا رہا۔ خیمہ بستیوں میں ڈینگی سر اٹھا رہا ہے۔ ایک ایک خیمے میں بڑی فیملیوں کے 8آٹھ لوگ مکین ہیں جبکہ خیموں کا سائز بہت چھوٹا ہے۔ لوگ رات کے وقت خیموں سے باہر اور زمین پر ہی سونے پر مجبور ہیں۔ خیمہ مکینوں کے پاس، تن پر موجود لباس کے سوا پہننے کو مزید کپڑے موجود نہیں۔ متاثرہ علاقوں میں موبائل سگنلز کا بہت ایشو ہے جس کی وجہ سے رضا کاروں کو ایک دوسرے سے رابطے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ پرائیویٹ کشتیوں والے انخلا کیلئے لوگوں سے تین، 3لاکھ روپے تک وصول کر رہے ہیں اور اس ضمن میں وہ کسی کی سننے پر تیار نہیں، بلکہ مکمل طور پر بے حس اور مفاد پرست بنے بیٹھے ہیں۔ یعنی میری کشتی، میری مرضی۔ جہاں حکومت سر پر بیٹھ کر ریلیف ایکٹیویٹی کر رہی ہے، وہاں ریسکیو ورک ٹھیک چل رہا ہے، لیکن جہاں حکومت بذات خود موجود نہیں، وہاں لوگ صحیح معنوں میں امداد، انخلا، آباد کاری کیلئے ارباب اختیار کو کوس رہے ہیں۔ خیموں میں رات کے وقت تاریکی ہے، اگر بجلی کی سہولت میسر ہے تو پنکھوں کی قلت ہے۔ یعنی، زندگی مشکل سے بھی زیادہ کٹھن ہے۔ ان حالات میں مختلف این جی اوز اگرچہ اپنے دستیاب وسائل کے مطابق خدمات سر انجام دے رہی ہیں، لیکن مجھے الخدمت فائونڈیشن کا یہ اقدام سب سے مختلف، منفرد اور اچھوتا دکھائی دیا کہ وہ سیلاب متاثرین مرد و خواتین کو مختلف کام دے کر انہیں ذمہ داری ادا کرنے کا معاوضہ دے رہے ہیں۔ یوں الخدمت کے کیمپوں میں متاثرین کی غیر محسوس طریقے سے امداد کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔
بلاشبہ اِس مشکل گھڑی میں سیلاب زدگان کے لیے پناہ گاہوں، خوراک، پانی، جانوروں کے لیے چارہ فراہمی سمیت ان کی دیگر ضروریات پوری کرنا صرف انتظامی فریضہ نہیں بلکہ انسانی ذمہ داری بھی ہے، اور ہم سب کو مل کر یہ ذمہ داری نبھانی ہے۔۔۔ کیونکہ سیلاب کا پانی تو ایک دن اتر جائے گا لیکن متاثرین کے دلوں کے کرب کی لہر ماند ہونے کیلئے اک زمانہ درکار ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button