سیلابی تباہی، قدرتی آفت یا انسانی کوتاہی کا نتیجہ

سیلابی تباہی، قدرتی آفت یا انسانی کوتاہی کا نتیجہ
روشن لعل
سیلاب کی تباہ کاریاں، بھارتی پنجاب کے علاقوں سے سرحد عبور کرتی ہوئیں پاکستان کے وسطی پنجاب میں اپنے نشان چھوڑنے کے بعد جنوبی پنجاب میں ریکارڈ تباہی برپا کرتے ہوئے صوبہ سندھ میں داخل ہو چکی ہیں۔ سیلابی تباہی کے متعلق دو قسم کی رائے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ایک رائے کے مطابق یہ تباہی قدرتی جبکہ دوسری رائے رکھنے والے لوگ اسے انسانی غلطیوںکے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ حالیہ سیلاب کا سبب وہ انتہائی غیر معمولی بارشیں بنی ہیں جن کی وجہ ان ماحولیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا جاتا ہے جو انسانوں کے قدرتی ماحول پر منفی اثرات مرتب کرنے والے افعال کے باعث رونما ہوئی ہیں۔ قدرتی ماحول پر منفی اثرات مرتب کرنے والے انسانی افعال کو حالیہ سیلاب برپا کرنے والی بالواسطہ انسانی غلطیاں تو تصور کیا جاسکتا ہی مگر ان کا الزام پاکستان میں بسنے والے کسی انسان کے سر پر نہیں تھوپا جاسکتا۔ اس کے برعکس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ حالیہ سیلاب کی تباہیاں، قدرتی نہیں بلکہ براہ راست انسانی غلطیوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں تو پھر ہماری مرکزی اور صوبہ پنجاب کی حکومتوں اور سیلاب کنٹرول کرنے کے لیے بنائے گئے محکموں کو بلا جھجھک ان کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔
کسی زمانے میں سیلاب کو بھی زلزلے کی طرح اچانک رونما ہونے والی قدرتی آفت تصور کیا جاتا تھا۔ اچانک رونما ہونے والی آفت ہونے کی وجہ سے اس کے نقصانات سے تحفظ ممکن نہ تھا۔ بعد ازاں سائنس کی ترقی نے حالات اس قدر تبدیل کر دیئے ہیںکہ پیشگی اطلاع کے نظام کی وجہ سے سیلاب، آناً فاناً ظاہر ہونے والی آفت نہ رہا۔ سیلاب کی پیشگی اطلاع کے نظام کے باوجود اس قدرتی آفت کے نقصانات سے سو فیصد بچائو اب بھی ممکن نہیں ہے تاہم سائنسی ترقی کی بدولت ہم عصر دنیا میں ایسے بہت سے انتظامات کر لیے گئے ہیں جن کی بدولت سیلاب کی تباہیوں کے نقصانات کو کم سے کم رکھا جاسکتا ہے۔ سیلاب کے نقصانات کی حد کو ہر ممکن طور پر کم سے کم رکھنے کے لیے پیشگی احتیاطی انتظامات کے ساتھ اس آفت کے رونما ہونے کے دوران بچائو کے جو طریقے وضع کیے گئے ہیں ان پر عمل کرنا راکٹ سائنس ہرگز نہیں ہے۔ سیلاب سے بچائو کی پیشگی احتیاطی تدابیر میں یہ باتیں شامل ہیں کہ سب سے پہلے سائنٹفک طریقوں سے اخذ کی گئی اس پیش گوئی کو اہمیت دی جائے جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ جو بارشیں سیلاب برپا کرنے کا باعث بن سکتی ہیں وہ اس مرتبہ معمول کے مطابق یا پھر کس حد تک معمول سے کم یا زیادہ برسیں گی۔
اگر پیش گوئی معمول کے مطابق یا معمول سے کم بارشیں برسنے کی ہو تو پھر سیلاب کا امکان ختم یا انتہائی کم ہو جاتا ہے لیکن معمول سے زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کے بعد سیلاب کی آمد کا امکان ، یقین کی حد تک بڑھ جاتا ہے ۔ ایک دہائی پہلے تک سائنسی ترقی صرف اس حد تک ہوئی تھی کہ اس کے ذریعے معمول کے مطابق ، معمول سے کم یا معمول سے زیادہ بارشیں برسنے کی پیش گوئی کی جاسکتی تھی لیکن اب مزید سائنسی ترقی کی بدولت یہ پیشگوئی بھی ممکن ہو چکی ہے کہ کسی خطے کے کون سے علاقے میں بارشیں کتنے فیصد تک معمول سے کم یا معمول سے زیادہ برسیں گی۔ کسی پیش گوئی میں جتنے فیصد زیادہ بارشوں کا امکان ظاہر کیا گیا ہو اتنا ہی زیادہ سیلاب کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے اور اس امکان کے مطابق سیلاب سے تحفظ کی تیاریاں کرنا لازمی ہو جاتا ہیں۔ راقم نے اپنے گزشتہ کالموں میں پہلے بھی یہ ذکر کیا تھا کہ رواں مون سون شروع ہونے سے پہلے، سائوتھ ایشین کلائمیٹ آئوٹ لک فورم نے ماہ اپریل کے آخر میں پاکستان میں بہنے والے دریائوں کو سیراب کرنے والے مختلف علاقوں میں معمول سے 30تا 70فیصد، زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کی تھی۔ افسوس کہ ہمارے ہاں اس پیش گوئی کے مطابق ممکنہ سیلاب سے نمٹنے کی تیاریاں کہیں نظر نہ آئیں۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو لوگ حالیہ سیلاب سے برپا ہونے والی تباہی کو انسانی غلطیوں اور کوتاہیوں سے جوڑ رہے ہیں وہ کس حد تک درست ہیں۔
دریائی سیلاب کے ممکنہ خطرات اور نقصانات سے نمٹنے کے لیے اس کے بہائو کی کیفیت کو مختلف درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان درجوں کو نچلے، درمیانے، اونچے، بہت اونچے، بہت زیادہ اونچے اور انتہائی اونچے درجے کے سیلابوں کا نام دیا گیا ہے۔ ہر دریا میں، سیلاب کے ان درجوں کی پیمائش کے لیے پانی کے بہائو کی مختلف حدیں مقرر کی گئی ہیں۔ سیلاب کے ان درجوں کے علاوہ ہر دریا کے لیے پانی کے بہائو کی ایک معمول کی حد بھی طے ہے۔ سیلاب کے خطرے سے خبردار رکھنے اور خطرے کے مطابق امدادی کاموں کے لیے وارننگ اور ریلیف کے دو علیحدہ شعبے قائم ہیں۔ دریائوں میں پانی کے معمول سے زیادہ بہائو کی صورت میں وارننگ دینے والے شعبہ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہر لمحہ خود باخبر رہنے کے ساتھ نہ صرف ریلیف سے متعلق شعبے کو اس بات سے آگاہ رکھے کہ سیلاب کا درجہ کیا ہے بلکہ ساتھ ہی یہ اطلاع بھی دے کہ دریا کے کسی خاص مقام پر پانی بلند یا کم ہو رہا ہے یا اس کی سطح جوں کی توں ہے۔ اس اطلاع کے بعد امداد پر مامور شعبے کے لیے اپنی آئندہ کی حکمت عملی تیار کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ سیلاب کے دنوں میں وارننگ اور ریلیف کا کام کرنے والے شعبوں کی معاونت کے لیے محکمہ موسمیات کو خاص طور پر تیار رہنا ہوتا ہے۔ محکمہ موسمیات نہ صرف مختلف علاقوں میں ہو چکی بارش کی مقدار کی اطلاع دیتا ہے بلکہ آئندہ ممکنہ طور پر برسنے والی بارشوں کی پیش گوئی بھی کرتا ہے۔
جن محکموں کی ذمہ داری سیلاب کے امکانات سے آگاہ رہنا اور آگاہی آگے منتقل کرنا تھا انہوں نے کس طرح سے غفلت کا مظاہرہ کیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے صوبہ ہماچل پردیش میں راوی، ستلج اور بیاس دریائوں پر بنائے گئے جن ڈیموں سے اچانک چھوڑے گئے پانی نے ہمارے ملک میں تباہی برپا کی، ان ڈیموں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے بھارت نے وہاں سے پانی کے بڑے ریلے تو اچانک چھوڑے گئے لیکن ان ڈیموں میں پانی اچانک اور آناً فاناً ذخیرہ نہیں کیا گیا تھا۔ مورخہ21۔08۔25کو بھارت کا بھاکھڑہ ڈیم 80فیصد، پونگ ڈیم87فیصد اور تھیئن ڈیم85فیصد تک بھرے جاچکے تھے۔ تقریباً سو فیصد تک بھرے جاچکے ان ڈیموں کے سیلاب برپا کرنے کا امکان کس حد تک بڑھ چکا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ برس 21۔08۔24کو بھاکھڑہ دیم کل گنجائش کا 57فیصد، پونگ ڈیم60فیصد اور تھیئں ڈیم 30فیصد تک بھرا جاسکا۔ حالیہ مون سون کے موسم میں 30سے70 فیصد زیادہ بارشوں سچ ثابت ہو چکی پیش گوئی کے دوران ہمارے فلڈ کنٹرول سے وابستہ محکمے اگر بھارت کے ڈیم سو فیصد بھرے جانے کے باوجود بھی سیلاب کا خطرہ محسوس کرنے ، اس خطرے کے مطابق تیاری کرنے اور لوگوں کو باخبر رکھنے میں ناکام رہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنی بڑے کوتاہی کے مرتکب ہوئے ۔ یہ انسانی کوتاہی اور غلطی ہی ہمارے ملک میں برپا ہونے والی سیلاب کی تباہ کاریوں کی بڑی وجہ سے۔





